پاکستان میں دیوالی کی روشنیاں چہار سو بکھر گئیں

ہندو مذہب میں دیوالی کو خاص اہمیت حاصل ہے، یہ ہندو بھگوان رام کا بن باس ختم ہونے اور روشنیوں کا تہوار ہے اوراس موقع پر ہندو برادری انتہائی عقیدت و احترام سے تقریبات کا اہتمام کرتی ہے۔

دیوالی کی تاریخ بے حد قدیم ہے اورہندو مت کے قدیم پرانوں میں اس کا ذکر ’روشنی کی اندھیرے پر فتح کے دن‘ کے طور پر کیا جاتا ہے۔ دیوالی در حقیقت 5 روزہ تہوار ہے جس میں اصل دن ہندو کلینڈر کے مطابق ’کارتیک‘ نامی مہینے کا پہلا دن ہے۔ تقریبات کا آغاز 2 روز پہلے کیا جاتا ہے اور یہ نئے چاند کے طلوع ہونے کے 2 دن بعد تک جاری رہتی ہیں۔

دیوالی ہندو، جین اورسکھ دھرم کے پیروکار مناتے ہیں، ان کے عقائد کا ماخذ کئی ہندوستانی اساطیر ہیں ۔ تاہم اہم مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ دیوالی اندھیرے پر روشنی کا غلبہ، نادانی پر دانشوری کا غلبہ، برائی پر اچھائی کا غلبہ اور مایوسی پر اُمید کا غلبہ ظاہر کرنا ہے۔

یوگا، ویدانتا اور سانکھیہ ہندو فلسفہ، کے مطابق مرکزی فلسفہ یہ ہے کہ کہ کچھ ایسی بات ہے جو مادی اجسام اور ذہن سے بالا تر ہے، جو خالص، لامتناہی، لافانی جسے آتماں کہتے ہیں۔ دیوالی کا منانا گویا کہ برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتاہے۔ اسی طرح روشنی کو تاریکی پر فتح تصور کیا جاتا ہے۔ دیولی روحانی تاریکی پر داخلی روشنی کا غلبہ تصور کیا جاتا ہے،جہالت پر علم و فراست کی جیت، کذابت پر صداقت کی جیت اور برائی پر اچھائی کی جیت تصور کیا جاتا ہے۔

ہندو برادری اس موقع پرخصوصی اہتمام کرتی ہے۔ نئے لباس زیب تن کیے جاتے ہیں، گھروں اوربازاروں کی صفائی ستھرائی کی جاتی ہے۔ دیا اور رنگولی دیوالی کے تہوار کے اہم جزو ہیں اور بچے اس موقع پر آتش بازی کرتے ہیں جبکہ مندروں میں لکشمی پوجا کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پرساد تقسیم ہوتا ہے۔

پاکستان کی ہندو برادری بھی اس موقع پر خصوصی عبادات اور تقاریب کا اہتمام کرتی ہے۔اے آر وائی نیوز کی ٹیم نے اس موقع یہ جاننے کے لیے ساحل سمندر کلفٹن کے کنارے واقع ’شری رت نیشور مہا دیو مندر‘ کا رخ کیا کہ پاکستان میں ہندو برادری دیوالی کی رات کس طرح گزارتی ہے۔

جب ہم مندر پہنچے تو سامنے کے بالائی احاطے میں کئی بچے پٹاخے پھوڑنے اورپھلجھڑیاں جلانے میں مشغول تھے۔ یہ مندر ایک سمندری غارمیں قائم ہے اور اس میں داخل ہونے کےلیے سیڑھیاں اتر کر اندر جانا ہوتا ہے۔ مندر میں داخل ہوتے ہی اگربتی اور گلاب کی ملی جلی خوشبواور ندیم نامی ایک خدمت گارنے ٹیم کا استقبال کیا۔

شری رت نیشور مہا دیو مندرکم ازکم ڈیڑھ صدی سے اس مقام پر قائم ہے اوراسے کراچی میں مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ یہاں ہندو مت کے لگ بھگ 100 بھگوانوں کی مورتیاں موجود ہیں جنہیں انتہائی خوبصورتی سے شیشے کی دیواروں میں آراستہ کیا گیا ہے۔

مندر میں آنے والے زائرین اپنے عقیدے کے مطابق یہاں مختلف دیوی دیوتاؤں کے آگے اگر بتیاں جلا کر اپنی مذہبی شردھا (عقیدت) کا اظہار کر رہے تھے حالانکہ مندر انتظامیہ کی جانب سے جگہ جگہ بورڈ آویزاں تھے جن پر اگر بتی جلانے کی ممانعت درج تھی۔

اس روز مندر میں آنے والے زائرین کے چہرے دیوالی کی خوشی سے تمتمارہے تھے اوران کے لباس اور آرائش و زینت سے اس بات کا اظہار ہو رہا تھا کہ آج ہندو برادری اپنا مذہبی تہوار منا رہی ہے۔مندر میں ہندو مت کے مختلف بھگوان موجود ہیں جن کے آگے زائرین اگر بتیاں جلاتے ہیں، پھول نچھاور کرتے ہیں اورگھنٹیاں بجا کر مذہبی سکون حاصل کرتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

دیوالی کے موقع پر مندر میں جا بجا جلتے دیے، اگربتیوں سے اٹھتا ہوا دھواں اورارد گرد موجود دیوی دیوتاؤں کے قد آدم اور دیو ہیکل مجسمے مل جل کرماحول کو خوابناک اور پر کیف بنا رہے تھے جس کے سبب مندر میں موجود ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد پر ایک عجب مسرور کن کیفیت طاری ہو رہی تھی، ایک ایسی دلی کیفیت جو کسی بھی مذہبی تقریب کے موقع پر اس مذہب کے ماننے والوں کے دلوں کو دیوالی کے دیے کی طرح منور کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔


Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply