• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی معاشرہ شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔علی اختر/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستانی معاشرہ شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔علی اختر/مقابلہ مضمون نویسی

پاکستان  1947 میں دنیا کے خطے پر نمودار ہوا۔ یہ ملک برصغیر میں موجود مسلمانوں کی جدوجہد کانتیجہ تھا جو اپنے حقوق اور اسلامی تشخص کو محفوظ کرنے کے لیے ایک الگ ملک چاہتے تھے اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔ گو اس خطے کے مسلمانوں کا دین سے گہرا تعلق رہا ہے لیکن پھر بھی اگر ہم اس دور کی مسلم قیادت کو دیکھیں تو ہمیں سوٹڈ بوٹڈ انگریزی بولنے والے ماڈرن مسلمان نظر آئیں گے اور اگر خالص مذہبی لیڈرز کو بھی دیکھیں تومولانا مدنی و مولانا مودودی جیسے بلند فکر لوگ ہی نظر آئیں گے لیکن ہم ستر سال گزرنے کے بعد اسی خطے پر نظر ڈالیں تو ایک ہجوم نظر سے گزرے گا جسکے لبوں پر کفر کے فتوے اور ہاتھوں میں آتشیں اسلحہ دکھائی دیگا۔ جو مکالمہ کو نہیں خود کش دھماکوں کو اختلاف کا حل سمجھتا ہے۔ جو محض نظریہ کے اختلاف پر کسی بھی انسان کو قتل کرنا بالکل جائز و قابل فخر کارنامہ سمجھتا ہے۔ جو قاتل کو شہید کا درجہ دیتا ہے۔ جن کے نام نہاد اکابرین منبر سے امن کے بجائے گالیوں کا پیغام دیتے ہیں ۔ یہاں میں واضح کردوں کہ صرف مذہبی ہی نہیں نسلی و علاقائی بنیادوں پر بھی انتہا پسندی و شدت پسندی اپنے عروج پر ہے ۔ یہ سب کیسے ہوا ۔ اس منظر کو تبدیل کرنے کا ذمہ دار کون ہے ۔ اور کس طرح ان سب پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں ہم ان نکات کا مختصر تجزیہ کریں گے۔

شدت پسندی عدم برداشت کی تاریخی وجوہات پر بحث کرنے سے پہلے ہم شدت پسندی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیتے ہیں۔
1 ۔ مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی
2- نسلی، علاقائی  بنیادوں پر شدت پسندی
3 -طبقاتی بنیادوں پر شدت پسندی

1: مذہبی بنیادوں پر شدت پسندی کی تاریخی وجوہات

کسی بھی ملک کی ترقی، خوشحالی اور تباہی میں بھی قیادت مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں ہمیں ہمیشہ پلاننگ سے عاری، کٹھ پتلی اور قومی مفاد پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے والے حکمران ملے۔ فوجی حکومتوں کو تو چلیے کہا جا سکتا ہے کہ  کسی کو جوابدہ نہیں ہوتے لیکن ہماری جمہوری حکومتوں نے بھی اس ضمن میں کوئی زیادہ قابلیت کا مظاہرہ نہیں کیا۔

اس لفظ مذہبی شدت پسند کی ابتدا افغان وار سے ہوتی ہے جب ہمارے اس وقت کے اتحادی امریکہ کے اشارے پر ہم نے ملک میں جگہ جگہ ٹریننگ کیمپ بنائے اور نو جوانوں کو جنگ کی آگ میں جھونکنا شروع کر دیا۔ اب ان لڑنے والوں کو تنخواہ تو دینا نہ تھی سو نام نہاد مذہب کے ٹھیکے داروں   کو کچھ فائدہ دے کر ساتھ ملایا گیا اور مذہبی انتہا پسندی کے نظریات ان لڑنے والوں کے ذہنوں میں ڈالے گئے۔ جب مُلا کو سب کچھ کہنے کی آزادی ملی تو اس نے فرقہ واریت کو بھی بڑھ  چڑھ  کر ہوا دی۔

جواب میں دوسرے فرقوں کے مُلا بھی میدان میں آگئے اور خاطر خواہ جواب دیا گیا۔ شیعہ سنی ، دیوبندی بریلوی اچانک ایک دوسرے کو کافر ، مشرک اور گستاخ کہنا شروع ہو گئے۔ سپاہ صحابہ و سپاہ محمد جیسی تنظیمیں وجود میں آئیں ۔ ایک دوسرے کا جنازہ پڑھنے پر ایمان کے ضائع ہونے اور نکاح ٹوٹ جانے کے فتوے مارکیٹ میں بلند ہوئے۔

افغان جہاد ، جس کا پودا ہم نے خود بویا بڑھتے بڑھتے اپنے ساتھ فرقہ واریت کی طفیلی بیل بھی پر وان چڑھا تا چلا گیا اور جہاں وہ طالبان و کشمیری مجاہدین کی صورت میں تناور درخت بن کر کھڑا ہوا وہاں اسکا ہر ہر گوشہ سپاہ صحابہ، سپاہ محمد و لشکر جھنگوی جیسی تنظیموں سے ڈھکا ہوا تھا۔

ہم خاموش رہے کیونکہ خاموشی ہی میں ہمارا مفاد تھا۔ ہماری نا عاقبت اندیش قیادت یہ سمجھنے سے عاری نظر آئی کہ یہ چنگاری شعلہ بن کر ہمارے امن و امان کو، قومی بھائی  چارے کو جلا ڈالے گی۔ ہمیں یہ خیال نہ آیا کہ  مسجدوں میں نمازی و معتکف بھی اس طوفان کی زد میں آجائیں گے اور اگر مذہبی یا سیاسی طبقات میں کسی دانش ور کو یہ اندازہ تھا بھی تو مصلحت آڑے آگئی اور وہ شدت پسندی کی طاقت کے سامنے سر جھکائے خاموش کھڑا رہا۔ جب گھر والے خود ہی گھر کو جلانے پر تلے ہیں تو باہر والے کیوں پیچھے رہتے۔ برادر اسلامی ممالک بھی میدان میں کود پڑے اور اپنے اپنے حامی مکتب فکر کے مدارس و ملاؤں کو فنڈنگ کر کے اپنی شیعہ سنی جنگ پاکستان میں لڑنا شروع ہو گئے۔

امریکہ تو اپنا مفاد پورا کرکے چلتا بنا لیکن ہم نے اس پر بھی بس نہ کی اور اپنی بندوقوں کا رخ کشمیر کی جانب کر دیا ۔ پھر 1996 میں طالبان تخلیق ہوئے اور افغانستان ہمارا پانچواں صوبہ بن گیا۔ افغان جنگ سے 9/11 تک وہ سب انتہا پسند ہماری طاقت تھےاور ہم اپنے دشمنوں کو انکے بل بوتے پر آنکھیں دکھایا کرتے تھے۔

اب آپ نا عاقبت اندیشی ملاحظہ فرمائیں۔ آپ خود ایک ایسی جماعت تخلیق کرتے ہیں جو فنون حرب سے آشنا ہے۔ کلاشن کوف سے لے کر اسٹرینگر مزائل تک چلانا جانتی ہے۔ کیونکہ آپ کو انہیں مفت میں لڑوانا تھا سوانہیں شہادت و جنت کا نظریہ بھی دیتے ہیں۔ یہ باور کراتے ہیں کہ  تم ہی صحیح اور باقی جہان کافر ہے۔ یہی نہیں دو نسلیں جنگ میں گزرواکر سونے کو کندن بنا دیتے ہیں اور پھر ایک فون پر آپ کی توپوں کا رخ تبدیل ہوتا ہے۔ کل کے مجاہدین آج کے دہشت گرد بنتے ہیں۔ آپ  کی اپنی ہی ٹریننگ، ہتھیاروں اور نظریہ جہاد آپ ہی کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔

اس ساری کار گزاری پر ہمیں کیا ملتا ہے ۔ اندرون خانہ ہمیں اے پی ایس ، جی ایچ کیو، سوات و وزیرستان ملتے ہیں، یوم عاشورو چرچ حملے ملتے ہیں اور بیرونی محاذ پر ، کراس بارڈر ٹیررازم کا ذمہ دار ، دہشت گردوں کی فیکٹری، افغانوں کی نفرت اور سب سے بڑے پارٹنر کی جانب سے ڈبل گیم پلیئر کے القابات ۔ ہاں اس سارے پراسس میں ہم نے جو چیز بہت بڑی تعداد میں حاصل کی وہ فرقہ واریت و انتہا پسندی تھی جو آج بھی رنگ دکھا رہی ہے۔

ہمارے یہاں ایک رواج ہے کہ  ہم پہلے زہریلے پودے کو درخت بنتا دیکھتے ہیں۔ آنکھیں بند کیے انتظار کرتے ہیں کہ  کب وہ پھل دینے لگے اور جب وہ پھل دینے کے قابل ہوجاتا ہے تو روتے ہیں کہ” ہائے یہ کیا ہو گیا” ۔

انتہا پسندی کا سب سے پہلے الزام دیوبندی فرقہ پر لگایا جاتا ہے جبکہ غور طلب بات یہ ہے کے پاکستان سے زیادہ دیوبندی انڈیا میں بستے ہیں اور وہاں بلکل پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔ اکابر و کتب ایک ہیں تو کیا وجہ ہے کہ کچھ ہی فاصلہ پر وہی سب کچھ ماننے والے انتہا پسند بن جائیں ۔ اور اب تو بریلوی افراد بھی میدان میں آگئے ہیں۔ جسے چاہا گستاخ کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔

مُلا کے بے مہار ہونے کی ایک اور وجہ ریاست کی کمزوری ہے۔ ہماری کوئی پالیسی نہیں کہ  انتہا پسندی کے گھوڑے کو لگام ڈالی جائے اور دوسری جانب انتہا پسندوں کو بھی یہ معلوم ہے کہ کمزور ریاست ایک دھرنے پر گھٹنے ٹیک دیتی ہے سو وہ بھی شیر ہو جاتے ہیں۔

اب کوئی  منبر پر بیٹھ کر گالم گلوچ کرے، ہیلی کاپٹر پر چپل اچھالے، ججز و اداروں کو مغلظات بکے یا مخالف فرقوں کے خلاف جلوس میں کفر کے فتوے لگائے ۔ ریاست ایک سہمے ہوئے بچے کا کردار ادا کرتی ہے جو ابو کے غصے کے ڈر سے چارپائی کے نیچے چھپا ہوتا ہے۔

2: لسانی و علاقائی  بنیادوں پر شدت پسندی :

شدت پسندی کا دوسرا بڑا فیکٹر لسانی یا علاقائی  بنیادوں پر ہے۔ آج سندھ، بلوچستان، کے پی کے اور اب کسی حد تک پنجاب بھی اس فیکٹر سے خالی نہیں ہے۔ اب ہم اس قسم کی شدت پسندی کی بھی چند وجوہات کو ڈسکس کریں گے۔

اس خطے میں لسانی بنیادوں پر تقسیم کسی حد تک پہلے ہی موجود تھی لیکن اس تقسیم کو مکالمہ سے آگے تشدد تک لیجانے کا سہرا بھی ہماری ریاست کی پالیسی اور پھر سیاست دانوں کی اپنے فائدے کے لیے قوم کو نفرت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کو جاتا ہے۔

درج ذیل میں ہم تاریخی کیس اسٹڈی کے طور پر سندھ کی صورت حال پیش کرتے ہیں۔

ہم صرف سندھ کی صورت حال کو دیکھیں تو اردو اور سندھی بولنے والوں کی تقسیم اور فرق اس وقت سے ہی شروع ہو جاتا ہے جب پاکستان بننے کے نتیجے میں مہاجرین کی بہت بڑی تعداد نے سندھ میں سکونت اختیار کی ۔ ان کی اکثریت پڑھے لکھے اور ہنر مند لوگوں پر مشتمل تھی ۔ بہت جلد یہ لوگ محنت اور ہنر  مندی و تعلیم کی بدولت سندھ کے بڑے شہروں خاص کر کراچی انکے ہاتھوں میں چلا گیا جو کہ  پورے پاکستان کا بزنس حب ہے ۔ اب لازمی بات ہے کہ  سندھی بولنے والی اکثریت احساس محرومی کا شکار ہوئی  اور قومیت کی بنیادوں پر تقسیم کی ابتدا ہوئی ۔ اس تقسیم کا سب سے زیادہ شکار سندھ کے چھوٹے شہروں میں رہنے والے اردو سپیکنگ ہوئے اور تعلیمی اداروں اور سرکاری نوکریوں کے دروازے  ان پر بند کیے جانے لگے۔

میرے ایک سینئر جن کا بچپن خیر پور میں گزرا بتاتے ہیں کہ  باوجود اس کے کہ وہ سندھی میں بات کر سکتے تھے۔ خیر پور کے مقامی انہیں مکڑ اور پنجابی کہہ کر مخاطب کرتے اور تعلیمی اداروں میں داخلہ دینے والے سر کی ساخت دیکھ کر پہچان لیتے کہ  تم تو مکڑ ہو اور داخلہ نہ دیتے ۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں قومیت کی بنیادوں پر مختلف تنظیموں کے اسٹالز لگے ہوتے اور اردو اسپیکنگ لوگ اس وقت جماعت اسلامی کے شیلٹر تلے پناہ تلاش کرتے ۔ ان واقعات کی کوکھ سے ایم کیو ایم نامی تنظیم کا جنم ہوا جو اردو بولنے والوں کی نمائندہ تنظیم کے طور پر سامنے  آئی ۔

اب تک تو سب معمول کے مطابق ہو رہا تھا اور یہ تنظیم قومی و صوبائی اسمبلیوں سے اپنے حقوق کی جدوجہد کر رہی تھی لیکن پھر اچانک منظر تبدیل ہوتا ہے ۔ سانحہ پکا قلعہ، کراچی آپریشن، ماورائے عدالت پولیس مقابلے شروع ہوتے ہیں اور جواب میں بوری بند لاشیں، چندے کے  نام پر بھتے اور آخر کار سانحہ بلدیہ فیکٹری  بھگتنا پڑتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک سیاسی تنظیم جسکی اکثریت پڑھے لکھے نو جوانوں پر مشتمل تھی کچھ سال بعد ہی تشدد کے راستے پر کیسے آ گئی ۔ جن کے آباؤ اجداد علی گڑھ یونیورسٹی کے پڑھے لکھے لوگ تھے انکی اگلی نسلیں دہشت گرد، را کے ایجنٹ اور بھتہ خور کیسے ہو گئے۔ کیا اس سارے معاملے کو ہم بیرونی ایجنڈا کہہ کر اپنا فرض پورا کر دیں گے یا کچھ ہوش کے ناخن بھی لینگے ۔

اب آپ “ایم آر ڈی” تحریک دیکھ لیں ۔ جسے داڑہیل فیکٹر میں بدل دیا گیا یا اکبر بگٹی کا قتل دیکھ لیں ۔ آپ مسنگ پرسنز کا معاملہ دیکھ لیں یا حکیم اللہ محسود کی ہلاکت ۔ آپ کو ہر جگہ اپنے ہی لوگ پر امن تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں میں بدلتے اور مکالمہ کے جگہ ہاتھوں میں کلاشن کوف لینے پر مجبور کرتے نظر آئیں گے۔

3:طبقاتی بنیادوں پر شدت پسندی
افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ  ہمارا معاشرہ صدیوں سے بد ترین حد تک طبقاتی بنیادوں میں بٹا ہوا ہے۔ یہاں امیر۔۔ امیر  تر ہوتا چلا گیا اور غریب بھوکوں مرنے پر مجبور ہے۔

جب ایک مزدور پورا مہینہ محنت کر کے بھی 16200 روپے کما  پاتا ہے اور اپنے بچوں کی تعلیم و علاج تو کجا دودھ کا خرچ بھی پورا نہیں کر پاتا۔ جب ایک تعلیم یافتہ نو جوان نوکری کے لیے سڑکوں پر جوتے گھستا ہے اور کسی وزیر کی سفارش پر کسی نا اہل رشوت خور کو عیاشی کرتے دیکھتا ہے ۔ جب ایک طالب علم عدالت میں اپنے ستر سالہ استاد کو ہتھکڑی پہنے اور راؤ انوار کو بدمعاش کی طرح سینہ چوڑا کرتے عدالت کے احاطے میں دیکھتا ہے۔ جب ایک غریب سول ہسپتال میں اپنی ماں کو ڈاکٹر نہ ہونے کے باعث بے بسی سے مرتے اور اسی شہر میں  آغاخان ہسپتال کی عمارت دیکھتا ہے۔

تو پھر وہ قوم وجود میں آتی ہے جسے ذہنی دباؤ اور ٹینشن رلیز کرنے کے لیے اپنی ہی املاک کو آگ لگاتی ہے۔ مایوسی، نا امیدی، غربت، ناانصافی ہمارے معاشرے میں اس قدر بڑھ گئی  ہے کہ  لوگ خودکشی تک  پر مجبور ہو گئے ہیں۔ عدم برداشت اتنی زیادہ ہے کہ  ماں باپ آپسی لڑائی  کی سزا اپنی اولاد کو قتل کر کے دیتے ہیں ۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ  یہ طبقاتی تقسیم دن بدن کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے ۔ ابھی کل ہی کی خبر ہے کہ ایک رکشہ ڈرائیور نے ٹریفک پولیس اہلکار کے پچاس روپے رشوت طلب کرنے پر خود کو آگ لگا لی ۔ اب اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔

اس ساری شدت پسندی جس کا آج ہم سامنا کر رہے ہیں کو ہماری رگوں میں سرائیت کرنے میں کم و بیش چالیس سال لگے تو ایسی کوئی  جادو کی چھڑی نہیں کہ  ہم اچانک ہی ان سب مشکلات سے باہر نکل آئیں ۔ ہاں کچھ بنیادی اقدام کرنے پر ہم اس صورت حال سے بتدریج باہر آسکتے ہیں۔

ذیل میں کچھ کچھ بنیادی تجاویز لکھی جا رہی ہیں جو میری ناقص رائے میں کارگر ہو سکتی ہیں ۔

1: اس ضمن میں سب سے پہلا کام قانون سازی ہے اور محض قانون سازی نہیں اسکامخلصانہ نفاذ بھی ہے۔ قانون بنایا جائے کہ  مساجد و مدارس ریاست کی ملکیت ہونگے اور اسکے پیش امام، مؤذن و اساتذہ حکومتی ملازم، وعظ و نصاب ریاست کا مقرر کردہ ہوگا اور کوئی  بھی اپنی طرف سے کچھ اضافہ و ترمیم نہیں کرسکے گا نیز نئے مساجد و مدارس بھی حکومت ہی کی مرضی و ضرورت کو پیش نظر رکھ کر بنائے جائیں گے۔
2: عدل و انصاف کا معیار بہتر بنایا جائے۔ لوگوں کا عدالتی سسٹم پر اعتماد بحال کیا جائے۔ ماورائے عدالت ہلاکتیں اور مسنگ پرسنز کے بجائے لوگوں کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور چاہے کتنا ہی بڑا دہشت گرد یا قاتل کیوں نہ ہو لیگل پراسس کے تحت اسے سزا دی جائے۔
3: لسانی تقسیم کو ختم کرنے کے لئے ملک کو قومیت کی نہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پر مزید یونٹس میں تقسیم کیا جائے اور حکومتی محکموں خصوصاًًً  پولیس میں مقامی لوگوں ہی کو نوکریاں دی جائیں ۔
4: ریاست اپنے رویہ سے منافقت کا خاتمہ کرے اور شدت پسندی ختم کرنے کی مخلصانہ کوشش کرے ناکہ کل کے جمہوری لوگ آج جناح پور کے بانی ہوں اور آ ج بیسٹ میئر کا خطاب پانے والے کل را کے ایجنٹ ہو جائیں ۔ یعنی جب ضرورت ہو محب وطن اور قومی دھارے میں اور جب ضرورت پوری ہو جائے ملک دشمن ۔ یہ جان لیں کہ  آج کا میڈیا لوگوں کو اتنا ہوشیار کر چکا ہے کہ  آپ کی یہ حرکتیں خود آپ ہی کا مذاق بنانے کی وجہ بن جاتی ہیں سو اب سدھر جائیں۔
5: حکومتی معاملات سے اسٹیبلشمنٹ کا کردار ختم کیا جائے اور یہ کام جمہوری لوگوں کے باشعور ہونے سے ہی ممکن ہے ۔ افسوس کہ  وہ آج بھی اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے آلہ کار بن جاتے ہیں لیکن انہیں سمجھ لینا چاہیے کہ روایت کے مطابق کام پورا ہونے کے بعد انہیں ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جائے گا ۔ سو بجائے اقتدار کے ٹریو ڈیموکریسی کی جدوجہد کریں۔
6: شدت پسندی کا جو نظریہ کئی دہائیوں تک لوگوں کے ذہنوں میں ڈالا گیا بجائے طاقت کے٫ متبادل نظریہ کے فروغ کے ذریعے ذہن سازی کریں ۔ اس ضمن میں اساتذہ، میڈیا، علماء کرام اپنا کردار ادا کریں۔ (یہاں علمائے کرام  سے مراد فکری و علمی ذہن رکھنے والے علما ہیں نا کہ  لڈن جعفری و گردے کی پتھری وغیرہ کے واقعات سنانے والے مُلا) ۔

Advertisements
julia rana solicitors

حرف آخر : یہاں میں عوام سے خاص کر نو جوانوں سے اپیل کرونگا کہ  باشعور بنیں ، بجائے لوگوں کی نظر سےدیکھنے کے خود کی نگاہ سے معاملات کو دیکھیں۔ ملکی تاریخ  کا مطالعہ کریں۔ دیکھیں کہ  وہ کونسے کردار ہیں جو روپ بدل کر بار بار ملک کو تباہی سے دوچار کرتے ہیں۔ مہذب معاشروں اور ممالک کے حالات کا تجزیہ کریں ۔ اپنے حقوق کے حصول کی پر امن جدوجہد کریں اور پر تشدد  کارروائیوں سے بچیں اگر کوئی مجبور کرتا بھی ہے تو خود پر قابو رکھیں کیونکہ شدت پسندی سے صرف تباہی کے کچھ حاصل نہیں ہوا تو اب کیا ہوگا۔

Facebook Comments

علی اختر
جو دیکھتا ہوں وہی بولنے کا عادی ہوں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 4 تبصرے برائے تحریر ”پاکستانی معاشرہ شدت پسندی و عدم برداشت کی تاریخی وجوہات اور انکا تدارک۔۔۔علی اختر/مقابلہ مضمون نویسی

  1. سر بہت دیر ہوچکی ہے اب ان انتہا پسندوں کا ایک ہی حل ہے کہ ان کو لائن میں کھڑا کرکے گولی مار دی جائے اور ملک کو اس گند سے پاک کردیا جائے

  2. اچھی طرح سے تیار. لیکن کچھ اور چیزوں پر تبادلہ خیال ہونا چاہئے.

    پہلی تعلیم تعلیمی اداروں کو یہ مواد لازمی ہے جو ہماری ثقافتوں اور تاریخ، قبولیت اور رواداری سے متعلق نوجوانوں کو روشن کرے.

    دوسرا، اداروں کی احتساب. نہ صرف سیاست دان بلکہ عدلیہ اور ڈیٹیکٹر خود کو آزمائشی کے تحت بھی رکھنا چاہئے، جو ہمارے ملک میں ناممکن لگتا ہے.

    تیسری عدالتی اداروں کو مقدمات کو حل کرنے کا ٹائم لائن مقرر کیا جانا چاہئے، اس وقت موجودہ نظام کی طرح نہیں ہونا چاہئے جس میں والد اپنی جائیداد کے لئے ایک سوٹ فائلیں لگاتے ہیں اور ان کے پوتے کو 30 سال کے بعد عدالت سے فیصلہ ملتا ہے. “جسٹس کو مسترد کر دیا جسٹس رد کردیا”.

    جی ہاں، مذہبی اداروں کے لئے فریم ورک تیار کیا جانا چاہئے، تاکہ کسی بھی گنجائش اور فریم ورک کے باہر سے باہر کام کرنے کے عمل کو فوری طور پر لے جایا جائے.

  3. مضمون میں بہت حد تک وجوہات اور عوامل سب بیان کئیے گئے ہیں مگر ان کاموں کے لئے دکار وقت کا کوئی خاص تذکرہ موجود نہیں۔ ویسے یہ کام ناممکن نہیں مگر ایک طویل مدتی مشکل منصوبے کے تحت ہو سکتا ہے جس کی ابتدا اخلاص، انصاف اور حب الوطنی سے ھوگی پھر تعلیم کے ذریعے سے نئی نسل کی سوچ کو بدلا جائے گا پھر عوام کی فلاح اور سہولت پر زور دیا جائے گا پھر قومی خوشحالی اور تمدن پر کام ھوگا پھر مضبوط قانون سازی کی جائےگی غرضیکہ ایک نئی قوم نئی سوچ کے ساتھ جنم لے گی ایک پورا قرن جس میں ایک نسل تمام ہوگی اور ایک نئی نسل اس کی جگہ لے گی۔ اس میں سب سے اہم کردار ہم لوگوں کا ہی ہے اگر ہم خود کو نہیں بدلنا چاھتے تو ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی نہیں بدل سکتے۔ ابتدا کس نے کرنی ہے یہ سب جانتے ہیں۔
    خودی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
    خدا بندے سےخود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔

Leave a Reply