ایوب،ضیا اور مشرف،ایک تصویر کے تین رخ

یہ اس وقت کی بات تھی جب شہید لیاقت علی خان نے امریکہ میں کھڑے ہو کر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہماری روحیں بکاؤ مال نہیں ہیں ۔اس وقت جمہوریت کا بول بالا تھا ، جبکہ پاکستان میں مولانا شبیر احمد عثمانی رحمتہ الله علیہ اور دیگرمذہبی حلقوں کی کوششوں سے قراراداد مقاصد جیسی "غیر جمہوری" قرارادد پاس ہو چکی تھی، بلکہ اس قرارداد کے زیر اثر، دستور ساز اسمبلی کام کر رہی تھی – ایسے میں جنرل ایوب خان صاحب نے جبرا ًحکومت سنبھالی، یوں دستور معطل اور اسمبلی ختم ہو گئی – اسی دوران عالمی منظر نامہ سرد جنگ سے آشا ہوا اور پاکستان میں بھٹو صاحب کی عوامی اور مقبول ترین حکومت قائم ہو گئی۔ بھٹو صاحب نظریاتی طور پر سوشلسٹ بلاک کے زیادہ نزدیک تھے ، جبکہ افغانستان میں روس کی حمایت یافتہ سوشلسٹ حکومت قائم ہو چکی تھی ۔ ایشیاء میں امریکہ کے مفادات کا تحفظ اسی بات میں تھا کہ ان دونوں ممالک میں یہ دنوں حکومتیں ختم ہوں۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سب سے پہلے مذہبی طاقتوں کو میدان میں اتارا گیا، بھٹو صاحب کے خلاف نظام مصطفیٰؐ تحریک اسی لیے اٹھائی گئی۔جب حالات اس نہج پر پہنچے تو اچانک ضیاء الحق صاحب کو میدان میں لا کر مذہبی تحریک کو اغوا کر لیا گیا۔
ضیاء الحق صاحب نے پاکستان میں نفاذ اسلام کے عمل کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ، اور حکمت دین و سنت نبوی صلی الله علیہ وآلہ وسلم کے برعکس، آغاز چند سخت ترین سزاؤں کے نفاذ سے کیا ۔مگر ساتھ ساتھ ہی کمال مہارت اور ٹیکنیکل لوچ سے ان قوانین میں ایسی خامیاں چھوڑ دی گئیں جن کو بنیاد بنا کے اسلام بیزار طبقے کو اسلامی قوانین کا مذاق اڑانے اور معاشرے میں ایک اسلام سے ڈر والی فضا پیدا ہو گئی۔
بدقسمتی کی وجہ سے مذہبی قوتیں ضیاء الحق کے ان ظاہری اقدامات سے خوش ہو کر ان کو مرد حق سمجھنے پر مجبور رہیں ۔اسی دوران افغانستان میں بغاوت کے نتیجے میں، افغان حکومت نے پہلے سے موجود معاہدے کے مطابق، روسی افواج کو مدد کے لیے بلایا۔ پہلے سے اسی بات کے انتظار میں بیٹھی Capitalist طاقتیں جہاد اور اسلام کو استعمال کرتے ہوۓ پوری دنیا سے مجاہدین اکھٹے کر کے لائیں تاکہ وہ Socialism جیسے کفر کے خلاف لڑ کے ایک مسلمان ملک کو ایک کافر ملک کی افواج کے تسلط سے بچا سکیں۔مگر اس سب کے دوران ، مسلمان قیادت یہ بات بالکل بھول گئی کہ اسلام کی نظر میں کفار کی مدد سے کیا گیا جہاد کیا حیثیت رکھتا ہے۔
روس ٹوٹ جانے کے باوجود NATO کا ختم نہ ہونا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ نظاموں کی اس جنگ میں اگلا ہدف کوئی اور نظام ہوگا – خطے کو مسلسل کشیدگی کا شکار رکھنے کے لئے اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ دنیا بھر سے آنے والے مجاہدین، مقصد جہاد حاصل ہو جانے کے بعد اپنے اپنے وطن واپس نہ جا سکیں تاکہ انہی مجاہدین کو بعد میں بھی استعمال کیا جا سکے – روس کے انخلاء کے بعد خود مجاہدین حکومت پر قبضے کی غرض سے مخلتف گروہوں میں بٹ گئے اور لڑنے لگے-
جب ضیاءالحق صاحب کو بار بار ان کا وعدہ نفاذ شریعت اسلامی یاد دلایا گیا تو انہوں نے اس مصیبت سے جان چھڑانے کی راہ یہ نکالی کہ خود مطالبہ کرنے والوں کو آپس میں لڑا دو ۔ اسی دور میں مختلف فرقہ وارانہ تنظیمیں بنائی گئیں جنہوں نے اپنے فسادات کے ذریعے عوام کو اسلام سے اور بھی دور کر دیا اور لبرل طاقتوں کو اعتراض کا ایک نکتہ عطا ہوا ۔ دوسری طرف کراچی جیسے شہر میں جہاں مذہبی طاقتوں کا سب سے زیادہ اثر تھا ایم کیو ایم جیسی تنظیم کو پروان چڑھا کر شہر بھر کو لسانی منافرت کی دلدل میں پھینک دیا ۔
متحدہ روس کے ٹوٹنے کا سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اور سب سے زیادہ فائدہ Capitalism اور امریکہ کو ہوا ہے۔ دنیا پہلے سے زیادہ غیر محفوظ، Unipolar، طاقت کے عدم توازن کا شکار ہوئی۔حیرت ہے یہ سب باتیں ایک "نیم ملحدہ" اور "ناقص العقل عورت"عاصمہ جہانگیر اسی وقت سمجھ گئی تھی مگر ہماری عسکری و مذہبی قیادت کی "آسمانی" عقلوں پر ڈالر نے ایسا پردہ ڈالا کہ بیچاری "استعمال"ہو گئی!
ضیاء الحق کی وجہ سے ہی ہم آج فرقہ پرستی، نسلی و لسانی تعصب، مذہبی جنونیت اور اسلحہ مافیا کا پسندیدہ ملک ہیں ۔درخت اپنے پھل سے، زمین اپنی فصل سے ،ماں باپ اپنی اولاد سے اور لیڈر اپنی باقیات سے پہچانا جاتا ہے۔ضیاء الحق صاحب کی باقیات الصالحات میں القاعدہ، ایم کیو ایم اور شریف برادران شامل ہیں۔ پہچان کچھ مشکل نہیں۔اب عالمی منظر نامے میں وقت تھا اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کا ۔ اس لئے پاکستان میں ایک بار پھر عوامی حکومت کو ہٹا کر فوجی حکومت لائی گئی۔ اس بار کیونکہ ہدف خود اسلام تھا اس لیے ضیاء دور کے مجاہدین اب دہشتگرد کہلاۓ، اسلام پسند انتہاء پسند بنے اور اس دور کا نیا راگ جدت پسندی ٹھہرا۔
الغرض جنرل ایوب کی جمہوریت پسندی، جنرل ضیاء الحق کی اسلام پسندی اور جنرل مشرف کی جدت پسندی ان کی اپنی نیت و اخلاص نہیں ، عالمی استعماری طاقتوں بالخصوص امریکہ کی وقتی ضروریات کو پورا کرنے کا ذریعہ تھیں۔ عالمی منظر نامے پر جب جب کوئی بڑی Game Changer تبدیلی آئی ہے تو ان طاقتوں نے اس بات کو ہمیشہ یقینی بنایا ہے کہ پاکستان میں عوامی حکومت نہ ہو۔ کروڑوں لوگوں کو راضی کرنا ، چند لوگوں کو راضی کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ اپنے عہد کی فراست اپنی تاریخ کی غلطیاں جانے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ ماضی کی تاریکی کو جانے بغیر مستقبل کو روشن کرنا ناممکن ہے۔

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply