کیا جناب رضا ربانی نوٹس لیں گے؟

جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے ویسا ہی بیان دیا ہے جیسے بیانات عمومی طورپر عوامی اعتماد سے محروم رہنے والے فرسٹریٹڈسیاستدانوں کے ساتھ منسوب ہوتے رہے ہیں تاکہ منتخب سیاستدانوں او راداروں کی توہین کی جا سکے۔ میرے دوست اور بڑے بھائی نعیم مصطفی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’ ایوانوں میں بیٹھے دہشت گردغاروں میں چھپے دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک ہیں‘، اس بیان نے مجھے ایک بار پھر دکھ میں مبتلا کر دیا، مجھے ا س وقت بھی دکھ ہوا تھا جب سراج الحق نے دھرنوں کے دوران حق اور باطل کو آپس میں خلط ملط کر دیا تھا،مجھے دکھ نہ ہوتا اگر سراج الحق اس وقت اپنے اتحادی خان صاحب کے ساتھ مل جاتے یاپھر اپنا وزن آئین، جمہوریت اور نظا م کے پلڑے میں ڈال دیتے مگر وہ دونوں طرف سے کھیلنے کی خواہش اور کوشش میں ایکسپوز ہو گئے ۔سوچ رہا ہوں کہ مجھے سراج الحق کے بیان سے دُکھ کیوں ہوا ہے، میرے سامنے محترم گل شیر بٹ کی مرتب کی ہوئی کتاب ’ گوتم کو نروان ملا تھا‘ کھلی پڑی ہے، وہ گوتم بدھ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں،’زندگی کا نام دکھ ہے، ہر دکھ کا ایک سبب ہوتا ہے اور وہ سبب ہے خواہش، طلب، اس خواہش اور طلب کو ختم کرکے دکھ سے نجات پائی جا سکتی ہے‘ یعنی میرے اندر کہیں یہ خواہش اور طلب موجود ہے کہ جناب سراج الحق وہی سیاست کریں جس کی جمہوریت پسند ذمہ دار سیاستدانوں سے توقع کی جا سکتی ہے ، میں یہ خواہش اور طلب ختم کر لوں تو یہ دکھ بھی ختم ہو سکتا ہے۔
میں نے خبر کی تفصیل دیکھی، یہ فقرہ اپنے کسی سیاق و سباق کے بغیر ہی درج تھا یعنی جو بات کہی گئی تھی وہ مکمل تھی، اس کا کوئی سابقہ اور لاحقہ نہیں تھا، یہ عین ممکن ہے کہ جب رنگین اشاعت یا ہفت روزہ ’زندگی‘ میں اس بات چیت کا متن شائع ہو تو اس فقرے کی کچھ تفصیلات بھی ہوں جو صفحہ اول پر تین کالم خبر کی سرخی بننے کا اہل ٹھہرا، ایوانوں میں بیٹھے ہوئے ان ارکان کے نام اور حوالے بھی ہوں جو سراج صاحب کی نظر میں غاروں میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں سے بھی زیادہ خطرناک ہوں مگر اپنے مواد کے حوالے سے یہ پورا انٹرویو مسلم لیگ نون کے قائد محمد نواز شریف کے خلاف ہے۔ لہٰذا یہ تاثر بھی لیا جا سکتا ہے کہ ان کے مخاطب میاں نواز شریف ہی ہیں اور وہ انہیں غاروں میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں سے زیادہ خطرناک سمجھتے ہیں۔ میں غاروں میں بیٹھے ہوئے دہشت گردوں کو سراج صاحب سے زیادہ نہیں جانتاتاہم جتنا میں جانتا ہوں یہ شہروں اور قصبوں میں رہنے والوں کی زندگیوں کے دشمن ہیں، یہ نہتے اور پر امن شہریوں پر بموں اور گولیوں سے حملے کرتے ا ور ان کی جانیں لیتے ہیں، یہ ریاست اور نظام کے باغی ہوتے ہیں، میں نہیں جانتا کہ سراج الحق نے ایوان میں بیٹھے ہوئے کسی بھی شخص کو ان سے بدتر کیسے سمجھا، ٹارگٹ ان کا نواز شریف تھے جو اب بذات خود ایوان میں موجود نہیں مگر میرے خیال میں سراج الحق ایوان میں بیٹھے ہوئے ان تمام سوا دوسو کے لگ بھگ ارکان کو نواز شریف ہی سمجھتے ہیں جنہوں نے نواز شریف کے کھڑے کئے ہوئے کھمبے کو ووٹ دئیے۔
میں نے انسانوں میں سیاستدانوں کے سوا کسی دوسرے طبقے کو ایک دوسرے کی اس طرح جڑیں کاٹتے نہیں دیکھابلکہ یہ کہیے کہ اتنی بے دردی سے گردنیں کاٹتے نہیں دیکھا، میں نے ہر جگہ برادری کا اصول دیکھا ہے،ایک دوسرے کی غلطیوں کو چھپاتے ہی نہیں بلکہ ان کی خاطر دوسروں سے لڑتے ، جھگڑتے دیکھا ہے، میں نے وکیلوں کو پولیس والوں کو پھینٹی لگاتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے ڈاکٹروں کو بے بس اور لاچار مریضوں کی غربت اور آہ و بکا کی پرواہ کئے بغیر ایمرجنسیوں اور آپریشن تھیٹروں کو تالے لگاتے ہوئے دیکھا ہے، میں نے صحافیوں کو کسی بھی ادارے کے اشتہارات بند ہونے پر جلوس نکالتے اور کیمپ لگاتے ہوئے دیکھا ہے، ہم میں سے بہت سارے جانتے ہیں کہ ہر طرح کی بیوروکریسی کس طر ح ایک دوسرے کا تحفظ کرتی ہے یہاں تک کہ عدالتوں کے اشتہاریوں کو بھی ملک سے نکلوا دیتی ہے۔
میں ذاتی طور پر حق اور عدل کی نفی کرتی ہوئی اس دھڑے بندی کا حامی نہیں مگر میں نے اپنی ہی کمیونٹی کی ٹانگیں کھینچنے والوں میں سیاستدانوں سے آگے کسی کو نہیں دیکھا، معاف کیجئے گا، میں نے تو یہاں اپنے دھڑے سے باہر کے سیاستدانوں کی پھانسیوں پر ناچتے، ڈھول بجاتے اور مٹھائیاں بانٹتے ہوئے دیکھا ہے، میں ان سیاستدانوں کو گِدھوں کی طرح نعشوں کو نچورتے ، بھنبھوڑتے اوراپنے سیاسی پیٹ کی آگ بجھاتے ہوئے دیکھا ہے۔ ابھی سراج الحق اس نوجوان کے گھر بھی تشریف لے کر گئے تھے جومسلم لیگ نو ن کی ریلی کے دوران ایک گاڑی کی ٹکر لگنے سے جاں بحق ہو گیا تھا۔ اگر اس نعش کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا مقصد نہیں تھا تو میں امید رکھ سکتا ہوں کہ سراج الحق اب ہر اس شخص کے گھر جا کے اظہار افسوس کریں گے جو کسی بھی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہوا ہو گا، میں جانتا ہوں کہ وہ نہیں جا ئیں گے۔
میری نظر میں تو یہ سارا معاملہ آئی کیو لیول کا ہے، آپ یہ سمجھتے ہیں تو غلط سمجھتے ہیں کہ جب آپ اپنے پیٹی بھائیوں کو غاروں میں بیٹھے ہوئوں سے بھی بڑے دہشت گرد قرار دیں گے تو لو گ صرف انہیں گالی دیں گے،جان لیجئے جب ایک سیاستدان دوسرے سیاستدان کی پتلون اتارتا ہے تو وہ خود بھی ننگا ہو رہا ہوتا ہے، وہ اپنی پوری کمیونٹی کو تضحیک کا نشانہ بنا رہا ہوتا ہے اور لوگوں کو یہ سوچنے کی راہ دے رہا ہوتا ہے کہ سیاستدانوں کی بجائے دوسرے طبقے زیادہ باکردار ، دیانتدار اور قابل اعتبار ہیں حالانکہ یہاں فرق صرف پروپیگنڈے کا ہے۔ سیاستدانوں کے خلاف نہ صرف دوسرے طبقات پروپیگنڈا کرتے ہیں بلکہ نادان سیاستدان بھی لوہے کے کلہاڑے میں لکڑی کا وہ دستہ بن جاتے ہیں جو لکڑی کے تنے کو ہی کاٹ رہا ہوتا ہے۔ میں دیکھتا ہوں کہ جب شہریوں کو گریڈ سولہ کے افسران بھی اپنے دروازوں کے قریب پھٹکنے نہیں دیتے ۔تو وہ سیاستدانوں کے پاس آتے ہیں تاکہ اس نظام میں ا پنے مسائل حل کروا سکیں، سیاستدان اپنے گھرو ں اور دفتروں کے دروازے کھولتے ہیں، انہیں چائے اور کھانا پیش کرتے ہیں، اور ان کے مسائل حل کرنے کے لئے رابطے کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔مگر پھر بھی برے ہوتے ہیں،غاروں میں بیٹھے ہوئوں سے بھی زیادہ برے۔
جب سراج الحق جماعت اسلامی کے امیر بنے تھے تو مجھے خوشی ہوئی تھی کہ ایک آئین اور جمہوریت کو سمجھنے والا محنتی اور دیانتدار سیاسی کارکن مین سٹریم میں آیا ہے جس کی ساری عمر اسی راہ پراور اسی جدوجہد میں گزری ہے مگر مجھے ان کی سیاست دیکھ کر وہ مکینک یاد آ رہا ہے جو ساٹھ سال کی عمر تک گاڑیوں کے انجن کھولتا اور بند کرتا ہے مگر چوبیس سال کے اس نوجوان کا علمیت اور مہارت میں مقابلہ نہیں کرپاتا جو ڈگری لے کر آیا ہوتا ہے اور رہتا ساری عمر مکینک ہی ہے ۔ اس بیان نے بتایا ہے کہ ملک چلانے کے لئے بیوروکریٹوں کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں کے لئے بھی ایک ٹریننگ سکول کی اشد ضرورت ہے جہاں انہیں سیاست کی بنیادی باتیں بتائی اور سکھائی جا سکیں ور نہ عوامی نمائندوں کی بدترین توہین کرنے والوں کی جس کھیپ کو مہذب دنیا صدیوں پہلے جمہوریت کے قیام کی جدوجہد میں کچر اسمجھ کر پھینک چکی ہے وہ ہمارے ہاں اب بھی اممول رتن سمجھے جاتے ہیں۔
یہ وہ ہیں جو اپنے ہی بدن کونوچتے اور کاٹتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی ضیافت اڑائی ہے۔ میرے خیال میں سینیٹ کے چئیرمین رضا ربانی سمیت تمام جمہوریت پسند ارکان پارلیمنٹ کو اس بیان کا نوٹس لینا چاہئے، سراج الحق کے خلاف باقاعدہ تحریک استحقاق جمع ہونی چاہئے ، اگر سراج الحق اس بیان کی معافی نہیں مانگتے اور آئندہ محتاط رہنے کی یقین دہانی نہیں کرواتے تو پھر ان جیسے سیاستدانوں کو عوامی نمائندگی کے حامل ان مقدس اداروں کا رکن بھی نہیں رہناچاہئے ،جن کی رکنیت کے لئے وہ ووٹ مانگتے ہیں اور پھر انہی کوگالی دیتے ہیں ۔

Facebook Comments

نجم ولی خان
ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے،کالمسٹ،اینکر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply