بے راہ روی

بےراہ روی
وثیق چیمہ
نوٹ:۔(اس موضوع پر آنے والی تحریروں کو صرف اس بنا پر ہی خوش آمدید کہا جائے گا اگر ان میں سماجی رویوں،تاریخی و مذہبی حوالوں سے بات کی گئی ہو گی تو۔نیز صرف تفنن طبع اور خوا مخواہ کے مبلغین سے معذرت۔یہ ایک سماجی رویہ ہے اور سارے سماجی رویے علمی طرز فکر کے متقاضی ہوتے ہیں۔لذت کام دہن کے لیے اس موضوع کو نہ چھیڑا جائے بلکہ اس کی سماجی وجوہات تلاش کی جائیں۔ادارہ)
دو دن پہلےنفسیات کی ایک پروفیسر صاحبہ نے خلوصِ نیت سے ایک معاشرتی بیماری کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی۔ پیغام اچھا تھا مگر قبیلے کا نام دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لکھ کر اسے اور متنازعہ بنایا گیا جسکی وجہ سے میری جیسے جاہل اور کم علم نے بھی تنقید کی ۔بہر حال الفاظ کا چناؤ مناسب نہیں تھا ۔ایک اور صاحبہ نے لکھنے کی کوشش کی مگر انہوں نے بھی صرف مسئلہ بتایا اور معاشرتی رویوں کا رونا رویا ۔مسئلہ بتایا گیا مسئلے کا حل سوالیہ نشان رہا سوچا قلم اٹھایا جائے اور کسی حد تک حل بھی بتایا جائے ۔
آپ سنتے پڑھتے ہوں گے کمسن بچہ یابچی زیادتی کا شکار ہوگئے دوشیزہ کے ساتھ ظلم ہوگیا معاشرہ بگڑتا جا رہا ہے عزتیں غیر محفوظ ہو گئی ہیں یہاں تک کہ خونی رشتے بھی اس جرم میں ملوث پائے گئے ہیں مرد ظالم ہوتا جا رہا ہے عورت مظلوم بتائی جارہی ہے ، آئے روز ایسے واقعات کا بڑھنا لمحہ فکریہ ہے تو اسکی وجہ کون ہے؟؟ کبھی اس پر بھی کسی نے آواز بلند کی؟؟ بلوغت کو پہنچتے بچے وقت سے پہلے کیوں جوان ہو رہے ہیں؟ جلد سے جلد شادی کی خواہش کیوں جنم لے رہی ہے؟؟ کبھی اس بارے میں بھی سوچا؟؟ وجوہات بہت سی ہیں سب کا ذکر ممکن نہیں سر فہرست مذہب سے دوری ہے ۔
اسلام نے دو راستے دکھائے ہیں نیکی بدی، انسان کے ذمہ ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتا ہے نیکی کے راستے چلنا مشکل ہوتا ہے برائی کا راستہ آسان اور لذتوں بھرا ہوتا ہے اور ہم شیطان(نفس) کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں پھر وہ اپنی مرضی کے کام کرواتا ہے یہاں تک کہ کم سن بچیوں اور بچوں کو بھی اپنی درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔اسکا حل یہ ہے علماء امت کو امر بالمعروف ونہی المنکر کرتے رہیں آخرت یاد کرواتے رہیں جزا و سزا بتاتے رہیں جہاں علماء اپنا کردار ادا کریں وہیں انسان کو بھی چاہئے کہ ہدایت کا طالب بن جائے احساسِ ندامت پیدا کرے ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر صراطِ مستقیم کی دعا کرے سیدھے راستے پر آجائے ۔
شعور کی کمی :۔انسان اپنی ذات کو پہچان نہیں پاتا اسے زندگی کا مقصد سمجھ نہیں آتا وہ بھٹکتا ہوا لغویات کی طرف بڑھتا جاتا ہے کبھی جوا خانے میں روح کی تسکین ڈھونڈتا ہے کبھی عورت میں ۔
اس کا حل ہے کہ شعور کو اجاگر کیا جائے ماں بہن بیٹی کے مقدس رشتوں کا احترام سکھایا جائے طرزِ زندگی کوبہتر کیاجائے سوچ کا رخ تبدیل کیا جائے زندگی کا کوئی مقصد،کوئی نصب العین متعین کیا جائے
تعلیم کی کمی :۔جہالت اور گمراہی کا چولی دامن کا ساتھ ہے پڑھے لکھے شخص کی نسبت ان پڑھ کے گمراہ ہونے کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں حلال و حرام کی تمیز نا ہونا بھی بے راہ روی کا سبب ہے ۔لہٰذا تعلیم عام کی جائے
مخلوط نظام :۔دسویں نویں اور اب ساتویں جماعت کے طالب علم بھی محبوبہ پر جان نچھاور کر کے عشق و محبت کی داستان لکھ رہے ہیں اور یہ سب درسگاہوں میں ہو رہا ہے مدرسوں کو انکی اصل حالت میں واپس لایا جائے اور بلوغیت کو پہچتے بچوں پر خصوصی توجہ دی جائے جسمانی تبدیلی کے بارے میں بتایا جائے بچہ سات سال کا ہو جائے تو اسکا بستر الگ کر دیا جائے عبادات کی طرف متوجہ کیا جائے درسی کتب کے علاوہ معیاری رسائل مہیا کیئے جائیں صحت مند مشاغل کروائے جائیں ملنے والے دوست احباب پر نظر رکھی جائے بڑی عمر کے لوگوں کےساتھ دوستی سے منع کیا جائے والدین بچوں کو اعتماد میں لیں تاکہ وہ بلاججھک ہر بات ان سے کر سکیں میاں بیوی بچوں کے سامنے بے تکلفی سے گریز کریں ۔
امید ہے کہ تھوڑی سی احتیاط سے بہت سارے مسائل حل ہوجائیں گے
شادی میں تاخیر :۔ہر شخص بخوبی جانتا ہے بچہ 14 سال تک بالغ ہوجاتا ہے ٹیکنالوجی کے دور میں بلوغت کی عمر اور بھی کم ہوگئی ہے فرض کریں بچہ 16 سال تک مکمل بالغ ہوجاتا ہے تو کیا کوئی ایسا جادو جس کی مدد سے اسکی خواہشات کو دبایا جا سکتا ہے؟؟ صبر ضبط تو ایک حد تک ہوتا ہے۔پھر پیمانہ لبریز ہوجاتا ہےوہ بے راہ روی کا شکار ہوگا ۔معاشرے کا ناسور بنے گا ۔لہٰذا والدین سے مودبانہ گزارش ہے نکاح کو عام کریں بچوں کی شادی میں جلدی کریں لوگوں کی عزتیں محفوظ کریں خود کو اپنی اولاد کو اور آنے والی نسلوں کو محفوظ کریں ۔

Facebook Comments

وثیق چیمہ
خاک ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply