مذہب کے نام پر بچیوں کے سکول بند نہ کریں/ڈاکٹر ندیم عباس

افغانستان پر دوسری بار طالبان کی حکومت ہے۔ ان کی اس بار کی حکومت ان کی پہلی حکومت سے زیادہ وسیع ہے، کیونکہ وادی پنجشیر بھی اس بار ان کے قبضے میں ہے، جہاں پچھلی بار طالبان قبضہ نہیں کرسکے تھے اور وہاں احمد شاہ مسعود کا ہی قبضہ رہا تھا۔ اس بار طالبان ایک معاہدے کے تحت آئے ہیں، جس میں انہوں نے دنیا کو بہت سی یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ اس کے مقابل دنیا نے بھی انہیں کچھ یقین دہانیاں کرائی ہیں۔ طالبان نے آتے ہی بچیوں کی تعلیم کے حوالے سے سختی کرنا شروع کر دی۔ ایک نظریہ یہ دیا گیا کہ پرائمری اور یونیورسٹی کی طالبات تو سکولوں اور یونیوسٹیوں میں جائیں گی، مگر انٹرمیڈیٹ کی طالبات سکول نہیں جائیں گی۔ اس پر مختلف دلیلیں سننے کو ملیں، جو بہرحال اس درجے کی نہیں ہیں کہ ان پر اتنے بڑے فیصلے کی بنیاد رکھی جا سکے۔ اب سنا ہے کہ طالبان نے بچیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی ہے۔ طالبان نے یہ فیصلہ اس بنیاد پر کیا کہ یہ اسلام کا حکم ہے اور دوسرا ان کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ پاکستان متاثر ہوگا۔ پشاور کوئٹہ کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کے تعلیمی نظام پر بوجھ بڑھ جائے گا، کیونکہ امیر افغان اپنی بچیوں کو تعلیم کے لیے یہاں منتقل کر دیں گے۔

ایک مکالمے میں شریک ہونے کا موقع ملا، وہاں یہ کہا گیا کہ یہ بنیادی طور پر افغان کلچر ہے، جس میں بچیاں گھر میں رہتی ہیں۔ کلچر وجہ بنا کہ بچیوں کے سکول بند کر دیئے جائیں۔ ممکن ہے کہ کسی دور میں ایسا ہوتا ہو، یا آج بھی کچھ گھرانے ایسے ہوں، جو اس سوچ کے حامل ہوں، پورے افغانستان میں قطعاً ایسا نہیں ہے۔ میں نے کافی غور کیا، اس مکالمے میں صرف پختون کلچر کو افغان کلچر کا نام دیا جا رہا ہے، حالانکہ افغانستان مختلف اقوام کا مسکن ہے، جہاں ہر قوم کا اپنا کلچر ہے اور ہر قوم اپنے کلچر پر فخر کرتی ہے۔ یہاں ازبک، تاجک اور ہزارہ بھی رہتے ہیں، یہ تینوں اقوام خواتین کو زیادہ بااختیار شخصیت دیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہزارہ بچیاں پچھلی حکومت میں کئی بین الاقوامی سطح کے مقابلوں میں حصہ لے رہی تھیں اور اپنی اسلامی شناخت پر بھی باقی تھیں۔ اسی طرح ان علاقوں میں بچیوں کے سکولوں میں داخلے کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔

پڑھی لکھی ماں ہی پڑھا لکھا خاندان تشکیل دیتی ہے اور پڑھا لکھا خاندان ہی پڑھی لکھی قوم کی بنیاد بنتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ریاست مدینہ قائم فرمائی، اس میں بچیوں اور بچوں ہر دو کے لیے تعلیم کو ضروری قرار دیا۔ معروف حدیث علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اس وقت خواتین پڑھنا لکھنا سیکھتی تھیں اور رائج تعلیمی نظام کا حصہ بنتی تھیں۔ اس موضوع پر کافی کام ہوچکا ہے کہ عصر پیغمبرﷺ سے لے کر آج تک کی مختلف علوم کی عالمات کون کون تھیں اور انہوں نے اسلامی اور انسانی علوم کی ترقی میں کیا کردار ادا کیا؟ اس میں ہمیں ایک بڑی تعداد محدثات، مفسرات اور فقہ کی ماہر خواتین کی ملتی ہے۔

اچھی سے اچھی چیز سے بھی برا استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ کچھ لوگ قرآن مجید کی آیات سے اپنی مرضی کا مطلب نکال کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں اور انہیں صراط مستقیم سے دور کرتے ہیں۔ اب ہم ایسا تو نہیں کرسکتے کہ قرآن مجید کی تعلیم پر پابندی لگا دیں، بلکہ ہم ان لوگوں کی گمراہی کا راستہ روکیں گے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ تعلیمی ادارے فحاشی کے اڈے ہیں، یہاں ناچ گانا اور دیگر لغویات ہوتی ہیں۔ درست ہے کہ ایسا کسی جگہ پر ہو رہا ہے، مگر اس کی بنیاد پر پورے سسٹم کی بساط لپیٹ دینا حکمت کے خلاف ہے۔ اب طالبان کی حکومت ہے، وہ اصول و ضوابط بنائیں اور ان کی روشنی میں ہی سکول چلانے کی اجازت دیں۔ جو ان ضوابط کی خلاف ورزی کرے، اس پر جرمانہ کریں۔

کچھ شعبے ایسے ہیں، جہاں لڑکیوں کی تعلیم ہی اسلامی معاشرے کو وہ افراد کار فراہم کرسکتی ہے، جس سے مسلم معاشرہ شریعت کی روشنی میں زندگی بسر کرسکے گا۔ معاشرے میں خواتین بیمار ہوتی ہیں اور انہیں بہت سے مسائل کا سامنا رہتا ہے، وہ یہ مسائل کسی مرد ڈاکٹر سے ڈسکس نہیں کرسکتیں اور بعض اوقات تو عورت کے جسم کو دیکھتا علاج کی بنیادی ضرورت ہوتا ہے۔ جب خواتین پڑھیں گی نہیں اور نہ ڈاکٹر بنیں گی تو اس صورتحال میں یا تو مرد ڈاکٹر سے علاج کروا کر شریعت کی خلاف ورزی کریں یا اسی مرض کے ساتھ تکلیف دہ زندگی گزاریں۔ بچے کی پیدائش کرانا اور اس وقت کی پیچیدگیوں سے ڈیل کرنا لیڈی ڈاکٹر کا کام ہے، جب بچیوں کو تعلیم کی ہی اجازت نہیں ہوگی تو بچیاں ڈاکٹر کیسے بنیں گی۔؟

ایک تجویز یہ بھی ہے کہ ان بچیوں کی ہوم سکولنگ کی جائے اور اس طرح وہ تعلیم کا سلسلہ آگے بڑھائیں۔ عجیب لگتا ہے کہ جب علم اتنا آگے بڑھ چکا ہے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہر ہوم سکولنگ سے ہی تعلیم حاصل کی جا سکے۔ اسی طرح افغانستان میں ہوم سکولنگ کا تجربہ اور وسائل بھی نہیں ہیں۔ اگر انٹرنٹ پر تعلیم حاصل کرنی ہے تو جس وجہ سے سکول بند کیے جا رہے ہیں، اس کا خظرہ انٹرنٹ پر زیادہ ہے۔ طالبان حنفی المسلک سنی مسلمان ہیں، وہ زیادہ سے زیادہ جس رائے کا اظہار کر رہے ہیں، اس کی بنیاد فقہ حنفی کو بنا رہے ہیں۔ افغانستان میں فقط حنفی فقہ کے پیروکار نہیں بستے بلکہ یہاں پر ایک بڑی تعداد فقہ جعفری کے ماننے والوں کی ہے، اس کے ساتھ ساتھ کچھ اسماعیلی بھی ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام مسالک کی رائے کا احترام کیا جائے۔ فقہ جعفری میں فقہاء کی متفقہ رائے ہے کہ بچیاں سکول، کالج اور یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ طالبان کے فیصلے میں اس رائے کا انعکاس نہیں ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور یورپ نے ان کے ساتھ جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں کیے اور انہیں دباو میں لانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ خواتین پر سختی کی جائے اور بالخصوص ان کے تعلیمی ادارے بند کرکے انہیں دباو میں لایا جائے۔ اس طرح یورپ سے اپنی حکومت کو تسلیم کرانے سمیت دیگر مالی معاملات پر بات ہوسکے گی تو میرے خیال میں یورپ اتنا اچھا نہیں کہ وہ افغان بچیوں کی تعلیم کے لیے اپنے ریاستی مفادات کی قربانی دے گا۔ شور شرابہ ضرور مچے گا، مگر آخر میں ہر ملک اپنے مفاد میں فیصلہ کرے گا۔ آپ اپنا نصاب بنائیں، اپنی مرضی کے سکول بنائیں، اپنی مرضی کے قواعد و ضوابط ترتیب دیں، مگر خدا را ملک کی پچاس فیصد آبادی کو مذہب کے نام پر تعلیم سے دور نہ کریں۔ اسے اپنا مخالف بنانے کی بجائے معاشرے کا ایک پراعتماد اور طاقتور گروہ بنائیں، جو ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہا ہو۔ آج کے دور میں یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کی پچاس فیصد ورک فورس گھر کے اندر بیٹھی رہی۔ امید ہے کہ طالبان قیادت اس فیصلے پر ضرور دوبارہ غور کرے گی۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply