• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تخلیق کی تخریب کا دکھ اور خالق کا پیغام سمجھیں۔۔مرزا شہباز حسنین بیگ

تخلیق کی تخریب کا دکھ اور خالق کا پیغام سمجھیں۔۔مرزا شہباز حسنین بیگ

بچپن میں کچی مٹی اور گارے سے مختلف کھلونے بنا کر کھیلا کرتے تھے۔ کبھی مٹی سے کمرہ بنایا جاتا ،کبھی میز ،کبھی کرسی، مختلف چیزیں بنا کر پھر ان کو دھوپ میں خشک کرنا۔ بہت خوشی ملتی تھی ،جب مٹی سے ہمارا کھلونا مکمل تیار ہو جاتا۔ اک دفعہ ایسے ہی مٹی گارے سے اک پُل بنایا، نیچے ستون بناکر پُل تیار کر کے خوش ہو رہا تھا۔ اچانک اک ہم عمر لڑکا دوڑ کر آیا اور لات مار کر مکمل پُل توڑ ڈالا۔ایک دم سے ساری خوشی رفو چکر ہو گئی۔ ۔اور شدید غصے کی حالت میں لڑکے سے لڑائی شروع کر دی۔ بلکہ ٹھیک ٹھاک دھنائی کی۔ وہ بچہ تو روتا ہوا چلا گیا مگر اپنی محنت اور تعمیر کیے گئے کھلونے کے ٹوٹنے سے اتنی تکلیف محسوس ہوئی کہ زاروقطار رونے لگا۔ تب پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ چیز کے ٹوٹنے پر کس قدر دکھ ہوتا ہے۔

زندگی میں بہت دفعہ ایسے واقعات ہم پر بیتے، ان سب واقعات اور مشاہدات کے بعد میں تو اس نتیجے پر پہنچا کہ بھائی ہمیشہ تعمیر کرنے والے بنو ،تخریب کاری نہ کرو ،نہ  اس کا حصہ بنو۔

اب بھائیو جس خالق نے پوری کائنات تخلیق کی انسانوں کے لیے، اس خالق حقیقی کے متعلق ذرا غور کریں،کہ کس قدر محبت ہو گی خالق کو اپنی تمام تخلیقات کے ساتھ۔

خالقِ کائنات نے تمام مخلوقات میں سے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔

یاد رہے میری تحریر ان احباب کے لیے  ہے،جو خالق کائنات کے ہونے کا یقین رکھتے ہیں۔
انسان خالق کو اپنی تخلیق کردہ تمام مخلوقات میں سب سے عزیز ہے۔ انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نواز کر خلق کیا گیا۔
خالق کائنات نے فرمایا۔
بے شک (خدا) جمیل ہے یعنی خوب صورت ہے اور خوب صورتی کو پسند کرتا ہے۔۔۔
اب انسان کے لئے خدا نے ان گنت تخلیقات کیں۔
نباتات ،دریا، سمندر، اشجار، خوب صورت وادیاں ،حسین وجمیل پھول پودے ،نیلگوں آسمان،تاکہ دنیا میں موجود انسان کی ہر ضرورت پوری ہو سکے۔ اور وہ خدا کی تخلیق کردہ نعمتوں سے لطف کشید کر سکے۔ چاند تارے سورج سب کو اک نظم کیساتھ قائم کیا۔ پھر ان کو انسان کے لئے سودمند بنایا۔ خدا نے تمام مظاہر فطرت کو اک ترتیب اور نظام کے تحت قائم کیا۔
انسان کو عقل و شعور سے نواز کر ، سوچنے کی صلاحیت کے ساتھ بھیجا کہ جا کر اس زمین پر زندگی گزار لو ،اور خالقِ  حقیقی کی تخلیقات سے اپنی زندگیوں کو آسودگی فراہم کرو۔
اب تخلیق کار کی محبت کو سمجھ کر حضرت انسان کو استفادہ حاصل کرنا چاہیے تھا۔میرے خیال میں خالقِ کائنات کا فقط ایک ہی پیغام ہے، جس پر عمل کرنا بے حد ضروری ہے۔
“جیو اور جینے دو”۔خدا کی ہر تخلیق سے محبت کرو، خدا کے بنائے نظام کے ساتھ چھیڑ چھاڑ  تخریب کی نیت سے   نہ کرو،مگر آج کی دنیا جس میں انسان اپنی  عقل و خرد کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔ وہ  یہ سوچ بیٹھا ہے کہ اب وہ جیسے چاہے جب چاہے جس طرح چاہے اس دنیا کو اپنی انگلیوں پر نچا سکتاہے۔

برسوں پہلے اک شاعر نے کہا تھا جو آج کی صورتحال پر بھی صادق آتا ہے۔
بندہ خدا بننے کی کوشش میں ہے مصروف
لیکن یہ تماشا بھی خدا دیکھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔

انسان نے مظاہر فطرت کا بے دردی سے استعمال بھی کیا اور ان کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔انسان نے انسان کو نیست و نابود کرنے والے ہلاکت خیز ہتھیار بنا ڈالے،پھر کہیں رنگ و نسل کی بنیاد پر،کبھی مذہب کے نام پر،کبھی تہذیب کے نام پر،ان ہلاکت خیز ہتھیاروں کا انتہائی سفاکی اور بے رحمی سے استعمال کرتے ہوئے۔ لاکھوں انسانوں اور دوسری مخلوقات کو صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔جاپان، ہیروشیما ،ناگاساکی میں انسان نے دوسرے انسانوں کے لیے قیامت برپا کی۔جو عقل کے سنگھاسن پر سب سے اوپر براجمان تھے۔انہوں نے انسانیت اور مخلوقات کی بقاء کے لیے کم اور فنا کے لیے زیادہ دلچسپی کا اظہار جابجا کیا۔

جب چاہا جیسے چاہا جس خطے میں چاہا نسل انسانی کی زندگیوں کو بے توقیر کیا۔ اپنے علم عقل اور ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال سے معصوم بچوں سے لے کر بوڑھوں تک کی دنیا اُجاڑ دی۔انسان نے اشرف المخلوقات ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے،خدا کی بے بس مخلوقات سے خالقِ کائنات کی محبت کو فراموش کر دیا۔بے بس ،لاچار اور مجبور نوحہ کناں ہیں ،خالق حقیقی سے التجائیں کرتے ہیں، مگر خالق تو بے نیاز ہے،بے نیازی سے سب دیکھ رہا ہے۔مگر خالق ہمیشہ شان بے نیازی کے ساتھ ازل سے انسان کو پیغام بھی دیتا آیا ہے ،خالق انسان کو اپنے انداز سے پیغام دیتا ہے،کہ سدھر جاؤ نہ کرو پنگے۔میری تخلیق سے میری محبت کو سمجھو،اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ کھلونے ٹوٹنے پر تو دکھ محسوس کرتے ہو،مگر میری تخلیقات اور میرے قائم کیے گئے نظام کی دھجیاں بکھیرنے پر ہر دم کمر بستہ رہتے ہو۔
کیوں آخر کیوں؟
کلسٹر بم ،ایٹم بم ،ہائیڈروجن بم ،تو اتنی صلاحیت کے بناتے ہو کہ لمحوں میں میری بنائی دنیا راکھ ہو جائے،مگر میری بنائی دنیا میں انسانی جانوں کے ضیاع کو روکنے کے لئے تم وینٹی لیٹر قلیل تعداد میں بناتے ہو۔

علم و ٹیکنالوجی کے بھگوان۔۔فناکے لیے مہلک ہتھیار انتہائی سریع الحرکت اور لمحات میں تباہی پھیلانے والے لاتعداد بنا کر محفوظ کر لیتے ہیں۔
اور مخلوق کی بقاء کے لیے ان کے پاس محدود وسائل اور محدود ٹیکنالوجی کے بہانے آجاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

زمین کے خود ساختہ خداؤں سے خالق حقیقی آج پوچھ رہا ہے۔
کہ انسانی بقاء کے لیے تمہاری عقل کیوں کم پڑ گئی۔ تمہارے وسائل کیوں محدود ہو گئے۔ تم سے اک منحنی سے وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹیکنالوجی موجود نہیں۔ جبکہ  تم خلاؤں کو تسخیر کرنا چاہتے ہو، اربوں ڈالرز اور وسائل بربادی اور تباہی کے لیے جھونکتے ہو۔ انسانی صحت کیلئے   ضروری عام سی چیزیں انسانوں کے لیے وافر مقدار میں دستیاب نہیں۔
بھائی کرونا وائرس خالق حقیقی کا سیدھا سادہ پیغام ہے۔
اپنی ترجیحات کا ازسر نو جائزہ لو۔
مخلوق سے محبت کرو مخلوق کی بقاء کو مقدم رکھو۔
تعمیر کرو،تخریب نہ کرو۔
آسانیاں تقسیم کرو تمام انسان اپنی بقاء کو مقدم جانو ،فنا اور تخریب سے باز آ جاؤ۔
ساری عقل سارا علم ساری ٹیکنالوجی اک وائرس کے آگے ٹھس ہو چکی ہے۔
اس لیے اب انسان کو اپنی ترجیحات میں تبدیلی لانا ہو گی۔ ورنہ خالق تو اپنی شان بے نیازی سے ٹریلر دکھاتا رہے گا۔

Facebook Comments

مرزا شہبازحسنین
علم کا متلاشی عام سا لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply