• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • دنیا کی سب سے آلودہ ہوا میں لکھا گیا ایک کالم۔۔محمد اسد شاہ

دنیا کی سب سے آلودہ ہوا میں لکھا گیا ایک کالم۔۔محمد اسد شاہ

لاہور پاکستان کا دل ہے ، اور یہاں کے باسیوں کو زندہ دل مانا جاتا ہے – دنیا لاہور کو باغوں اور تعلیمی اداروں کے شہر کے طور پر جانتی ہے – لیکن میری نظر میں لاہور اور بھی بے شمار خصوصیات کا حامل شہر ہے – یہ محبتوں ، خلوص ، چاہتوں ، دوستیوں اور مسکراہٹوں کا شہر بھی ہے – یہ علم و ادب کا گہوارہ بھی ہے – یہ ثقافت کا مرکز ہے – شعور و آگہی کے میدان میں لاہور بہت اعلیٰ مقام رکھتا ہے – یہ یونیورسٹیوں ، پارکوں ، سڑکوں ، درختوں ، پھولوں ، درباروں ، کلبوں اور ہوٹلوں کا شہر بھی ہے – یہ علامہ محمد اقبال ، عبد الرب نشتر ، حفیظ جالندھری ، پطرس بخاری ، ابن انشاء ، فیض احمد فیض ، ناصر کاظمی ، انتظار حسین اور اختر شیرانی کا شہر ہے – یہ غازی علم الدین شہید ، ڈاکٹر محمد دین تاثیر ، سید ابوالاعلٰی مودودی ، ڈاکٹر اسرار احمد اور میاں محمد نواز شریف کا شہر ہے – یہ خواجہ محمد رفیق شہید اور نواب زادہ نصر اللّٰہ خان کا شہر ہے – یہ ملک معراج خالد ، شہباز شریف ، محترمہ مریم نواز ، خواجہ سعد رفیق ، سردار ایاز صادق ، طارق عزیز ، اداکار محمد علی اور عمران خان کا بھی شہر ہے – یہ سیاست کے شاہ سواروں اور کھیل کے بادشاہوں کا شہر بھی ہے – یہ عبدالحمید نظامی ، عبدالمجید نظامی اور عطاء الحق قاسمی جیسے صحافیوں کا شہر ہے – مجھے اس شہر کے ایک ایک چپے سے پیار ہے – طالب علمی کے دور میں ہی میں نے کالم لکھنا شروع کر دیا تھا – اور قارئین حیران ہوں گے تب میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر لکھنے کی بجائے کھلی جگہوں پر بیٹھ کر لکھا کرتا تھا – تب کبھی میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے سامنے سڑک کے پار نہر کنارے اُگی گھاس پر بیٹھ کے لکھا کرتا تھا – کبھی باغ جناح کی بنچوں پہ بیٹھ کر ، کبھی گورنر ہاؤس کے سامنے اسی باغ کے بیرونی کنارے پہ جامن کے پیڑوں تلے بیٹھ کر ، اور مال روڈ اور جیل روڈ کے ساتھ ساتھ بنی انتظار گاہوں کی خالی کرسیوں پہ بیٹھ کر لکھنا میرے محبوب ترین مشغلوں میں سے تھا – ایک ایک جملے کو کئی کئی بار سوچنا ، پھر خیالوں میں محو نگاہوں سے سڑک پر گزرتی گاڑیوں اور لوگوں کو دیکھنا اور پھر سے لکھنا بہت رومان پرور لگتا تھا – تب فرصت تھی یا شاید وقت میں زیادہ برکت تھی – کالم لکھ کر خود اخبار کے دفتر جانا بھی ایک خوش گوار کام لگتا تھا – اب تو ایسی مصروفیات ہیں کہ کالم لکھنے کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل لگتا ہے – اس وقت بھی میں اپنے بستر میں بیٹھا ، لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر رہا ہوں ، ساتھ ٹرے میں چائے کا کپ ہے – کالم لکھ کر ایڈیٹر صاحب کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتا ہوں یا کبھی ای میل کے ذریعے – خیر بات لاہور کی ہو رہی تھی کہ چند سال پہلے تک جس کے باغوں میں ، اور سڑک کنارے بنچوں پہ بیٹھ کر بھی لکھا جا سکتا تھا – لیکن اب ایسا نہیں ہے – گزشتہ کئی دنوں سے دنیا اس شہر کو ایک اور حوالے سے جان رہی ہے – یہ حوالہ باعث شرم بھی ہے اور ہم سب کے لیے انتہائی خطرناک بھی – باغوں اور بہاروں کے اس شہر کو آج کل دنیا کا آلودہ ترین شہر مانا جاتا ہے – لاہور اور اس کے چاروں اطراف تقریباً چار چار سو کلو میٹر تک کے تمام شہر اور دیہات کی فضا دھوئیں اور گرد و غبار سے اٹی ہے – لاہور کے مشرق میں بھارتی پنجاب ہے جہاں یہ آلودگی پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے – جب کہ لاہور سے متصل شہروں گجرانوالا ، قصور ، نارووال اور شیخوپورہ میں بھی قریب قریب یہی حالت ہے – فیصل آباد ، جھنگ ، حافظ آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی فضا اتنی آلودہ ہے کہ روزانہ عصر کے وقت سے ہی ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگتا ہے – سادہ لوح اسے دھند سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں – لیکن جب گلے میں خراش اور پھر کھانسی شروع ہوتی ہے ، تب انھیں خیال آتا ہے کہ یہ دھواں ہے – لاہور میں فضائی آلودگی کا یہ حال ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس لیول 264 تک پہنچ چکا ہے – ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضر صحت ، 201 سے 300 درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت ، اور 301 سے زائد درجہ انتہائی خطرناک ہے – ماہرین ماحولیات و صحت کہتے ہیں کہ اس آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک لازمی استعمال کریں – میں خود اور میرے بچے فاطمہ ، محمد اور علی اب بھی گھر سے نکلتے ہوئے ماسک ضرور لگاتے ہیں – کیوں کہ سموگ سے بچنا بھی اتنا ہی لازمی ہے جتنا کرونا سے – دنیا بھر میں اس پر کام شروع ہو چکا ہے – لیکن تاخیر ہو چکی ہے – سموگ سے آگاہی اور شعور یورپ میں زیادہ ہے ، جب کہ وہاں آلودگی برصغیر کی نسبت بہت کم ہے – برصغیر میں ، خصوصاً پنجاب کے کسانوں میں فصلوں کی باقیات جلانا صدیوں سے ایک معمول ہے – حیرت کی بات ہے کہ اس خطرناک معمول کو روکنے پر یہاں کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی – گزشتہ حکومت میں اس حوالے سے کچھ کوششیں نظر آئیں – لیکن عام لوگ اب تک اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے – لاہور اسلام آباد موٹر وے کے اطراف میں فصلوں کی باقیات جلنے سے اس قدر دھواں ہوتا ہے کہ کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں – گاڑیوں، کارخانوں ، بھٹوں اور بھٹیوں کا دھواں اس پہ مستزاد – جرمانوں کا ایک قانون موجود ہے لیکن اسے بھی عملاً مذاق بنا دیا گیا ہے – کیا اس ملک اور اس حکومت میں کہیں کوئی جاگ رہا ہے جو اس کو روک سکے اور ہماری آئندہ نسلوں کو ایک صاف ستھرا ماحول مل سکے ؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply