امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے۔۔۔اعوان خرم

مدینہ منورہ کے بجائے اب کوفہ مسلم اسٹیٹ کا کپیٹل ہے، سیدنا امام علی حکمران ہیں اور قاضی شریح بن الحارث کندی اس اسلامی مملکت کے چیف جسٹس. چیف جسٹس شریح بن الحارث کی عدالت میں ایک صبح ایک مقدمہ آتا ہے جس میں اس وقت کے حکمران اور مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ایک یہودی کے خلاف اپنا مقدمہ لے کر پیش ہوتے ہیں.
مقدمہ زرہ کی ملکیت کا ہے، سیدنا علی کی زرہ کہیں گم ہو جاتی ہے اور اس یہودی کے ہاتھ لگ جاتی ہے، زرہ واپس مانگنے پر یہودی موقف اختیار کرتا ہے کہ زرہ اس کی ہے اور حضرت علی کا دعویٰ  بے بنیاد ہے. حضرت علی اسی زرہ کے حصول کے لئے چیف جسٹس کی عدالت کا رخ کرتے ہیں اور بطور گواہ اپنے بیٹے سیدنا حسن اور اپنے غلام جناب قمبر کو پیش کرتے ہیں . چیف جسٹس غلام کی گواہی قبول کر لیتے ہیں مگر بیٹے کی گواہی کو قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں اور مزید کوئی اور گواہ طلب کرتے ہیں.
سیدنا علی کہتے ہیں کہ آپ حسن کی شہادت کو مسترد کرتے ہیں! کیا آپ نے اللہ کے نبی کا ارشاد نہیں سنا کہ حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں ۔ چیف جسٹس کہتے ہیں ’’سناہے، مگر میرے نزدیک باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں ۔‘‘
دوسرا گواہ نہ ہونے کی وجہ سے اسلامی ریاست کا چیف جسٹس امیر المومنین کے خلاف فیصلہ دیتے ہوۓ آرڈر جاری کرتا ہے کہ زرہ یہودی کی ہے اور عدالت اس کا حق ملکیت تسلیم کرتی ہے. یہودی ایسے شفاف نظام انصاف کو دیکھ کر بے حد متاثر ہوتا ہے اور اپنے جھوٹ پر شرمندہ ہو کر اس بات کا اقرار کر لیتا ہے کہ بے شک سیدنا علی کے پاس دوسرا گواہ نہیں مگر یہ زرہ  انہی کی ہے اور دین حق کو قبول کر لیتا ہے. سیدنا علی اس کے قبول اسلام پر وہ زرہ بطور تحفہ اسے دے دیتے ہیں.

اب اگر مدعی اور گواہ کے مقام و فضیلت کی بات کی جائے تو چیف جسٹس شریح بھی اس بات سے خوب واقف تھے کہ بروز حشر مالک کوثر کے پہلو میں جس ساقی کوثر سے ملاقات ہونی ہے وہ جناب سیدنا حضرت علی رضی اللہ ہی ہیں، جو اللہ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتے ہیں اور اللہ اور اس کا رسول انھیں محبوب رکھتا ہے.
مسلمان اپنی ہر سانس کے ساتھ جنت کا طلبگار ہے مگر سیدنا حسن ابن علی رضی اللہ عنہ کی شان کہ بوقت پیدائش ہی نہ صرف جنت بلکہ جنت کی سرداری کی بشارت سنا دی جاتی ہے۔ آغوش رسالت ص میں پرورش پانے والی ان پاک ذاتوں سے کذب بیانی کی توقع جہنم کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے مگر پھربھی کیا وجہ  ہے کہ سردار جنت کی شہادت کے باوجود ساقی کوثر کا دعویٰ خارج کر دیا جاتا ہے؟ وہ بھی ایک یہودی کے حق میں؟

اگر جذبات کی بنیاد پر سیدنا علی کے حق میں یہ فیصلہ کر دیا جاتا تو قیامت تک شاید ہی کسی اقلیت کے خلاف کسی مسلمان کا مقدمہ قانونی نکات پر سنا جاتا، قانون ثبوتوں اور گواہوں کی بنیاد پر فیصلے کرتا ہے نہ کہ جذبات کی بنیاد پر, ہمارے ہاں مگر رسم مختلف ہے. فالسے کے کھیت میں چند خواتین کے درمیان جھگڑا ہوتا ہے، بات گاؤں کے مولوی صاحب کے پاس انکی بیگم کے ذریعے پہنچتی ہے ایک مجمع لگتا ہے اور سینکڑوں افراد کی موجودگی میں تین عورتیں گواہی دیتی ہیں اور ملزمہ جس کا تعلق اقلیتی برادری سے ہے ہجوم کے سامنے جرم قبول کر لیتی ہے. مقدمہ درج ہوتا ہے اور ماتحت عدالت موت کی سزا سناتی ہے، اپیل ہا ئیکورٹ میں جاتی ہے اور موت کی سزا برقرار رہتی ہے، اپیل سپریم کورٹ میں جب سنی جاتی ہے تو عدم ثبوت اور گواہوں کے متضاد بیانات کو وجہ بنا کر ملزمہ آسیہ کو رہا کر دیا جاتا ہے.

اب سوال ہے کہ کیوں ماتحت عدالتیں ایک بے قصور کو پھانسی کے پھندے پر ٹانکنا چاہ رہی تھیں؟ سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو رہا تو کر دیا مگر جھوٹا الزم لگانے والوں پر توہین رسالت کا مقدمہ نہیں بنتا کیا؟ آسیہ بی بی نے کسی عدالت کے سامنے اقبال جرم نہیں کیا، اس کا واحد اقبال جرم ایک ہجوم کے سامنے ہے جس پر اس سارے مقدمے کی عمارت کھڑی کی گئی ہے. عام لوگ ہی نہیں پڑھے لکھے طبقے کے لوگ بھی آسیہ کو ہر صورت مرتا دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ اس پر توہین رسالت کا الزام لگا ہے. الزام ثابت نہ بھی ہو تو کیا ہوا. یہ تو پھر مسیحی ہے، اقلیت ہے. ہمارے پاس اکثریت سے بھی مثال موجود ہے.

١٩٩٤ کا گجرانوالہ شہر ہے، حافظ قرآن ڈاکٹر فاروق، تعلق جماعت اسلامی سے محلے کی مسجد کا لاوڈ اسپیکر بولتا ہے، حضرات ایک گستاخ نے قرآن پاک کی توہین کی ہے جلد سے جلد مسجد پہنچیں اس خبیث کو سبق سکھانا ہے. اعلان ختم ہونے سے پہلے ہی جو جس حالت میں تھا نکل کھڑا ہوا ۔مجاہدوں، غازیوں سمیت سارا محلہ جاگ اٹھا. مولوی صاحب کی قیادت میں مشتعل ہجوم ، منہ سے جھاگ آنکھوں سے وحشت اگلتا ڈاکٹر فاروق کے گھر کا گھیراؤ کر چکا تھا، آخر حافظ قرآن کو گھسیٹ کر گھر سے باہر نکالا گیا، سر پر اینٹیں ، پتھر مار کر کچلا گیا ، گلے میں رسی ڈالی ، تڑپتا لاشہ ، فخر و غرور سے گلی گلی گھسیٹا گیا ، نعرہ تکبیر ، نعرہ رسالت ، جنون ، جذبہ اور سنگ زنی و سنگساری. فاروق مر چکا تھا ، سب جنونیوں نے ڈھیر سارا ثواب کما لیا تھا. قرآن بلند ہوا ، حافظ قرآن بیدردی سے روندا گیا. بہت سے ان ہی سوچوں میں شامل  ہوئے ہوں گے ، ساری زندگی کتنے ہی گناہ کیے ، مگر الله کے حضور بخشش کا آج ٹھیک ٹھاک بندوبست کر لیا.

اخبارات میں واقعہ صفحہ اول کی زینت بنا اور تفتیش شروع ہوئی. بات کھلی، بیگم نے کسی رنجش کی وجہ سے کرسی پر بیٹھ کر قرآن پڑھتے فاروق کو دھکا دیا اورگود میں رکھا قرآن آتش دان میں جا گرا، رنجش نے بدلے پر اکسایا اور پھر گستاخ گستاخ کا شور. سر تن سے جدا کی تکبیریں اور ہجوم کا انصاف. بیگم جرم قبول کر چکی تھی. پھر تیسرا دن تھا ، محلے کی مسجد سے پھر حضرات ایک ضروری اعلان سنیے کی آواز آئی، سب کان کھڑے ہوئے ، سب ہوشیار ہوئے ، الله رحم آج پھر سے کوئی ؟ جس مسجد سے ڈاکٹر فاروق کو جہنم واصل کرنے کا اعلان ہوا تھا ، بروز سوئم اسی مسجد سے اعلان ہو رہا تھا ، حضرات ڈاکٹر حافظ فاروق صاحب کی رسم قل آج ہونی ہے ، تمام حضرات شرکت فرما کر ثواب داریں حاصل کریں.

Advertisements
julia rana solicitors

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان
امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply