سماجی ارتقاء کا سفر۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

معاشرے میں سائنسی انقلاب نے مذہبی بیانئے کا متبادل پیش کیا، اب امام یا پادری کی جگہ سائنسدان کی بات کو ذیادہ اہمیت دی جانے لگی، دانشور اشرافیہ کا جھکاؤ سائنسی محققین کی طرف ہونے لگا، یہ اور بات کہ سائنس کے طلباء اور مذہبی پیشوائوں کا ظاہری لباس ایک جیسا رہا، عمامہ کی جگہ ایک پھندنے والی کیپ اور چوغے کی جگہ گاؤن پہنا جانے لگا۔
روشن خیالی کے علمبرداروں کو لگا کہ وہ سماج اور ریاست کے قوانین و اقدار کو آسانی سے ترتیب دے سکیں گے، یاد رہے کہ روشن خیالی کی بنیاد میں خدا کے انکار کا فلسفہ اہم ترین تھا، ایسے میں اگر خدا موجود نہیں تو انسان ہی خدا ہے، کیونکہ خدا کی تعریف کا لازم ترین جزو یہی ہے کہ وہ وجود جو آپ کی بنیادی سرگرمی کا مرکز ہو، اب یہی مرکز انسانی وجود تھا لہذا انسان ہی خدا ٹھہرا، لیکن سامنے کی پیچیدگی یہ تھی کہ اربوں “خداؤں ” کی موجودگی میں کونسے قوانین اور کیسے ترتیب دیئے جائیں؟
سب سے پہلا نظریہ اجتماعی فائدے کا نظریہ تھا کہ منطق و عقل کے مطابق قانون و اصول کی پابندی ہر شخص کیلئے فائدہ مند ہے، وگرنہ انارکی مقدر ہوگی، پہلی نظر میں یہ نظریہ باوزن ہے کہ اگر تمام لوگ ایک دوسرے کے ساتھ سچ ، عدل اور اخلاص سے پیش آئیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا نہ ہوگا، لیکن یہ صرف اس وقت تک ہے جب بااصول زندگی آپ کیلئے فائدہ مند رہے، اگر کسی مقام پر منطق و عقل یہ باور کرائے کہ چوری یا قتل کسی فرد کیلیے زیادہ سود مند ہو سکتے ہیں تو پھر کیا کیجئے؟ یوں یہ نظریہ اپنے نفاز سے پہلے ہی دم توڑ گیا۔
اس سے اگلا نکتۂ ارتکاز سزا کا تصور تھا، کہ اگر فرد کیلیے جھوٹ، چوری یا قتل سودمند ہیں تو اسے ایسے افعال سے روکنے کیلئے سزا کا قانون لاگو کیا جائے، یہ سزا آخرت کا عذاب نہیں بلکہ سماج کے لاگو کردہ قوانین کے مطابق ہوگی، اگر مجرم گرفتار ہو سکا تو ۔۔۔۔۔۔۔!
اب یہی “اگر” مذہبی و سیکولر سماج کا بنیادی فرق ٹھہرا ، مذہبی معاشرے کے فرد کا یقین ہے کہ کوئی بھی مجرم خدا کی نگاہ سے نہیں چھپ سکتا لیکن سیکولر معاشرہ ایسا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ سماجی قانون ہر مجرم پر گہری نگاہ رکھے ہوئے ہے، سارا معاملہ یقین کا ہے، یقین ہی فرد کی اچھائی یا برائی کا منبع ہے ۔
یہاں کچھ سر پھروں نے سوال اٹھایا کہ سماج میں جرائم کی شرح مذہبی سماج میں نسبتا کم رہی کہ افراد ان دیکھی رسی سے بندھے ہوئے تھے، ایسے میں خدا کے وجود کا انکار کس منطق پہ کیا جا رہا ہے؟ جواب آیا کہ زمین سورج کے گرد گھوم رہی ہے، پوچھا گیا کہ بعد ازمرگ آخرت کی تردید کس بنیاد پہ کی جا رہی ہے، ” غائب” سے آواز آئی کہ وہاں سے آج تک کوئی واپس نہیں آیا کہ اخروی زندگی کی تصدیق کر سکے، حالانکہ عامی ذہن بھی یہ سمجھتا ہے کہ سورج کے گرد زمین کی گردش اور برزخی زندگی کی کارگزاری سے ناواقفیت جس طرح خدا اور آخرت کی تصدیق کیلئے ناکافی ہیں، اسی طرح یہ تردید کا محکم ثبوت بھی نہیں، اس بند گلی کے سامنے سیکولرزم نے وہی چال چلی جو مذہب استعمال کرتا آیا، ثبوت کی بجائے اتھارٹی کی بات کا یقین کر لیا جائے، پہلے مذہبی پیشوا کے فرمان پر یقین کیا جاتا تھا اور اب بغیر ثبوت کے سائنسدان کی بات کو قبول کیا جائے کہ وہ متعلقہ فیلڈ کا ماہر ہے، جبہ اور دستار کی بجائے پھندنے والی ٹوپی اور گاؤن مقدس قرار پائے، انگریزی زبان کے محاورے کے مطابق سائنس مزہبی اژدھے کو مار کر خود اژدھا بن بیٹھی۔ اس نکتۂ نظر سے مذہبی اور سیکولر دونوں ایک مقام پر کھڑے ہیں لیکن دونوں ایک دوسرے کو شدت پسند قرار دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہیں ۔
مذہب کو دیوار کے ساتھ لگانے سے جو خلا پیدا ہوا، اسے بھرنے کیلئے فلسفی میدان میں آئے، ان فلسفیوں کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ انہیں قدیم مذہبی اقدار کو ہی بنیاد بنانا پڑا کہ کوئی نیا تخیل، کوئی نئی جہت ان کے سامنے نہ تھی، اسے اجتماعی انسانی شعور کا نام دیا گیا، معروف برطانوی فلاسفر تھومس ہوبس کا کہنا تھا کہ انسان فطرتاً بھلائی کی طرف گامزن ہے، اجتماعی معاشرت میں قوانین کی غیر موجودگی ایک غیر فطری طاقت کو جنم دیتی ہے، ان کے مطابق انسان اپنی اصل میں ، انسان دوسرے انسان کیلئے بھیڑیا ہے، کے قانون مطابق برتاو کرتا ہے، ایسے معاشرے کو تھومس ہوبس status naturalis، یعنی معاشرے کی فطری کیفیت کا نام دیتے ہیں، تمام انسانوں کی بھلائی میں ہی فرد کی بھلائی پوشیدہ ہے، اسے ہوبس نے status civilis کا نام دیا، ایسے میں سماج کے اندرونی دشمنوں سے نمٹنے کیلئے ایک قانون کا ہونا ضروری ہے، لیکن قانون جیسا بھی کامل کیوں نہ ہو، مستقبل میں ہونے والے تمام جرائم اور ان کی علتوں کا احاطہ نہیں کر سکتا، اگر فرض کیجئے ایسا ممکن بھی ہوتو اس کی گارنٹی کون دے گا کہ ہمیشہ قانون کا درست استعمال کیا جائے گا، دوسرا یہ کہ کسی موقع پر قانون کا اطلاق اگر سماج کے اجتماعی اقدار پر وار کر رہا ہوتو پھر کیا کرنا چاہئے، ہوبس کے مطابق قانون کے اوپر ایک ایسی طاقت کا ہونا لازم ہے جو ان پیچیدگیوں پر قابو پائے اور یہ اس اصول کے مطابق ہوگا کہ، قانون انسان کیلئے ہے نہ کہ انسان قانون کیلئے، یہ جملہ جناب مسیح کے جملے سے مستعار لیا گیا کہ، یوم السبت انسان کیلئے ہے نہ کہ انسان یوم السبت کیلیے۔ اس طاقت کے کردار کیلئے اشرافیہ سامنے آتی ہے کہ سماج کی سالمیت اور پرورش ہی اشرافیہ کے وسائل کا منبع ہے، لیکن اشرافیہ کسی مشترکہ فیصلے پر پہنچے، اس کیلئے ضروری ہے کہ ان کے اوپر ایک بادشاہ یا سلطان موجود ہو جس کی اتھارٹی کو چیلینج نہ کیا جا سکتا ہو، اور لازم شرط یہ ہے کہ معاشرہ مذہبی ہو جہاں بادشاہ خدائے بزرگ کا علمبردار ہو، دوسری صورت میں اس بادشاہ کو آمر کہا جائے گا، ایسی ریاست کا اصل مقصد یہ ہے کہ کسی بھی صورتحال میں بروقت فیصلہ لیا جائے چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہو ، وگرنہ سماج ہوبس ہی کے بقول، انسان دوسرے انسان کیلئے بھیڑیا ہے، کا عکس پیش کرے گا۔
دوسری طرف ایک اور یورپی مفکر، اسپینوزا، بھی اسی سوال کا جواب ڈھونڈھنے میں سرگرداں ہیں، وہ بھی انسانی فطرت کو بنیاد بناتے ہیں، لیکن ہوبس کے برعکس ان کا خیال ہے کہ انسان اپنی فطرت میں بھلائی نہیں بلکہ عدل کا خواہشمند ہے، ان کے مطابق، انسان دوسرے انسان کیلئے خدا ہے، لیکن چونکہ سماجی ساخت درست تعمیر نہ ہو سکی اسی لئے انسان دوسرے انسان کیلئے بھیڑیا بن چکا ہے، لازم ہے کہ سماج میں تمام ایسی شرائط کا اطلاق کیا جائے جو فرد کو اس کی حقیقی فطرت، عدل، پہ قائم رکھیں، لیکن کیسے ایسے مثالی سماج کی داغ بیل ڈالی جائے، اس بارے اسپینوزا نے کچھ تفصیل بیان نہ کی۔
ایک اور برطانوی فلاسفر جوہن لوک بھی اسپینوزا ہی کے انداز میں سماج کو دیکھتے ہیں، لیکن ان کے مفروضے میں جزباتیت قدرے کم ہے، مثلآ قتل کو وہ گناہ یا جرم نہیں بلکہ حق سمجھتے ہیں، آزادی اور حقوق پر انہوں نے تفصیلی مباحث کئے لیکن جب اس بات کا ادراک ہو کہ سیاہ فام غلاموں کی خریدوفروخت آمدن کا بہت بڑا ذریعہ ہے تو ایسے مفروضے بس مفروضے ہی رہتے ہیں، اس دور میں مفکرین کی بڑی تعداد سماج کو مثالی بنانے میں کوشاں رہی، حقیقی مقصد آسمانی جنت پر توکل کی بجائے، خدا اور مذہب کی مداخلت کے بغیر اسی دنیا میں جنت کو قائم کرنا تھا، اسی مقصد کو سامنے رکھ کر تھومس مور نے یوٹوپیا کے نام سے معروف کتاب لکھی جس میں دنیا کو جنت بے نظیر پیش کیا گیا ،حسین عورتوں کو برابر کے معاشرتی حقوق کا تحفہ دیا گیا، لیکن اس خیالی شہر میں بدصورت عورتوں پر کیا بیتی، اس بارے ان کا قلم خاموش ہے۔ سماج اب اسی خواب کی تکمیل میں مصروف ہو رہا کہ دنیاوی زندگی کو بہتر سے بہترین رنگ میں رنگا جائے، دنیا سے مذہب کے خاتمے کے تمام نظریے اپنی بنیاد چونکہ مذہب ہی سے لیتے رہے، اس لئے مختلف انجام کی توقع رکھنا خام خیالی سے زیادہ کچھ نہ تھا، مذہبی معاشرہ اپنے اور پرائے کی تفریق رکھتا ہے، غیر مذہبی معاشرے میں پرائے کا کوئی تصور نہیں، اہم نکتہ یہ ہے کہ جب کوئی بھی پرایا یا اجنبی نہیں تو پھر اپنا بھی کوئی نہیں کہ پرائے کی موجودگی ہی اپنے کے وجود کی ضامن ہے، اب نہ کوئی اجنبی ہے اور نہ کوئی اپنا۔
ہیومینزم کے مطابق اب انسان ہی چونکہ خدا ہے، تو اسپینوزا کے اس شعار کو کہ، انسان دوسرے انسان کیلئے خدا ہے، کو ایسے لکھنا درست ہوگا کہ، انسان دوسرے انسان کیلئے انسان ہے۔
ارتقاء کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم جانتے ہیں کہ انسان کو جانور سے ظاہری شکل ممتاز نہیں کرتی بلکہ یہ فکر و اقدار ہیں جو انسان کو اشرف المخلوقات بناتی ہیں، انسان اپنے مقاصد کی تعمیر تین بنیادوں پر کرتا ہے، فطرت، ماحول اور تفکر، جانور صرف ماحول اور فطرت پر اکتفاء کرتے ہیں، ہیومینزم نے مذہبی نکتۂ نظر کر پس پشت ڈالا لیکن بدلے میں کوئی نیا یا بہتر نظریہ پیش کرنے میں ناکام رہا، نتیجے میں انسان کو اپنی مقاصد کی تخلیق اور تکمیل صرف دو بنیادوں پر رکھنا پڑی، وہی جو جانوروں کا خاصہ ہیں، فطرت اور ماحول، اس پہلو سے نیا انسان جانور کے زیادہ قریب ہے، اب درست شعار یہ ہوگا کہ، جانور دوسرے جانور کیلئے جانور ہے، ذہین انسانوں کا ہجوم اگر کسی مقصد کے بغیر رواں ہے تو یہ جانوروں کا ہجوم ہوگا، مقصد ہی فرد اور معاشرے کی بقاء کا ضامن ہے،لیکن ایسا کوئی عظیم اور اجتماعی مقصد گزشتہ کئی صدیوں سے ناپید ہے، شاید اسی لئے روسو یہی کہتے رہے کہ سائنسی دور کو مذہبی دور پر کچھ زیادہ فوقیت حاصل نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply