کینسر (28) ۔ مرض کی شخصیت؟/وہاراامباکر

تھامس ہوجکن پیرس کے میوزیم میں “مّردوں کے انسپکٹر” تھے۔ ان کا کام مر جانے والوں کے سیمپل اکٹھے کرنا تھا۔ کچھ برسوں میں انہوں نے سینکڑوں مردوں سے ٹشو لے کر فارملین کے مرتبانوں میں ڈالے تھے۔ لیکن ان کا جینئس ان کو منظم کرنا تھا۔ انہوں نے اس کا اپنا ہی طریقہ نکالا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہوجکن نے 1832 میں اعلان کیا کہ انہوں نے کئی لاشوں میں، جن میں اکثریت نوجوانوں کی تھی، ایک عجیب بیماری دیکھی ہے۔ اس میں لمف گلینڈ پھولے ہوتے ہیں۔ اگر کسی کی گہری نظر نہ ہوتی تو اس کو نظرانداز کر دیتا یا پھر تپدق یا آتشک کی علامت قرار دیتا۔ لیکن ہوجکن اس کے قائل تھے کہ انہوں نے بالکل نئی بیماری دریافت کی ہے۔ انہوں نے اس پر اپنا پیپر پیش کیا۔
اس پیپر کو سننے والے صرف آٹھ لوگ تھے۔ ایک نئی بیماری کے بارے میں بتانا، جب کہ نہ ہی علاج اور نہ ہی دیکھ بھال کا ذکر کرنا، کسی کے لئے زیادہ دلچسپ نہیں تھا۔ میوزیم کی انتظامیہ سے ہونے والے جھگڑے کے بعد انہوں نے 1837 میں ملازمت چھوڑ دی۔ جبکہ 1844 میں وہ سائنس سے الگ ہو گئے۔
ان کی وفات کے تیس سال بعد آسٹریا کے پیتھولوجسٹ کارل سٹرنبرگ نے 1898 میں خوردبین سے ایک مریض کے گلینڈ کو دیکھا تو عجیب سے خلیے نظر آئے۔ “ان کے نیوکلئیس ایسے تھے جیسے الو کی آنکھ مجھے گھور رہی ہو”۔ ہوجکن کی دریافت شدہ بیماری کی وجہ سے الو جیسی آنکھوں والے یہ خلیات کینسرزدہ تھے۔ ہوجکن کی بیماری لمف گلینڈ کا کینسر تھا۔ یہ لمفوما کی قسم تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوجکن احتیاط سے مشاہدات کرنے کی اہمیت کو وہ خود بھی نہیں سمجھ پائے تھے۔ اکیلے کی گئی سٹڈی میں انہوں نے اس کی خاصیتیں دریافت کی تھیں۔ ہوجکن کی بیماری کی عجیب خاصیت ہے کہ یہ لمف نوڈ کو ایک ایک کر کے نشانہ بناتی ہے۔ اور دوسرے کینسروں کے مقابلے میں اس کا بڑھنا زیادہ طریقے سے ہوتا ہے۔ پھیھڑوں کا کینسر بے ترتیب طریقے سے بڑھتا ہے، پھیپھڑے کی ایک نوڈیول سے غیرمتوقع طور پر دماغ میں جگہ بنا سکتا ہے۔ پِتے کا کینسر جگر اور ہڈوں میں کینسرزدہ خلیات کو بھیج دیتا ہے جبکہ ہوجکن ان سے مختلف ہے۔ ایک خاص ترتیب اور رفتار سے، ایک نوڈ اور پھر اگلی، ایک گلینڈ اور پھر اگلا، ایک علاقہ اور پھر اگلا۔
ہوجکن کا مقامی طور پر اس طرح بڑھنا کینسر کی تاریخ میں منفرد ہے۔ ہوجکن بیماری کینسر اور سسٹمک کینسر کے درمیان کی سرحد پر پایا جانے والا عارضہ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہیری کیپلان 1950 کی دہائی میں سٹینفورڈ میں ریڈیولوجی کے پروفیسر تھے۔ انہوں نے ایکسرے کے مدد سے جانوروں میں لیوکیمیا میں ایکسرے سے علاج کے تجربات کئے تھے۔ ان کی دلچسپی پھیپھڑوں، چھاتی اور لمفوما کے ریڈی ایشن کی مدد سے علاج کی طرف تھی۔ انہوں نے 1953 میں فزسسٹ اور انجینرز کی ٹیم کو قائل کیا کہ ہسپتال کے لئے لینئیر ایکسلریٹر بنایا جائے۔ اس سے نکلنے والے ایکسرے انتہائی طاقتور ہوتی ہیں جو ٹشو کے خلیوں کو جلا کر مار سکتی ہیں۔ تین سال بعد سان فرانسسکو میں یہ تیار تھا اور ان کا نشانہ ہوجکن کی بیماری تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیپلان نے تجربات ڈیزائن کئے۔ یہ تجربات کی سٹڈی میں ایک کلاسک سمجھے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے نصف مریضوں کو طویل اور نصف کو محدود ریڈی ایشن دی گئی۔ زندہ رہنے کا ڈیٹا بنایا گیا۔ نتیجہ واضح تھا۔ طویل ریڈی ایشن ہوجکن کی واپسی کا ریٹ بہت کم کر دیتی ہے۔
کیپلان اس سے آگے بڑھے۔ مریضوں کے کینسر کی شناخت کر کے انہیں کلاسیفائی کیا۔ وہ، جنہیں صرف مقامی لمف نوڈ پر بیماری تھی، انہیں الگ کیا گیا۔ سٹیج کا تعین کرنے کے لئے طویل ٹیسٹ کئے گئے۔ ہڈی کے گودے کی بائیوپسی۔ خون کے ٹیسٹ، لمفانجیوگرافی اور کلینکل ٹیسٹ۔
ریڈی ایشن کی ڈوز میں بہت اضافہ کیا گیا۔ نتائج بہتر تھے۔ اور سروائیول درجنوں مہینوں تک بڑھ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیپلان نے اونکولوجی کا ایک اصول سمجھ لیا تھا۔
کینسر کا ایک علاج نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ایک بیماری نہیں۔ اس کی دوا کو بیماری کے مطابق ہونا ہے۔ ابتدائی سٹیج کا اور مقامی کینسر میٹاسٹیٹک کینسر سے بہت مختلف ہے۔ اگر سو کیس ہوں تو یہ سو الگ بیماریاں ہیں اگرچہ ان کی شناخت ایک ہی بیماری کے طور پر کی جاتی ہے۔ کینسر اپنا مزاج رکھتا ہے، اپنی شخصیت رکھتا ہے۔ اپنا رویہ دکھاتا ہے۔ بائیولوجی کے منفرد ہونے کا مطلب علاج کا منفرد ہونا بھی ہے۔ ہر علاج ہر کسی پر کام نہیں کرے گا۔
اونکولوجی میں اس خیال کی قبولیت میں چند دہائیاں لگیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply