یہ بادشاہ آخر رخصت کیوں نہیں ہوتا؟

یہ ذکر ہے مملکت خداداد کا جہاں ایک ظالم بادشاہ کی حکومت تھی –
اس بادشاہ کا قصہ بھی عجیب ہے- کئی سال پہلے بھی وہ اقتدار میں تھا لیکن اس کی مطلق العنانی سے تنگ آ کر سالار جمہور پسند نے ملک میں جمہوریت نافذ کر کے نہ صرف اسے تخت سے علیحدہ کیا بلکہ ملک عرب بھی روانہ کر دیا تاکہ دنیاوی آلائشوں کو چھوڑ کے باقی ماندہ زندگی اللہ اللہ کرتے ہوئے گزار دے – لیکن بادشاہ نے آخرت کا سامان کرنے کے بجائے دنیا کے اقتدار پر نظریں گاڑی رکھیں- ادھر سالار جمہور پسند نے عوام الناس کے پرزور اصرار پر نو سال تک ملک کی باگ ڈور سنبھالے رکھی- رعایا تو اسے تاحیات حکمران رکھنے پر تلی ہوئی تھی لیکن وہ سالار ایسا درویش اور سیر چشم تھا کہ نو سال بعد ہی سب چھوڑ چھاڑ اپنے ڈھول تاشے اٹھا نگری نگری کی سیاحت کو چل کھڑا ہوا- اس زمانے میں ملک میں جو افراتفری پھیلی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سابق بادشاہ پھر ملک میں آن موجود ہوا اور اپنا کھویا ہوا تخت و تاج دوبارہ حاصل کرنے کے لئیے محلاتی سازشیں کرنے لگا – ان دنوں مملکت خداداد میں گمراہ کن عقائد کا دور دورہ ہو گیا – کچھ ایسی ہوا چلی کہ یہ اوندھا رواج پڑ گیا کہ عوام کی رائے لے کر فیصلہ کیا جائے کہ تخت پر کسے بٹھانا ہے – عجیب طوائف الملوکی کا دور شروع ہوا یعنی حسب نسب، ذات اوقات دیکھے بغیر، صاحبان عز و شرف کی پسند ناپسند کا خیال کئیے بنا، بس اس بات پر تخت و تاج کا فیصلہ کیا جانے لگا کہ رعایا کی اکثریت کیا چاہتی ہے – بجائے اس کے کہ عالی نسب، خاندانی لوگوں کی رائے لے کر فیصلے کیئے جاتے، ہر ہما شما کو رائے دہی کا حق دے دیا گیا – یہ پاگل پن نہیں تو اور کیا ہے کہ ایسے جاہل گنوار لوگوں کی رائے پوچھی جائے جنھیں شعور ہی نہیں کہ ان کے لئیے کیا اچھا ہے اور کیا برا – خیر، سابق بادشاہ جہلاء میں بہت اثر رکھتا تھا- خود بھی چونکہ وہ قدیم فارس کے آہن گر کاوا کی آل میں سے تھا جس نے عظیم شہنشاہ ضحاک کا تختہ الٹ دیا تھا، اس لئیے یہ مزدور پیشہ گنوار لوگ خوامخواہ اس کے حمایتی بن گئے

نتیجہ یہ نکلا کہ اس عوامی رائے کے احترام کے بیہودہ رواج کی وجہ سے اس آہن گر کے سپوت کو ایک بار پھر اقتدار سونپ دیا گیا- محض اس چھوٹی سی بات پر یہ سابق بادشاہ دوبارہ موجودہ بادشاہ بن گیا کہ ڈیڑھ کروڑ لوگ ایسا چاہتے تھے- حالانکہ بادشاہت کے امیدواروں میں ایک معزز گھرانے کا چشم و چراغ ملک کا ماہر شمشیرزن فریدون بھی شامل تھا جس کی پشت پر ستر لاکھ لوگ تھے- فریدون نے بہتیرا شور مچایا کہ ڈیڑھ کروڑ جاہل ذہنی غلاموں کی رائے میرے ستر لاکھ باشعور حامیوں سے زیادہ مقدم کیسے ہو سکتی ہے لیکن محض تعداد کے جبر کے بل بوتے پر آہن گر بادشاہ بن گیا

پھر وہی ہوا جو ہونا تھا – کم ظرف کے ہاتھ میں اقتدار آ جائے تو کسی کی دستار کہاں سلامت رہتی ہے- جب بادشاہ نے تخت پر اپنی گرفت مضبوط ہونے کے بعد شرفاء کی پگڑیوں سے چھیڑ چھاڑ شروع کی تو فریدون سے رہا نہ گیا اور اس نے علم بغاوت بلند کر دیا- لیکن غضب یہ ہوا کہ موسم گرمی کا تھا اور گرمیوں میں اکثر متمول اونچی ذات کے لوگ پہاڑ پر تفریح کے لئیے چلے جایا کرتے ہیں – چنانچہ جب فریدون بادشاہ کا تختہ الٹنے دارالحکومت کی جانب چلا تو اس کے ساتھ لاکھوں کے لشکر کے بجائے چند ہزار عالی نسب ہی آسکے – پھر بھی اس نے ہمت نہ ہاری اور محل سرا کے باہر پہنچ کر ساز و آہنگ کا ایسا بازار گرم کیا کہ کوئی اور ہوتا تو خود ہی تنگ آکر تخت و تاج فریدون کے حوالے کر جنگل کی راہ لیتا – لیکن بادشاہ بھی اپنے نام کا ایک ہی ڈھیٹ تھا – اس کی بس ایک وہی رٹ کہ میرے ساتھ عوام کی اکثریت ہے، میں اقتدار کیوں چھوڑوں- اسے بہتیرا دھمکایا کہ میاں ، علامہ صاحب بھی فرما گئے ہیں کہ بندوں کو تولنا چاہئیے گننا نہیں لیکن اس نے مان کر نہ دیا- تنگ آکر فریدون بادل نخواستہ دل شکستہ ہو کر گھر کو لوٹ گیا

کچھ عرصہ گزرا تو فریدون نے سوچا کہ بادشاہ کے ان کم عقل اور غبی حامیوں کو سمجھانے کی کوشش کی جائے، شاید کہ ان کی سمجھ میں عقل کی بات آجائے – چنانچہ وہ مملکت کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تعلیمی دورے کرنے لگا – لوگوں میں جاتا، انہیں سمجھاتا کہ دیکھو بادشاہ کتنا ظالم ہے- جس ملک میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے تھے وہاں اس بادشاہ کے آنے کے بعد ظلم و ستم کا بازار گرم ہو گیا ہے- تم لوگ جو سونےاور ہیرے جواہرات کے منقش برتنوں میں کھاتے پیتے تھے، اب مٹی کے ٹوٹے پھوٹے ظروف استعمال کرتے ہو کیونکہ تمہاری ساری دولت تو بادشاہ نے لوٹ لی ہے – یہ گفتگو کچھ اس لجاجت سے کی جاتی کہ لوگوں کا دل اس پر یقین کرنے کو چاہنے لگتا، لیکن جوں ہی وہ فریدون اور اس کے ساتھیوں کی جانب غور سے دیکھتے تو ایسی ایسی باتیں یاد آتیں کہ بے ساختہ ان کی ہنسی چھوٹ جاتی- اس گستاخی پر فریدون اور دیگر باشعور لوگ آگ بگولہ ہو کر ان ناہنجاروں کو بے نقط سنانے لگتے۔

تنگ آ کر فریدون ان ذہنی غلاموں کی اصلاح سے مایوس ہو گیا – اگر ان کی قسمت میں بادشاہ اور اس کی اولاد کی غلامی ہی لکھی ہے تو یوں ہی سہی- لیکن ملک کے معزز لوگ کیوں ایسی غلامی کریں؟ یہی سوچ کر اس نے ایک بار پھر دار الحکومت پر یلغار کا فیصلہ کر کے نعرہء مستانہ بلند کیا کہ بادشاہ تخت چھوڑ دے کیونکہ اس نے ملک کی دولت لوٹ کر چھپا دی ہے – ادھر بادشاہ تھا کہ بدستور بات ماننے سے انکاری، کہے جاۓ کہ قاضی سے فیصلہ کروا لو کہ میں گناہگار ہوں یا بیگناہ- اب فریدون ایسے لمبے چوڑے قضیے میں کیوں پڑتا، اول تو قاضی بھی بادشاہ کے زیر اثر ہو سکتا ہے، نہ بھی ہو تو عدالتی کاموں میں اہلکار وقت ضائع کرنے کے لئیے گواہ ثبوت وغیرہ کے لمبے جھنجھٹ میں ڈال دیتے ہیں- اب اتنا وقت کس کے پاس ہے – انہی چکروں میں تو فریدون کے بال سفید ہو گئے ہیں- مزید انتظار کرنا پڑا تو کیا تخت پر اس وقت بیٹھے گا جب “منہ میں دانت، نہ پیٹ میں آنت” ہو گی ؟

یہی ذہن میں رکھتے ہوئے فریدون نے اپنے تمام چاہنے والوں کو ہمرکابی کا حکم دیا تاکہ یہ لشکر جرار جب پایہء تخت تک پہنچے تو اس کی ہیبت سے گھبرا کر تخت نشیں خود ہی بھاگ نکلے- لیکن وائے افسوس، جب فریدون محل سرائے کی فصیل تک پہنچا اور پیچھے نگاہ دوڑائی تو کیا دیکھتا ہے کہ لشکر جرار کے بجائے مصاحبین کی بس اک چھوٹی سی ٹولی ہمراہ ہے- پتہ چلا کہ باقی سب لوگ گھر بیٹھے ٹیلی ویژن پر کرکٹ کا میچ دیکھ رہے ہیں- اب اتنی سی ٹولی تخت گرانے اور تاج اچھالنے کا کام تو کر نہیں سکتی تھی، مقتدرین میں بھی ایسے اصحاب نظر نہ آئے جو انگلیوں سے اشارے کرنے کا ہنر جانتے ہوں- ناچار اور دلگرفتہ، اس ہزیمت پر فریدون نے جشن فتح کا اعلان کرتے ہوئے پسپائی اختیار کر لی – وجہ اس جشن کی یہ بتلائی کہ قاضی کی وہ عدالت جسے چند دن پہلے تک ہم پر کاہ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہ تھے ، اب بادشاہ پر ترس کھاتے ہوئے ہم نے اسی قاضی کو ثالث بنانا قبول کر لیا ہے لہٰذا اسے ہماری عظیم الشان فتح سمجھا جانا چاہئیے – لیکن ساتھ ساتھ فریدون اپنا وہی پرانا مطالبہ شدومد سے دہرائے جا رہا ہے کہ قاضی کا فیصلہ تو بعد میں آتا رہے گا، لیکن پہلے بادشاہ تخت چھوڑ کر رخصت تو ہو۔

تو صاحبو، فریدون اور اس کے پڑھے لکھے، باشعور حواری بے تاب ہیں تاکہ اس جاہل ذہنی غلام اکثریت کے غلط فیصلے کو اپنے پاؤں کی ٹھوکروں سے اڑا کر بادشاہ کو اقتدار سے رخصت کردیں- لیکن دوسری طرف یہ حال ہے کہ کارپردازان شہر ان کے جذبے کا احترام کرتے ہوئے ان کا ساتھ دینے کے بجائے راہ میں روڑے اٹکا رہے ہیں اور بادشاہ ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا

اب آپ ہی بتائیے، یہ بادشاہ آخر رخصت کیوں نہیں ہوتا ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ: یہ تحریر تاریخی واقعات کے پس منظر میں لکھی گئی ہے، موجودہ سیاسی حالات سے کسی بھی قسم کی مماثلت قطعی ارادی اور مکمل طور پر غیر اتفاقیہ ہو گی

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply