مغربی ممالک میں مسلم فوبیا اور نسل پرستی کا تعلق۔۔۔۔ارشد بٹ

9 ۔ 11 کے فضائی خود کش دہشت گرد حملوں سے قبل امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں سے نفرت یعنی مسلم فوبیا کا تذکرہ نہیں ملتا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت، امتیازی برتاوؤاور تشدد کے واقعات وبا کے طرح امریکہ اور یورپی ممالک میں پھیل گئے۔ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف کھلے عام کام کرنے والی تنظیموں کی بھرمارھو گئی جن کا نشانہ ان ممالک کے مسلمان شہری تھے۔ یہ سلسلہ ابھی تک تھما نہیں  ہے۔

9۔ 11 سے قبل نسل پرستی مختلف اقسام اور شکلوں میں اپنا اظہار کرتی رہی ہے۔ یہودی اور جپسی، عقیدے اور نسل کی بنیاد پر نفرت اور امتیازی سلوک کا شکار ہوتےرہے۔ انکی نسل کشی یورپین ممالک کی تاریخ پر بد نما دھبہ ہے۔ جبکہ ایشیا، افریقہ اور دیگر ممالک کے امیگرینٹس کے خلاف نسل پرستانہ بد سلوکی اورنفرت کی تاریخ صدیوں پرانی داستان نہیں ہے۔
اب مغربی ممالک کے مسلمان شہری نسل پرستانہ یلغار کی  زد میں ہیں۔ امریکہ اور یورپ میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک، بدسلوکی اور تشدد کے سینکڑوں واقعات رونما  ہو چکے ہیں۔ خواتین کے سروں سے زبردستی حجاب کا اتارا جانا، مسلمانوں پر تھوکنے اور تمام مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دیئے جانے کے کئی واقعات تواخبارات میں بھی رپورٹ ہو چکے ہیں۔ پیغمبراسلام حضرت محمد کے خلاف تضحیک آمیز زبان کا استعمال اور انکے خاکوں کی تشہر کرنا اسی مہم کا حصہ رہا ہے۔

مغربی ممالک میں انسانی حقوق کی تنظیمیں مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ماضی میں یہودیوں کے خلاف روا رکھی گئی بد سلوکی سے مشابہ قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلم فوبیا دراصل مغربی مسلم شہریوں کے خلاف نسل پرستی کا تسلسل ہے۔ نسل پرستانہ مسلم فوبیا کا واضح  نشانہ عربی، ایشیائی یا افریقی پس منظر رکھنے والے بظاہر مسلمان نظر آنے والی خواتین یا مرد ہوتے ہیں۔ یہ سفید فام نسل پرستی کی وہ شکل ہے جسے ،،انیٹی مسلم نسل پرستی،، کہا جا سکتا ہے۔

بعض حضرات یہ بھی کہیں گے کہ مسلمان کسی ایک نسل کا نام نہیں بلکہ یہ مختلف نسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لئے مسلمانوں کے خلاف منافرت اور امتیازی سلوک کو نسل پرستی نہیں  کہا جا سکتا۔ یہاں صرف اتنا کہنا مناسب ہو گا کہ کیا نسل پرستی اور مسلم فوبیا میں مماثلت ڈھونڈنا کوئی مشکل کام ہے۔ تعصب، امتیازی برتاو اور منافرت ان کے مشترکہ اجزا ہیں۔ نسل پرستی اور اسلام فوبیا کے اظہار کی اشکال میں بہت یگانگت پائی جاتی ہے۔ اسلام فوبیا مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ سماجی رویہ اور سوچ ہے جس کا مقصد مغربی مسلمان شہریوں کو سماجی عمل اور معاشی ترقی سے خارج رکھنا  ہو سکتا ہے۔

نسل پرستی اور مسلم فوبیا کے عملی اظہار یا انطباق میں بہت کم فرق دیکھنے کو ملتا ہے۔ دونوں کا طریقہ واردات ایک جیسا ہے۔ دونوں میں نفرت، تعصب، امتیازی رویہ اور تشدد کے مشترک اجزائے ترکیبی پائے جاتے ہیں۔ دونوں کسی انسانی گروہ کو نسل، رنگ، ثقافت یا عقیدہ کی بنیاد پر اپنی کارروائیوں کا نشانہ بناتے ہیں۔ نسلی امتیاز کے خلاف یورپین کمشن کی ایک رپورٹ میں اسلام فوبیا کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف تعصب اور نسل پرستی کی ایک قسم قرار دیا گیا ہے۔

انسان دوست مغربی محقیقن کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی برتاؤ  کو رنگدار امیگرینٹس کے خلاف نسل پرستانہ امتیازی سلوک سے علیحدہ کرنا ممکن نہیں۔ مسلم فوبیا نسل پرستی ہی کی ایک شکل ہے جسے اینٹی مسلم نسل پرستی کہنا درست ہو گا۔ تحقیق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مغربی مسلم شہریوں کے خلاف جرائم کے مرتکب اکثر افراد کا تعلق نسل پرست اور نازی گروہوں سے ہوتا ہے۔

القاعدہ، طالبان اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کی اسلام کے نام پر قتل و غارت گری، مغربی ممالک میں دہشت کردی کے واقعات میں مسلمانوں کا ملوث ہونا اور دہشت گردی کی دھمکیوں جیسے واقعات مسلم فوبیا پھیلانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی پامالی خصوصا ً مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بد سلوکی اور تشدد کے واقعات مسلم فوبیا کو ھوا دینے کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں۔ مسلم دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی غیر انسانی کاروائیوں کا خمیازہ بے قصور مغربی مسلم شہریوں کو بھگتنا پڑتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

9۔11 کے بعد مغربی مسلمان شہریوں میں مذہبی انتہا پسندی کے رجحان تیزی سے پرورش پانے لگے۔ ان ممالک میں مذہبی تنظیمیں مسلم نوجوانوں میں انتہا پسندی کا مداوا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ انتہا پسند رحجانات کے خلاف جدوجہد ایک صبر آزما کا م ہے۔ جسے بغیر رکاوٹ مسلسل جاری رکھنے کی ضرورت رہتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، دانشور، ترقی پسند اور لبرل سیاسی جماعتیں اور سیاسی کارکن، مسلم فوبیا اور مذہبی انتہاپسندی کے خلاف مسلسل متحرک رہ کر ان انسان دشمن رویوں کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply