ماتم چھوڑیں ۔۔۔ کام کریں (اسحاق ڈار)۔۔۔۔۔محمد احسن سمیع

نوٹ: سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب کا یہ مضمون آج دی نیوز میں شائع ہوا اور اس کا اردو ترجمہ روزنامہ جنگ میں چھپا۔ جنگ میں چھپے اردو ترجمے کا جب اصل انگریزی مضمون سے موازنہ کیا تو محسوس ہوا کہ یا تو مترجم کی صلاحیت ناقص ہے یا پھر عمداً ناقص ترجمہ کیا گیا ہے تاکہ قاری کو الجھا کر حقائق کو غیر مؤثر کیا جاسکے۔ اس لئے راقم نے ضروری سمجھا کہ اصل انگریزی متن سے مراجعت کرتے ہوئے دوبارہ ترجمہ کیا جائے تاکہ مصنف کا مطمع نظر واضح ہوسکے اور قاری ترجمہ اور گرائمر کی غلطیوں میں الجھے بغیر حقائق کا تجزیہ کرسکے۔

موجودہ حکومت کی جانب سے عوام کے سامنے میڈیا کے ذریعے عوامی قرضوں (پبلک ڈَیٹ) پر شدیدبیان بازی کی جاچکی ہے، ایسا شاید اپنی نااہلی، غیر مؤثر حکومت کاری اور عوام دشمن پالیسیوں پر سے توجہ ہٹانے کےلئے کیا گیا ہے جو ان کی حکومت کے پہلے 70روز میں ہی نہایت واضح ہوچکی ہیں۔ یہ بات سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ ہر حکومت کو اس کی میعاد کی آغاز پر عوامی قرضوں کا ایک اوپننگ بیلنس پچھلی حکومت سے منتقل ہوتا ہے۔ اس اوپننگ بیلنس میں بعد ازاں اس کے دور اقتدار میں ایک تو وہ قرضہ جات شامل ہوتے جاتے ہیں جو سالانہ بجٹ خسارے کے سبب حاصل کرنا پڑتے ہیں ، دوسرےاس دوران پاکستانی روپے کی قدر میں کمی کی وجہ سے غیرملکی قرضہ جات کی قدر میں جو اضافہ (کنورژن لاس کی صورت ) ہوتا ہے وہ بھی مجموعی ملکی قرضہ میں شامل ہوتا رہتا ہے۔ چونکہ مذکورہ بجٹ خسارہ پارلیمنٹ سے منظور شدہ ہوتا ہے اس لئے یہ تمام عمل نہ صرف مکمل طور پر شفاف اور پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہو تا ہے بلکہ اس میں کسی کے لئے بھی کوئی پوشیدہ مفاجات نہیں ہونے چاہئیں۔

جب مسلم لیگ ن کی حکومت نے جون 2013 میں میاں محمد نواز شریف کے بحیثیت وزیر اعظم اپنے دور کا آغاز کیا تو اسے کئی چیلنجز ورثے میں ملے جیسے کہ ایک بڑا مالیاتی خسارہ، قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ، ادائیگیوں کے توازن کا منفی رجحان، زر مبادلہ کے قلیل ذخائر ، ٹیکس آمدن کی ناکافی شرح نمو، سکٹرتی ہوئی ٹیکس اساس، بے قابو ہوتے جاری (کرنٹ) اخراجات، دیوقامت گردشی قرضے جو انرجی سیکٹر کو جکڑتے چلے جارہے تھے، ملک سے سرمائے کا انخلاء ، کمزور ہوتی شرح تبادلہ اور (ملکی معیشت پر) سرمایہ کاروں کا خطرناک حد تک کم ہوتا اعتماد۔ بیرونی محاذ پر صورتحال یہ تھی کہ تیزی سے خراب ہوتے معاشی اشاریوں اور مستقبل قریب میں ملک کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی بظاہر عدم صلاحیت کے باعث تمام اہم ترقیاتی شراکت داروں نے معاونت سے ہاتھ کھینچ لیا تھا۔ درپیش بیرونی مشکلات میں سے ایک مرکزی چیلنج بیرونی فناسنگ کی عدم موجودگی تھی جس کے باعث ملکی ایکسچینج مارکیٹس میں تلاطم برپا تھا اور مجموعی عوامی قرضہ جات کا تناسب اندرونی قرضوں کی سمت منتقل ہو رہا تھا اور وہ بھی قلیل مدت میں واجب الادا ہونے جارہے قرضوں کی شکل میں جس کی وجہ سے ان قرضہ جات کے زیادہ شرح سود پر رول اوور اور ری فنانسنگ کے خطرات بھی بڑھ رہے تھے۔ اسٹیٹ بینک کے زر مبادلہ کے ذخائر جو جون 2013 میں 6 ارب ڈالر تھے ، بازاری افواہ سازوں کی ملکی معیشت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے کی گئی مرتکز کاوشوں کے سبب کم ہوکر فروری 2014 میں 2 اعشاریہ 8 ارب ڈالر کی سطح تک آگئے تھے۔ ان افواہ سازوں کی حرکتوں کو تحریک انصاف کے اس وقت کے ایک رکن قومی اسمبلی کی ستمبر 2013 میں کی گئی غیر ذمہ دارانہ بیان بازی نے بھی جلا بخشی جب انہوں نے ڈھٹائی کے ساتھ دعوی کردیا تھا کہ ڈالر کی شرح تبادلہ جلد ہی 127 روپے تک پہنچ جائے گی! الغرض یہ ملکی معیشت کو چلانے اور بیرونی کھاتوں کو سنبھالا دینے کے لئے انتہائی نازک، غیر مستحکم اور دھماکہ خیز حالات تھے۔

2013 کے اوائل میں یہ پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ آنے والے حالات کے تدارک کے لئے اگر جلد ہی ناگزیر اقدامات نہیں اٹھائے گئے تو ملک دیوالیہ ہوجائے گا۔ یہ پیش گوئیاں امور مالیات کے ماہرین نے اس وقت درپیش دقیق معاشی صورتحال کا جا ئزہ لینے کے بعد کی تھیں اور وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ملک کے پاس فروری 2014 کے بعد بیرونی ادائیگیوں کے لئے درکار وسائل موجود نہیں ہوں گے۔ اس وقت ختم ہوتے زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے اور تیزی سے قدر کھورہی کرنسی کو ، جو نومبر 2013 میں 111 فی ڈالر تک جا چکی تھی، مستحکم کرنے کی اشد ضرورت تھی کیوں اس وجہ سے افراط زر اور قرضوں کی ادائیگی کی لاگت میں اضافہ ہو رہا تھا۔ ملکی /اندرونی قرضہ جات کی ادائیگیوں کی پروفائل کو طویل المدت کرنا ناگزیر ہوچکا تھا، جبکہ قرض داری کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے شرح سود کو مستحکم رکھنا اور شرح نمو کی رفتار میں اضافےکا دوبارہ حصول بھی ضروری تھا۔

جون 2013 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد عوامی ہمدردیاں سمیٹنے کے لئے پیپلز پارٹی کی حکومت پر الزام تراشی کے بجائے مسلم لیگ ن کی حکومت نے فوری طور پر دیوالیہ ہونے سے بچنے ، مالیاتی نظم و ضبط بحال کرنے ، منہدم ہوتی معیشت کو مستحکم کرنے اور تیز رفتار ترقی کی بنیاد رکھنے کے لئے درکار ناگزیر اقداما ت اٹھائے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنے پہلے بجٹ برائے مالی سال 2014-2013 میں اسٹرکچرل ریفارمز اور استحکامی اقدامات متعارف کروائے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ پہلے ہی 11 اعشاریہ 5 ارب ڈالر کے قرض کا معاہدہ کرچکی تھی مگر آئی ایم ایف پروگرام کے تحت درکار اسٹرکچرل ریفارمز کے 12 میں سے محض 4 مراحل پر ہی عملدرآمد اور دیگر مراحل پر عمل کرنے کی اس کی عدم صلاحیت کے باعث 7٫4 ارب ڈالر کے حصول کے بعد وہ پروگرام ختم ہوچکا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں لئے گئے اس قرضے میں سے مسلم لیگ ن کی حکومت کو 4٫6 ارب ڈالر کا قرض اپنے دور حکومت میں واپس کرنا تھا، اسی لئے جولائی 2013 میں حکومت کو آئی ایم ایف کے 6٫4 ارب ڈالر کے ایکسٹنڈ فنڈ فیلسٹی (ای ایف ایف) پروگرام میں داخل ہونا پڑا۔اس طرح مسلم لیگ ن کی حکومت میں آئی ایم ایف پروگرامز کے تحت قرضہ میں محض 1٫8 ارب ڈالر کا خالص اضافہ ہوا۔ پھر بھی مسلم لیگ ن کی حکومت نے ملک کے معاشی استحام اور مالیاتی نظم و ضبط کی بحالی کی خاطر اصلاحات کا عمل اس عزم کے ساتھ مکمل کیا کہ پاکستان نہ صرف اقوام عالم میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کر سکے گا بلکہ بین الاقوامی کیپیٹل مارکیٹس میں 7 سال کی غیر حاضری کے بعد دوبارہ داخل ہوسکےگا۔اس کے ساتھ ساتھ دیگر بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے ساتھ بھی تعلقات کو بحال کیا گیا تاکہ بیرونی وسائل کا پالیسی لونز کے ذریعے رعایتی لاگت پر حصول ممکن بنایا جاسکے حالانکہ ان اداروں نے پاکستان کے ساتھ اوائل 2013 سے جاری ملکی معاشی عدم استحکام کے باعث کاروباری تعلقات معطل کئے ہوئے تھے۔

اس وقت کئی سیاسی طور پر متحرک آوازیں مسلم لیگ ن کی حکومت کی معاشی کامیابیوں پر شکوک و شبہات پھیلا رہی ہیں، خصوصاً اپنی کم علمی کی بنا پر یا پھر دانستہ طور پر قوم کو گزشتہ حکومت کے دور میں 2018-2013 کے دوران جمع ہونے والے مجموعی عوامی قرضہ کے بارے میں گمراہ کررہی ہیں۔ فسکل رسپانسیبلٹی ایکٹ کے تحت مجموعی عوامی قرضہ کل حکومتی قرضے( بشمول صوبائی حکومتوں کے، جو اسٹیٹ بینک کے کنسولیڈٹڈ فنڈ کے ذریعے ادا ہوں) میں سے بینکنگ سسٹم میں موجود حکومتی ڈیپازٹس منہا کرنے کے بعد بچ جانے والے میزانیے جمع آئی ایم کو واجب الاداء قرضے کو کہتے ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر کے بیرونی قرضہ جات بشمول کمپنیز کے بیرونی سرمایہ کاروں سے حاصل کئے گئے قرضوں کو قانونی طور پر مجموعی عوامی قرضہ (پبلک ڈَیٹ) میں شامل نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ان کی ادائیگی اسٹیٹ بینک کے کنسولیڈٹڈ فنڈ سے نہیں کی جاتی۔اس لئے موجودہ حکومت کی جانب سے یہ کہنا کہ 30 جون 2018 کو مجموعی عوامی قرضہ 30 ہزار ارب روپے ہے، اصولی طور پر غلط ہے، جبکہ اوپر بیان کی گئی قانونی تفصیل کے مطابق صحیح رقم تقریباً 23 ہزار ارب روپے ہے۔ ریکارڈ کو ملکی قانون کے مطابق درست رکھنا نہایت ضروری ہے۔

مشرف دور میں حکومتی یا عوامی قرضوں میں 97 فیصد اضافہ ہوا۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت 2013-2008 میں ان میں 153 فیصد اضافہ ہوا جبکہ مسلم لیگ کی حکومت 2018-2013 میں حکومتی قرضوں میں ہونے والا اضافہ 71 فیصد تھا۔ حکومت کے پہلے 4 سالوں میں البتہ یہ اضافہ محض 46 فیصد (6177 ارب روپے) تھا جس کی سادہ سی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے سخت مالیاتی نظم و ضبط نافذ کررکھا تھا اور حقیقی سادگی اختیار کی تھی جس کی ایک مثال وزیر اعظم اور دیگر وزرا کے صوابدیدی فنڈز کا اختتام ہے۔

حکومتی قرضوں میں 2018-2017 کے دوران مجموعی اضافہ 3416 ارب روپے تھا، جس میں سے 1978 ارب روپے بیرونی قرضہ تھا۔ اس سال جو ہوا وہ نہایت افسوسناک تھا جس کی وجہ سے حکومتی قرض 19635 ارب روپے سے بڑھ کر 23051 ارب روپے ہوگیا ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو عہدے سے نااہل قرار دے دیا گیا اور راقم الحروف نومبر 2017 میں وزیر خزانہ کی حیثیت سے سبکدوش ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کے نئے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کی معاشی ٹیم کو ایسے بڑے بڑے مالیاتی مطالبوں کا سامنا کرنا پڑا جو بجٹ میں مختص نہیں کئے گئے تھے۔ نتیجتاً وہ معاشی نظم و ضبط جس کی حکومت کے پہلے چار سال نہایت محنت سے آبیاری کی گئی تھی اور اسےمحفوظ رکھا گیا تھا، اس کو برقرار نہ رکھا جاسکا۔

دنیا بھر میں حکومتی قرضہ (پبلک ڈَیٹ) کو مطلق اعداد میں نہیں بلکہ مجموعی ملکی پیدوار یا جی ڈی پی کے تناسب سے بیان کیاجاتا ہے جو معاشی سیاق و سباق میں زیادہ معنی خیز طریقہ ہے۔ جی ڈی پی کی نمو عموماً حکومتی قرضے میں بڑھوتری سے منسلک ہوتی ہے اور ہمارا جی ڈی پی جون 2013 کے 22384 ارب روپے سے بڑھ کر جون 2018 میں 34397 ارب روپے ہوچکا تھا۔ جون 2013 میں مجموعی عوامی قرضہ ہمارے جی ڈی پی کا 60٫1 فیصد تھا جو جون 2017 میں بڑھ کر 61٫4 فیصد ہوا اور جون 2018 تک جی ڈی پی کا 67 فیصد۔ اس کی وجوہات میں ایک تو دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں آپریشن ضرب عضب وغیرہ کے تحت غیر معمولی اضافی سیکیورٹی اخراجات ہیں دوسرے پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ منصوبوں میں بھاری حکومتی سرمایہ کاری ہے جس کے واضح مقاصد میں ملک میں بجلی اور گیس کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ، ہائی ویز ٹرانسپورٹ میں بہتری، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور مواصلات شامل ہیں۔ اتفاق سے 2018 میں امریکہ کا پبلک ڈیٹ جی ڈی پی کا 106 فیصد ہے، جاپان کا 221 فیصد، اٹلی کا 138 فیصد ، بیلجیئم کا 115 فیصد اور سنگاپور کا 105 فیصد جو کہ سب کے سب پاکستان سے کہیں زیادہ بلند سطح پر ہیں۔

آپ کو یادرہنا چاہیئے کہ تحریک انصاف کے 9 ماہ پر مشتمل دھرنوں اور ان کے ارکان اسمبلی کے جمہوری عمل کو ڈی ریل کرنے کےلئے دئے گئے استفعوں کے باوجود، جن کی وجہ سے معیشت کو کافی نقصان اٹھانا پڑا اور سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہوا، مسلم لیگ ن نے اللہ کے فضل سے اپنے دور حکومت میں وفاقی ٹیکس کلیکشن میں 100 فیصد اضافہ کیا، جی ڈی پی کی شرح نمو کو 3 فیصد سے 5٫8 فیصد (گزشتہ 13 سالوں میں بلندترین ) کیا، افراط زر ، ایکسپورٹ ری فناسنگ اور لانگ ٹرم لینڈنگ پالیسی ریٹس کو گزشتہ 40 برس کی نچلی ترین سطح پر برقرار رکھا جبکہ بیرون ملک سے ترسیلات زر میں، جو جون 2013 میں 13٫9 ارب ڈالر تھیں، 19٫4 ارب ڈالرز تک اضافے کو ممکن بنایا، شرح تبادلہ کو مستحکم رکھا ،زر مبادلہ کے ذخائر کو فروری 2014 میں 7٫5 ارب ڈالر کی سطح سے جون 2017 تک 24٫1 ارب ڈالر تک پہنچایا جبکہ اس دوران جون 2016 میں 23٫1 ارب ڈالر کی تاریخی سطح کو بھی چھوا۔ عالمی ادارے اور ریٹنگ ایجنسیز جیسے کہ موڈیز، اسٹینڈرڈ اینڈ پُواَرز ، فوربز، بلومبرگ، اکنامسٹ اور دیگر مالیاتی ادارے ، سب کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران جون 2017 تک پاکستان کے میکرو اکنامک استحکام اور معاشی کامیابیوں کے حوالے سے مثبت رپورٹس جاری ہوئیں، جبکہ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز کی ایک رپورٹ میں یہ پیش گوئی بھی کی گئی کہ پاکستان 2030 تک کینیڈا اور آئرلینڈ جیسی معیشتوں کو پیچھے چھوڑتا ہوا جی 20ممالک میں شامل ہوجائے گا۔ اگر تحریک انصاف کی جانب سے مسلم لیگ ن کی حکومت کے دوران یہ دھرنا اور سیاسی خلفشار برپا نہ کئے جاتے تو ملک کی معاشی کارکردگی مزید بہتر ہوتی۔ راقم الحروف نے بارہا تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو ایک “میثاق معیشت” پر متفق ہونے کی دعوت دی تاکہ معیشت کو سیاسی اثرات سے پاک کیا جاسکے مگر بدقسمتی سے کسی نے ساتھ نہیں دیا۔

ذیل میں دیئے گئے چارٹ میں 1999 سے مختلف ادوار میں مجموعی حکومتی قرضوں کے تجزیے سے معلوم ہوتا ہے کہ مجموعی حکومتی قرضوں کے بارے میں موجودہ حکومت کی جانب سے بیان کئے جارہے اعداد وشمار بے بنیاد ہیں اور قرضوں کے بوجھ کے معاملے کے گرد بنی جارہی کہانی محض ذاتی مفادات اور سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے جس کے پیچھے کوئی معاشی دلیل نہیں ہے۔ ہم خلوص نیت سے امید رکھتے ہیں کہ حکومت اب رونا دھونا ، جیسا کہ اس نے پچھلے 5 سال اپوزیشن میں کیا، بند کرکے اب کام پر لگ جائے گی کیونکہ پاکستان کے لوگ ان کے اولین 70دنوں میں ہی روپے کی قیمت میں شدید کمی، اسٹاک ایکس چینج کے زوال اور بنیادی ضروریات جیسے کہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں غیر مثالی بڑھوتری کی نتیجے میں روز مرہ کے اخراجات میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے سبب پہلے ہی بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔

نوٹ: مضمون “کل” کے دی نیوز اور جنگ اخبار میں چھپا تھا

Advertisements
julia rana solicitors london

(مصنف سابق وزیر خزانہ اور انسٹیٹیوٹ آف چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے فیلو رکن ہیں)۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply