چارلس ڈکنز لکھتا ہے”ایک مرد کی کشمکش اس وقت دوگنا ہوجاتی ہے جب وہ بھرے جسم کی خاتون سے ملتا ہے جس کا سینہ بھاری اور کولہے فراح ہو۔” اب آپ لوگ یہ مت کہنا کہ چارلس ڈکنز پشتون تھا یا وہ پشتو فلموں کا رسیا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ بھاری جسم کی خواتین مردوں کو زیادہ پسند ہوتی ہے بقول دادا حضور کے، کہ وہ مرد ہو۔
میں تعلیم کے سلسلے روس، مشرقی یورپ اور اٹلی مقیم رہا ہوں۔ یونیورسٹی یا کسی کلب میں، میں نے مردوں کے سر اس وقت گھومتے دیکھے ہیں جب کوئی بھاری سینہ یا فراح کولہے والی خاتون سامنے سے گزری ہو۔ ہماری بحث اس بات پر ہر گز نہیں ہے کہ ایک مرد کو جنسی طور کس قسم کی خاتون متاثر کرسکتی ہے۔ ہر مرد کی الگ الگ پسند ہوتی ہے۔ بلکہ ہم یہ واضح کرنا چاہیں گے کہ ایک بھرے جسم کی خاتون مرد کے حواسوں پر کتنی آسانی سے اثرانداز ہوتی ہے۔ ہمارے مشرق میں عورت کا معیار کا طریقہ ہی الگ چنا گیا ہے۔ ہزاروں سال پرانی ہندووں کی جنسی علوم کی مستند کتاب “کوک شاستر” اس کا واضح ثبوت ہے جس میں عورتوں کے خاکے ایسے بنائے گئے ہیں جو پتلی اور اوسط درجہ کے نسوانی خدوخال کی حامل ہوتی ہیں۔ اس کا ایک سائنسی نظریہ یہ ہوسکتا ہے کہ ناچ ہندو مذہب کی بنیادی تعلیمات میں سے ہے اس لئے ہندو ناریوں کو بچپن سے ناچ سکھایا جاتا جس سے ان کے جسم لچکدار، پتلے اور نسوانی اعضاء کسے ہوئے ہوتے – اس لئے ہندوستان میں ایک خوبصورت عورت کا تصور ایک پتلی اور نازک لڑکی کا ہے۔ تاریخی کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے اسلاف اور مومنین کو بھی بھاری جسم کی خواتین پسند تھیں۔ حالانکہ وہ پشتون نہیں تھے اور خٹک تو بالکل بھی نہیں تھے۔
المیہ اب یہ ہے کہ ہندوستانی فلم انڈسٹری نے اس معیار کو مزید ترویج دی جس سے ہمارے معاشرے میں بھی خوبصورتی کا تصور ایک لاغر و کمزور لڑکی کو جانا گیا۔ اگر کوئی لڑکی ہلکی سی بھی بھاری وجود کی ہو تو اس کو شادی کے قابل بھی نہیں جانا جاتا۔ کجا ہمارے فطرت پسندوں نے ایسے بھرے ہوئے وجودوں کو موٹی کا خطاب دیکر گویا گالی بنا دے ڈالی۔
یہ وہ شریفانہ قسم کے تجزئے ہیں جو ہم کسی اخبار میں کالم کے کالم میں تو لکھ سکتے ہیں یا کسی فورم پر جاکر یہ باتیں کرکے خواتین سے تالیاں پٹوا سکتے ہیں مگر چار مردوں یا بزرگوں کی محفل میں ہمارے یہ فرمودات گالیوں جیسے ہیں۔ ہمارے دادا حضور کا قول ہے “مرد کو گوشت پسند ہوتا ہے جبکہ ہڈیاں کتوں کو مرغوب ہیں”۔ اس قول کو آپ اپنی مرضی سے جہاں چاہیں استعمال کرسکتے ہیں اور پشتون اس قول کے اتنے سچے ہیں کہ صبح ناشتے میں بھی گوشت کھاتے ہیں ۔ ارے ہاں پشتونوں میں حسن کا معیار عورت کا بھاری بھر کم ہونا ہے۔ جب ہماری مائیں اپنے بیٹے کیلئے دلہن ڈھونڈنے کی مہم پر نکلتی ہیں۔ تو گھر میں متوقع دلہن کی خصلتوں اور خوبیوں میں سب سے نمایاں یہ ہوتی ہیں۔
“لڑکی کا وزن کتنا ہونا چاہیئے؟۔ کم از کم سو کلو تاکہ سر پر تین پانی کے مٹکوں پر ڈگمگائے نہ، اتنی طاقتور ہو کہ اکیلی ایک ایکڑ کی گندم کی کٹائی پر سانس نہ اکھڑے”۔ پیچھے سے گھر کی بزرگ خاتون اپنا آخری فیصلہ سنا کر بہو کو نئی بہو کی اپروول دیتی ہیں:
“تاج بی بی، لڑکی کا سینہ بھاری اور کولہے فراح ہو ورنہ دس بچے مشکل سے پیدا کریگی”۔
ہمارے پشتون قبائل میں درانی النسل پشتون خٹک، وزیر، محسود، مروت، اچکزئی اور ناصر اقوام لڑکی کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ پڑھے لکھے یار لوگ اس کو جاہلیت کا نام دیتے ہیں کہ یہ مذکورہ قبیلے اپنی بیٹیاں بیچتے ہیں جو ایک غیر انسانی عمل ہے۔ مگر پشتون ولی جو ایک قانون کا نام ہے اس میں واضح طور پر یہ بتایا گیا ہے، کہ یہ رقم لڑکے والے کی طرف سے لڑکی والوں کیلئے ایک تحفہ ہوتا ہے تاکہ ایک باپ اپنی بیٹی کو جہیز دیتے وقت اکیلا بوجھ نہ اٹھائے بلکہ ایک طرح سے لڑکے والوں کی طرف سے ایک مدد ہوتی ہے۔ لڑکی کیلئے نقد رقم ادا کرنا قدیم ان یہودی قبیلوں کی رعایت ہے جن کا تعلق پولینڈ اور مشرقی یورپ سے ہے، یہ اب متروک ہے۔ تاریخ دان اس بات پر متفق ہے کہ ہم پشتون یہودی النسل ہیں اور جنیاتی طور پر بھی پشتون ان سے کافی ملتے ہیں ان کے رسوم، خصلتیں اور رواج اج بھی انہیں یہودیوں جیسی ہیں جن کا روس، پولینڈ، فن لینڈ اور ارمینیا میں تعلق رہا ہے۔ یہ الگ بحث ہے۔ آجکل سنا ہے پشتون ولی کا یہ قانون اتنا آگے نکل چکا ہے کہ لوگ باقاعدہ اس کو بزنس بنائے بیٹھے ہیں۔
میری دادی کا کہنا ہے کہ اگر جس لڑکی سے آپ شادی کرو اور اس کا نہ سینہ ہو نہ کولہے تو کیا اچھا ہو کہ مرد لونڈا ہی پال لیں”۔ خوبصورتی کا معیار ہمارے ہاں عورت کا بھاری وجود ہی ٹھہرا ہے۔
میری شادی خاندان اور قبیلے سے باہر ہوئی ہے۔ جب میں اپنی بیوی کو لیکر گاوں جارہا تھا تو پورا گاوں چہ مہ گویوں کا شکار تھا کہ پتہ نہیں ہمارا یہ ناکارہ لونڈہ کہاں سے کسی کو پکڑ لایا ہوگا۔ کیسی دیکھتی یو گی۔ کیسے بولتی ہو گی۔ جانے سے پہلے بیوی کے سامنے ہاتھ پیر جوڑے کہ گاوں کی عورتیں جو پوچھے تم نے برا نہیں منانا ہے، ایسی نازک مزاج عورتوں کیلئے ادھر ہمارے پشتو میں ایک بہت برا لفظ ہے۔ لہذا میری عزت کی خاطر دو دن برداشت کرو اگر کسی کی کوئی بات بری لگ جائے تو بھلے کمرے میں اکیلا بلا کر مجھے ہاتھوں سے مارو یا ڈنڈوں سے میرا سر آپ کے سامنے نہیں اٹھے گا۔ اس شرط پر وہ مان گئی۔ ہم گاوں کیا وارد ہوئے کہ آس پڑوس کے سب گاؤں والے گھر میں جمع تھے۔ مردوں کیلئے باہر حجرے میں کھانے کا انتظام تھا ایسا لگ رہا تھا جیسے میری دوسری شادی ہورہی ہے۔
عورتیں میری بیوی کو دیکھ کر غش کھا گئیں کہ چھ فٹ تین انچ کی بیوی اور اوپر سے ایک سو بیس کلو وزن کیساتھ، گھر میں کہرام گیا۔ آماں نے چیخ ماری، دادی کا منہ بن گیا۔ میں پریشان کہ ماجرا کیا ہوا۔ ابا کے ماتھے پر پسینہ، خیر وجہ پوچھی کہ آپ لوگ کیوں پریشان ہو۔ اماں نے کپکپاتی آواز میں جواب دیا
“یہ بیوی کتنی میں پڑی ہے، کم از کم دس لاکھ کی تو ہوگی”۔
بتایا آماں یوسفزیوں میں شادی کے بدلے پیسے نہیں لئے جاتے بلکہ الٹا اپنے پلے سے بیس تولے سونا بھی دیتے ہیں۔ اماں اور ابا دونوں فرط جذبات سے میرے ساتھ لپیٹ گئے اور مشکور نظروں سے مجھے دیکھا۔ ابا کہنے لگے کہ “شکر ہے ورنہ اس بہو کو دیکھ کر میں پچھلے دو گھنٹوں سے یہی حساب کتاب لگارہا تھا کہ اس کی کل قیمت میری آبائی زمینوں کی بس کی بات نہیں ہے کہ اس کی قیمت ادا کی جایے”۔ آماں نے تڑاخ سے جواب دیا “یہ میرا ہی باپ تھا جس نے مجھے مبلغ نو سو پچاس زر نقد کے عوض آپ کے پلے باندھ دیا”۔ ابا کی یہ آواز صرف میں نے سنی کہ
“میرے بس میں ہوتا تجھے مفت میں بھی نہیں لیتا”۔
خیر گھر میں دادیاں اور نانیاں بار بار بیگم کو چارپائی سے اٹھا کر فرمائش کرتیں
“بہو دونوں ہاتھ اٹھا ذرا گھول گھول گھومنا”۔ بیوی جیسے ہی مجرا ختم کرتیں تو داد و تحسین کے ڈونگرے برسائے جاتے اور زیر لب فقط یہی کہا جاتا۔
“ماشاءاللہ لڑکا ہمارا حرامی ہے، ہاتھ بھاری مارا ہے”۔
ادھر ابا حجرے میں مردوں میں گویا تھے۔
” بیٹے نے حق ادا کردیا ہے، کیا بیوی لیکر آیا ہے۔ بندہ دیکھے اور مرجائے۔ خوشبو میں بسی ہوئی اپسرا ہے۔۔۔۔ ادھر ہماری والیاں ہیں۔ مہینوں بغل کے بال نہیں اتارتیں۔ رات کو بندہ قریب جائے تو گلے ملتے ہی بیہوش ہونے کا دل کرتا ہے۔ ان سے تو کھوتیاں اچھی ہیں کم از کم اتنی بو تو نہیں آتیں۔ ایک اپنا حرامی ہے ایسی بیوی لیکر آیا ہے، کہ اگر بندے کے پاس ایسی بیوی ہو۔ بس بندہ قریب جا کر لیٹ جائے اور کچھ کرے بھی ناں تو محسوسات ایسے ہوں گی جیسے پوری دنیا کی عورتوں کا مزہ چکھا ہو”۔
وہ دن اور آج کا دن جب میری بیوی کو معلوم ہوا کہ وزن ہی دراصل خوبصورتی کا معیار ہے تو دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرکے آج ماشاءاللہ ایک سو بتیس کلو پر آن کھڑی ہوگئی ہے اور اترا اترا کر ہل کر بار بار مجھے یاد دلاتیں ہیں
“شکر ادا کرو میری جیسی خوبصورت لڑکی نصیب ہوئی ہے ورنہ یہ منہ کسی کھوتی کے قابل بھی نہیں تھا”۔

آجکل شدت سے دل کررہا ہے کہ دادیوں اور نانیوں کے قبروں پر جاکر وہ کہہ آوں جو برسوں سے دل میں چھپاتے آیا ہوں۔ پھر سوچتا ہوں گناہ ملے گا قبروں سے بھی کسی کو گلہ ہوسکتا ہے۔ لاچار پھر جنت مرزا کے لچکتے مٹکتے چھ انچ کے کولہے دیکھ کر خود سے وعدہ کرتا ہوں ‘کیا ہوا کہ ہماری کمر جواب دے گئی ہے کم از کم اپنے بیٹے کی شادی تو پچیس کلو کی کسی بدکردار حسینہ سے کراونگا تو حسن کا معیار ہمارے گھر کچھ بدلے گا اور ٹک ٹاک پر لائیکس بھی ملیں گے’۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں