• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ضیاء الحق کا وہ ناقابلِ معافی جرم ۔ جو کسی اور سے سرزد نہ ہوا

ضیاء الحق کا وہ ناقابلِ معافی جرم ۔ جو کسی اور سے سرزد نہ ہوا

آج 17 اگست ہے اور سابق صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق کی 29ویں برسی۔ آج ہی کے دن یعنی 17اگست 1988ء کو بہاولپور کے قریب بستی لال کمال کی فضاوں میں ایک طیارے کا حادثہ کیا پیش آیا جنرل ضیاء سمیت پاکستان کی عسکری قیادت کا ایک بڑا حصہ ختم ہوگیا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کے علاوہ عسکری چالوں اور جمہوری سفر میں ایک واضح تبدیلی آگئی۔اس موقع پر فیس بک پر جنرل ضیاء کے حامیوں اور مخالفین نے اپنی اپنی سوچ کے مطابق اس کے حق اور خلاف تحریریں پوسٹ کی ہوئی ہیں۔ اب ہم نہ تو کوئی فوجی ہیں اور نہ ہی کوئی عسکری ماہر کہ جنرل ضیاء کی افغان پالیسی کے حق میں یا اس کے خلاف دلائل کے انبار لگا سکیں۔نہ ہی ہم کوئی ماہرِ بین الاقوامی تعلقات ہیں کہ جنرل صاحب کی خارجہ پالیسیوں کے حُسن و قبح پر کوئی روشنی ڈال کر یہ ثابت کر سکیں کہ امریکی امداد کو اس وقت مونگ پھلیاں کہہ کر ٹھکرانا کتنا اثرانگیز تھا جب پاکستان پر بین الاقوامی پابندیاں عائد تھیں۔
نہ ہی ہم کوئی معیشت دان ہیں جو تکنیکی بنیادوں پر یہ ثابت کرسکیں کہ جنرل صاحب کے دور میں پٹرول اور ڈالر کی قیمت نہ بڑھنے کی وجہ جنرل صاحب کی معاشی پالیسیاں تھیں یا بین الاقوامی حالات کی مجبوریاں۔ہم ٹھہرے ایک عام سے پاکستانی جس کا ملکی معاملات میں صرف اتنا ہی عمل دخل ہوتا ہے کہ پانچ سال میں ایک بار میلے ٹھیلوں سے متاثر ہونے کے بعد لائین میں لگتے ہیں اور ووٹ دے کر یہ سوچتے سوچتے خوش خوش گھر واپس آجاتے ہیں کہ اب ہمارے ملک میں خوشحالی آجائے گی۔ یہ خوشی ہماری اس ذہنی سوچ کی عکاس ہے کہ ہم بنیادی طور پر ایک جمہوریت پسند اور ملک کے خیرخواہ فرد ہیں۔ ہمیں اس وقت سخت غصہ چڑھتا ہی جب کوئی ہمارے پیارے ملک کو برا بھلا کہے یا جمہوریت اور جمہوری اداروں کی توہین کرے۔
اسی وجہ سے ہم جنرل محمد ضیاء الحق کو پسند نہیں کرتے ہیں کہ ایک طرف تو انہوں نے اس ملک میں ایک منتخب جمہوری وزیرِاعظم کی حکومت کو برطرف کرکے اس وقت برسرِ اقتدار آئے جس وقت پورا ملک خون اور آگ کا غسل کررہا تھا۔ اور پھر ان کو ایک قتل کے مقدمے میں پھانسی پر چڑھا دیا۔ اب ہم کوئی ماہرِ آئین و قانون اور انصاف تو ہیں نہیں کہ یہ فیصلہ کرسکیں کہ یہ پھانسی آئین کے کتنے تقاضے پورے کرتی تھی اور قانون کی نظر میں کتنی وزن دار تھی یا انصاف کی علمبردار تھی بھی یا نہیں۔
لیکن ہمیں جنرل صاحب کا ایک بیان آج تک چبھتا ہے جس میں انہوں نے ہمارے آئین کی توہین کرتے ہوئے ببانگ دہل یہ کہا تھا کہ:آئین کیا ہے؟ چند اوراق پر مشتمل ایک کتابچہ ہی تو ہے، میرے پاس اتنی قوت ہے کہ میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں اور ایک نیا آئین لکھ دوں۔
اف ہمارے پیارے ملک کے آئین کی اتنی بے حرمتی، ہم سے تو برداشت نہیں ہوتی ہے، اسی لیے تو ہم نے جنرل صاحب کو اپنی پسندیدہ شخصیات کی فہرست سے خارج کررکھا ہے۔
بتائیے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے قیامِ پاکستان کے 26 سال بعد متفقہ طور پر ایک آئین کی منظوری دی،یہ ٹھیک ہے اس کے بعد اس آئین میں کوئی ترمیم متفقہ نہ تھی، اور ان ترامیم کے بعد اس آئین کا وہ حلیہ نہ رہا جو متفقہ آئین کی تھی۔ لیکن پھر بھی جب ہم اس کو متفقہ مان رہے ہیں تو وہ متفقہ تھا اور کسی ایک فردِ واحد کو یہ اختیار کیسے دیا جاسکتا ہے وہ اس ملک کے آئین کی توہین کرے۔
اور ضیاء الحق تو فوجی مارشل لاء کے ذریعے برسرِ اقتدار آئے تھے ان کو لعن طعن کرنا صرف فیشن ہی نہیں فرض بھی ہے۔ ضیاء الحق نے یہ کیوں کہا کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے؟ کیا ہوا جو آئین کے مطابق پارلیمنٹ میں اگر ایک بار استعفیٰ دے دیا جائے تو اس کی واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اور پھر لوگوں نے نہ صرف باجماعت استعفیٰ دیا بلکہ کنٹینر پر چڑھ چڑھ کر للکار للکار کر اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہم نے استعفیٰ اپنی مرضی سے دیا ہے، اس کو منظور کرو، لیکن بعد میں نظریہ ضرورت کے تحت وہی لوگ پارلیمنٹ میں واپس آگئے اور آئین منہ چھپائے پھرتا رہا لیکن میں پھر بھی اسی غم میں ڈوبا ہوا ہوں کہ ضیاء الحق نے یہ کیوں کہا کہ آئین تو چند ورقی کتابچہ ہے؟
ضیاء الحق نے یہ کیوں کہا کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے؟ کیا ہوا جو ایک گروپ کے دیکھا دیکھی دوسرے گروپ نے استعفے کی نامظوری کے تمام امکانات تاریک کرتے ہوئے اسپیکر اور چیئرمین کے ہاتھ میں استعفے دیتے ہوئے تصاویر بھی کھنچوائیں، اور پھر وزیرِاعظم نے عملی طور پر آئین کو دو ورقی چیتھڑا ثابت کرتے ہوئے اسپیکر کو یہ "ہدایت" جاری کی کہ استعفے منظور نہ کرنا (گویا انہون نے یہ ثابت کردیا کہ اسپیکر وزیرِاعظم کے ماتحت ہے)، اور پھر اُن ہی مولانا صاحب کو صاحبانِ استعفیٰ کی خوشامد پر مامور کردیا جن کے پیٹ میں 1973 کے آئین کے تناظر کا درد بہت شدت سے اٹھا کرتا ہے۔ لیکن یقین جانیئے میں مولونا صاحب، اسپیکر اور وزیرِاعظم کو آئین کی اس بے حرمتی پر بالکل کچھ نہیں کہوں گا کیوں کہ یہ سب کوئی وردی پوش تھوڑا ہی ہیں۔ ہاں میں یہ سوچ سوچ کر ضرور غصے سے کھول رہا ہوں کہ ضیاء الحق نے یہ کیوں کہا کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے؟
آئین تو یہ کہتا ہے کہ آئین کو توڑنے یا معطل کرنے والا اور اس کا ساتھ دینے والے مجرم ہیں اور ان کو ملک دشمن تصور کیا جائے گا۔ اور آج یہ مجرمین آئین کی اس شق کے باوجود اس ملک میں نہ صرف پُر سکون زندگی گذار رہے ہیں بلکہ ملکی سیاست میں بھی اپنا معتدبہ حصہ ڈال رہے ہیں تو شائد آئین کی اتنی توہین نہیں ہورہی ہے جتنی ضیاء الحق کے اس بیان سے ہوئی تھی کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے؟
آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس ملک کی قومی اور سرکاری زبان اردو ہو گی اور اس پر وزیرِاعظم صاحب نے سپریم کورٹ کو یہ یقین بھی دلوایا کہ وہ آئیندہ تمام سرکاری تقاریر اردو زبان میں ہی کریں گے، لیکن اس یقین دھانی کے بعد غیر ملکی دوروں میں انگریزی میں تقاریر سے نہ تو سپریم کورٹ کی اتنی توہین ہوئی اور نہ ہی اتنی آئین شکنی ہوئی جتنی ضیاء الحق کے اس بیان سے کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے، میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔
آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ اس ملک کے بلدیاتی معاملات کی دیکھ بھال کے لیے بلدیات کا ایک باقاعدہ نظام ہوگا، لیکن پاکستان کے دو بڑے صوبوں میں اس نظام کی عدم فراہمی نے آئین کو اتنا بَل نہیں دیا جتنا ضیاء الحق کے اس بیان نے بَل دیا تھا کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے، میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔
آئین تو یہ بھی کہتا ہے کہ مفت تعلیم، تحفظ اور صحت عام افراد کا بنیادی حق ہے لیکن پرائیویٹ ہی نہیں بلکہ سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں میں فیس کے نام پر لیا جانے والا ایک پیسہ بھی آئین کی توہین ہے کجا کہ ہزاروں روپے وصول کیے جائیں لیکن پھر بھی مجھے یقین ہے کہ آئین کی اس توہین نے آئین کو اتنا بے عزت نہیں کیا جتنا ضیاء الحق کے اس بیان سے کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے، میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔
میں ضیاء الحق کا ییہ جرم معاف نہیں کرسکتا ہوں کہ اس نے یہ کہا کہا آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے، میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں۔ باقی لوگوں کے بارے میں میں کوئی اعتراض اس لیے نہیں کروں گا کہ انہوں صرف عمل ہی تو کیا ہے کوئی ضیاء الحق کی طرح محض دعویٰ تو نہیں کیا۔یہ ٹھیک ہے کہ آئین کی سب سے زیادہ توہین میرے منتخب نمائیندوں نے ہی کی ہے، لیکن اگر میں ان پر قلم اٹھاتا ہوں تو بالکل ایسے ہی ہے کہ قمیص کا دامن اٹھانے سے اپنا ہی پیٹ ننگا ہوتا ہے اس لیے جب مجھے ضیاء الحق جیسا آسان حدف میسر ہے تو میں اپنا پیٹ کیوں ننگا کروں، آخر ضیاء الحق نے یہ کہا ہی کیوں کہ آئین تو چند اوراق کا ایک کتابچہ ہے، میں اس کو جب چاہوں پھاڑ کر پھینک دوں؟

Facebook Comments

سلیم فاروقی
کالم نگار، کہانی نگار، بچوں کی کہانی نگار، صد لفظی کہانی نگار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply