آتے آتے آتی ہے تہذیب و تمیز۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

بھارت، یوکرین، جارجیا، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش،پاکستان اور اسی قبیل کے دوسرے ملکوں کے عوامی ایوانوں (اسمبلیوں) میں اگر طعن و تشنیع، سبّ و شتم اور دھینگا مشتی دیکھنے سننے میں آتی ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور امریکہ جیسے ملکوں کے عوامی ایوانوں میں ماضی بعید میں ایسانہیں ہوتا رہا۔ وجہ یہ ہے کہ تہذیب و تمیز تو آتے آتے آیا کرتی ہے
تہذیب، ذاتی اور اجتماعی رویوں میں سبھاؤ اور مناسب الفاظ کے استعمال سے عبارت ہوتی ہے جبکہ تمیز رکھ رکھاؤ اور تعظیم باہمی کی آئینہ دار۔ زبان فارسی میں جہاں سے لفظ تمیز آیا ہے، اس کا مطلب صاف کرنا ہے۔ وہ بھی ایسی چیز کو صاف کرنا جو دیکھنے میں ناگوار لگتی ہو جیسے کہا جاتا ہے ” بینی تمیز کن” یعنی “بہتی ہوئی ناک صاف کرو” اس کے برعکس دوسری صفائی کے لیے لفظ پاک استعمال کیا جاتا ہے جیسے “میز پاک کن” یعنی میز سے چیزیں یا داغ دھبے ہٹا دو۔ اس لیے تمیز ایسی زبان اور ایسے انداز ترک کرنے یا ان سے گریز کرنے کو کہا جاتا ہے جو ناگوار لگتے ہوں۔
یمن کے بحران کے تناظر میں پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھیجے جانے سے متعلق 6 اپریل کو پارلیمانوں کا جو مشترکہ اجلاس بلایا گیا اس میں پی ٹی آئی کے رہنما عمران خان نے اپنے عوامی نمائندوں کے ہمراہ آنے کا طے کر لیا اور سات ماہ کے وقفے کے بعد، باوجود اس کے کہ ان کا دعوٰی ہے کہ وہ استعفے دے چکے ہیں انہوں نے اس اہم اجلاس میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ بقول ان کے ان کے اراکین کے استعفے منظور نہیں ہوئے۔
ایک لطیفہ ہے کہ جھنگ ( لطیفہ میں اسی شہر کا ذکر ہے) کے نواح کے کسی بڑے زمیندار کی لکھنئو کے کسی میر صاحب کے ساتھ یاداللہ تھی۔ موصوف جب میر صاحب کے ہاں دعوت پر گئے تو کھانے کے دوران اتفاق سے چاول کا ایک دانہ میر صاحب کی مونچھ میں اٹک گیا۔ ان کے خادم نے دست بستہ عرض کی “عالی جاہ! بلبل بہ شاخ گل نشستہ” اور میر صاحب نے مونچھ صاف کر لی۔ موصوف بہت متاثر ہوئے۔ میر صاحب کو اپنے ہاں کھانے کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کر لی۔ نوکر کو کہا کہ یاد کر لو، دعوت میں میں اپنی مونچھ میں چاول اٹکاؤں گا، تم کہنا “بلبل بہ شاخ گل نشستہ”۔ دھمکا کر یہ بھی کہا کہ اچھی طرح یاد کر لو ورنہ۔ میر صاحب آئے، زمیندار صاحب نے چاول اٹکایا اور کنکھیوں سے ملازم کی جانب دیکھا، ملازم بیچارہ گھبرا کر یاد کیا ہوا فارسی زبان کا نستعلیق جملہ ہی بھول گیا۔ انہوں نے ایک اور چاول کا دانہ اٹکایا اور ملازم کو خشمگیں نظروں سے دیکھا تو اس نے کہا،” سئیں ووہریں اچ سوّر پھاتا لاتھے” یعنی ” مالک، جال میں سور پھنسا ہوا ہے”۔ جی ہاں لکھنئو شہر کی قدیم تہذیب اور اس زمانے میں جب یہ لطیفہ بنا تھا تب کے جھنگ کے دیہاتی ماحول میں اتنا ہی فرق ہوگا۔
مگر آج میانوالی، سیالکوٹ، لندن اور نیویارک میں اتنا فرق نہیں ہونا چاہیے۔ مگر کیا کیا جائے کہ تہذیب و تمیز تو آتے اتے آتی ہے۔ بھائی عمران خان تو کسی کے ساتھ تعظیم کا لاحقہ لگانے سے ویسے ہی گریزاں ہیں شاید وہ اردو انگریزی میں بولتے ہیں کہ “نواز بھی وہاں بیٹھا تھا، اس نے کچھ نہیں کہا” یا ” خواجہ آصف نے اپنی اوقات دکھائی ہے”۔ ممکن ہے کہ نواز شریف یا خواجہ آصف آپ کے لنگوٹیے رہے ہوں لیکن اب ان میں سے ایک آپ کے ملک کے وزیر اعظم ہیں اور ایک وزیر برائے دفاعی امور۔ آپ بھی نہ صرف رکن قومی اسمبلی ہیں بلکہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ بھی۔ عمران خان تو ایسے ہیں اور ایسے رہیں گے۔
باوجود اس کے کہ مجھے تحریک انصاف کے موقفات سے اختلافات ہیں اور اس کے پروگرام سے متعلق تحفظات بھی، عمران خان اپنی اکڑفوں کی وجہ سے میرے لیے پسندیدہ نہیں ہیں اور سیاست دان ہونے کی تو ان میں رمق تک نہیں ہے مگر وزیر برائے امور دفاع خواجہ محمد آصف کا پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تحریک انصاف کے رہنما اور دیگر زعماء سے متعلق جو رویہ اور انداز تھا وہ اسے میں کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں قرار دے سکتا بلکہ قابل مذمت خیال کرتا ہوں۔ گلی میں جھگڑا کرنے والی لڑاکو عورت کی مانند طعنے تشنے دینا، جیسے پھوپھی بھتیجوں کی غلط حرکات پر ان میں شرم و حیا کے فقدان کا ذکر کرتی ہے ویسا انداز اختیار کرنا ایک معّزز سیاسی رہنما کو قطعی زیب نہیں دیتا۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف والے اپنی مرضی سے نہیں آئے تھے بلکہ ان کے استعفے منظور نہ کرکے، ان کے مطالبے پر انتخابات میں دھاندلی ہونے یا نہ ہونے کا پتہ چلانے کی خاطر جوڈیشل کمیشن بنا کر حکومت نے خود ان کے اراکین کے اسمبلیوں میں انے کی راہ ہموار کی۔ پھر خواجہ آصف خود اس بہو کی مثال دیتے ہیں جو روٹھ کر میکے جا بیٹھی تھی پھر بھینس کی دم پکڑ کر سسرال لوٹ آئی اور کہا کہ میں نہ آتی مجھے تو بھیس کھینچ کے لے آئی ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین جس بھینس کی دم پکڑے کھنچتے ہوئے آئے ہیں وہ خود مقتدر پارٹی مسلم لیگ نون ہے۔ پھر معاملہ ایسا ہے یعنی یمن کی جنگ کے تناظر میں پاکستانی فوج کے ایک حصے کو سعودی حاکمیت میں دینے کا فیصلہ کرنے کا جس کے سلسلے میں عمران خان نے بغض معاویہ میں ہی سہی لیکن ایک بہتر اور بنیادی موقف اپنایا ہے کہ ہمیں دوسروں کی جنگ میں نہیں کودنا چاہیے، عمران خان اور ان کے ساتھی اسی موقف کو واضح کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پہنچے تو مقتدر پارٹی کے ایک ذمہ دار فرد کا فرض تھا کہ ان کو خوش آمدید کہتے نہ کہ ان کے لتے لیتے۔
عوامی اسملیاں دراصل عوامی نمائندہ ہونے کے حوالے سے جہاں ایک طرف معاشرے کے عمومی رویے کا عکس ہوتی ہیں وہاں اسمبلی میں منتخب ہو کر انے والے اراکین کا یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ عام لوگوں کو مثال بن کر دکھائیں اور سبق دیں کہ اپنے رویے کس طرح بہتر کیے جا سکتے ہیں؟ رواداری اور برداشت کا کس طرح مظاہرہ کیا جاتا ہے؟ اختلاف کرنے والوں کے ساتھ کیسے احسن سلوک کیا جاتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ مگر کیا کیا جائے تہذیب و تمیز تو آتے آتے ہی آتی ہے ناں!

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply