لاہور پاکستان کا دل ہے ، اور یہاں کے باسیوں کو زندہ دل مانا جاتا ہے – دنیا لاہور کو باغوں اور تعلیمی اداروں کے شہر کے طور پر جانتی ہے – لیکن میری نظر میں لاہور اور بھی بے شمار خصوصیات کا حامل شہر ہے – یہ محبتوں ، خلوص ، چاہتوں ، دوستیوں اور مسکراہٹوں کا شہر بھی ہے – یہ علم و ادب کا گہوارہ بھی ہے – یہ ثقافت کا مرکز ہے – شعور و آگہی کے میدان میں لاہور بہت اعلیٰ مقام رکھتا ہے – یہ یونیورسٹیوں ، پارکوں ، سڑکوں ، درختوں ، پھولوں ، درباروں ، کلبوں اور ہوٹلوں کا شہر بھی ہے – یہ علامہ محمد اقبال ، عبد الرب نشتر ، حفیظ جالندھری ، پطرس بخاری ، ابن انشاء ، فیض احمد فیض ، ناصر کاظمی ، انتظار حسین اور اختر شیرانی کا شہر ہے – یہ غازی علم الدین شہید ، ڈاکٹر محمد دین تاثیر ، سید ابوالاعلٰی مودودی ، ڈاکٹر اسرار احمد اور میاں محمد نواز شریف کا شہر ہے – یہ خواجہ محمد رفیق شہید اور نواب زادہ نصر اللّٰہ خان کا شہر ہے – یہ ملک معراج خالد ، شہباز شریف ، محترمہ مریم نواز ، خواجہ سعد رفیق ، سردار ایاز صادق ، طارق عزیز ، اداکار محمد علی اور عمران خان کا بھی شہر ہے – یہ سیاست کے شاہ سواروں اور کھیل کے بادشاہوں کا شہر بھی ہے – یہ عبدالحمید نظامی ، عبدالمجید نظامی اور عطاء الحق قاسمی جیسے صحافیوں کا شہر ہے – مجھے اس شہر کے ایک ایک چپے سے پیار ہے – طالب علمی کے دور میں ہی میں نے کالم لکھنا شروع کر دیا تھا – اور قارئین حیران ہوں گے تب میں اپنے کمرے میں بیٹھ کر لکھنے کی بجائے کھلی جگہوں پر بیٹھ کر لکھا کرتا تھا – تب کبھی میں پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس کے سامنے سڑک کے پار نہر کنارے اُگی گھاس پر بیٹھ کے لکھا کرتا تھا – کبھی باغ جناح کی بنچوں پہ بیٹھ کر ، کبھی گورنر ہاؤس کے سامنے اسی باغ کے بیرونی کنارے پہ جامن کے پیڑوں تلے بیٹھ کر ، اور مال روڈ اور جیل روڈ کے ساتھ ساتھ بنی انتظار گاہوں کی خالی کرسیوں پہ بیٹھ کر لکھنا میرے محبوب ترین مشغلوں میں سے تھا – ایک ایک جملے کو کئی کئی بار سوچنا ، پھر خیالوں میں محو نگاہوں سے سڑک پر گزرتی گاڑیوں اور لوگوں کو دیکھنا اور پھر سے لکھنا بہت رومان پرور لگتا تھا – تب فرصت تھی یا شاید وقت میں زیادہ برکت تھی – کالم لکھ کر خود اخبار کے دفتر جانا بھی ایک خوش گوار کام لگتا تھا – اب تو ایسی مصروفیات ہیں کہ کالم لکھنے کے لیے وقت نکالنا بھی مشکل لگتا ہے – اس وقت بھی میں اپنے بستر میں بیٹھا ، لیپ ٹاپ پر ٹائپ کر رہا ہوں ، ساتھ ٹرے میں چائے کا کپ ہے – کالم لکھ کر ایڈیٹر صاحب کو واٹس ایپ کے ذریعے بھیج دیتا ہوں یا کبھی ای میل کے ذریعے – خیر بات لاہور کی ہو رہی تھی کہ چند سال پہلے تک جس کے باغوں میں ، اور سڑک کنارے بنچوں پہ بیٹھ کر بھی لکھا جا سکتا تھا – لیکن اب ایسا نہیں ہے – گزشتہ کئی دنوں سے دنیا اس شہر کو ایک اور حوالے سے جان رہی ہے – یہ حوالہ باعث شرم بھی ہے اور ہم سب کے لیے انتہائی خطرناک بھی – باغوں اور بہاروں کے اس شہر کو آج کل دنیا کا آلودہ ترین شہر مانا جاتا ہے – لاہور اور اس کے چاروں اطراف تقریباً چار چار سو کلو میٹر تک کے تمام شہر اور دیہات کی فضا دھوئیں اور گرد و غبار سے اٹی ہے – لاہور کے مشرق میں بھارتی پنجاب ہے جہاں یہ آلودگی پاکستان سے کئی گنا زیادہ ہے – جب کہ لاہور سے متصل شہروں گجرانوالا ، قصور ، نارووال اور شیخوپورہ میں بھی قریب قریب یہی حالت ہے – فیصل آباد ، جھنگ ، حافظ آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں بھی فضا اتنی آلودہ ہے کہ روزانہ عصر کے وقت سے ہی ہلکا ہلکا اندھیرا چھانے لگتا ہے – سادہ لوح اسے دھند سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں – لیکن جب گلے میں خراش اور پھر کھانسی شروع ہوتی ہے ، تب انھیں خیال آتا ہے کہ یہ دھواں ہے – لاہور میں فضائی آلودگی کا یہ حال ہے کہ ایئر کوالٹی انڈیکس لیول 264 تک پہنچ چکا ہے – ایئر کوالٹی انڈیکس کی درجہ بندی کے مطابق 151 سے 200 درجے تک آلودگی مضر صحت ، 201 سے 300 درجے تک آلودگی انتہائی مضر صحت ، اور 301 سے زائد درجہ انتہائی خطرناک ہے – ماہرین ماحولیات و صحت کہتے ہیں کہ اس آلودگی سے بچنے کے لیے ماسک لازمی استعمال کریں – میں خود اور میرے بچے فاطمہ ، محمد اور علی اب بھی گھر سے نکلتے ہوئے ماسک ضرور لگاتے ہیں – کیوں کہ سموگ سے بچنا بھی اتنا ہی لازمی ہے جتنا کرونا سے – دنیا بھر میں اس پر کام شروع ہو چکا ہے – لیکن تاخیر ہو چکی ہے – سموگ سے آگاہی اور شعور یورپ میں زیادہ ہے ، جب کہ وہاں آلودگی برصغیر کی نسبت بہت کم ہے – برصغیر میں ، خصوصاً پنجاب کے کسانوں میں فصلوں کی باقیات جلانا صدیوں سے ایک معمول ہے – حیرت کی بات ہے کہ اس خطرناک معمول کو روکنے پر یہاں کبھی کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی – گزشتہ حکومت میں اس حوالے سے کچھ کوششیں نظر آئیں – لیکن عام لوگ اب تک اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لے رہے – لاہور اسلام آباد موٹر وے کے اطراف میں فصلوں کی باقیات جلنے سے اس قدر دھواں ہوتا ہے کہ کئی حادثات بھی ہو چکے ہیں – گاڑیوں، کارخانوں ، بھٹوں اور بھٹیوں کا دھواں اس پہ مستزاد – جرمانوں کا ایک قانون موجود ہے لیکن اسے بھی عملاً مذاق بنا دیا گیا ہے – کیا اس ملک اور اس حکومت میں کہیں کوئی جاگ رہا ہے جو اس کو روک سکے اور ہماری آئندہ نسلوں کو ایک صاف ستھرا ماحول مل سکے ؟
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں