کسے آواز دوں؟۔۔۔۔۔انیسہ کنول

امریلا ایک معصوم غریب لڑکی تھی. جس نے ایک غریب گھرانے میں آنکھ کھولی. اسکی کی خوشیاں اسکے ماں باپ کی رضا اور خوشی کے گرد گھومتی تھیں. اسکی کی کوئی خواہش اسکے غریب باپ کے کندھوں پر بوجھ نہ ڈالتی. اسکو نہ مہنگے موبائل کی آرزو تھی نہ لیپ ٹاپ و آئی پیڈ کا شوق تھا. وہ اپنے چھوٹے سے اسکول میں دیکھتی کہ لڑکیاں مختلف نت نئے فیشن کرتیں، مہنگے موبائل لاتیں  اور اپنے دوستوں کو دکھاتیں . لیکن وہ یہ بھی جانتی تھیں  کہ میری یہ خواہشیں اپنے اندر ہی دفن ہوجائیں تو بہتر ہے. چونکہ میرےابا ایک مزدور شخص ہیں  جو سارا دن اپنے کاندھوں پر محنت مزدوری کا بوجھ اٹھاتے  ہیں . اس بوجھ سے جو دو سو روپے کماتا ہیں . وہ ہماری روٹی اور فیس کی نظر ہوجاتا ہے. میں ان خواہشوں کو ظاہر کرکے اپنے باپ کے کاندھوں پر مزید بوجھ نہیں ڈال سکتی.
چونکہ اسکے ابا   اسکی خواہشوں کو پورا کرنے میں دن رات مصروف عمل رہتے  اور رات کو بھی وہ چین کی نیند سونے کے بجائے کچے مکان کو پکا بنانے میں گزار دیتے تھے ۔

اس کا  میٹرک کا امتحان قریب تھا. اسے اب امتحان میں اچھی پوزیشن حاصل کرکے ماں باپ کا دل جیتنا تھا. اس نے انتھک محنت کی اور اپنی ماں سے دعا کی درخواست کی. وہ کہتے ہیں کہ محنت کا پھل ایک دن ضرور ملتا ہے. محنت کسی کی رائیگاں نہیں جاتی.
اب وہ دن بھی آہی گیا. جس کا اسے انتظار تھا. جسے دیکھ وہ بے انتہا خوش تھی. ایک طرف اسے  تعلیم جاری رکھنے کی خؤشی تھی تو   دوسری جانب وہ ایک ایسے معاشرے میں جی رہی تھی. جہاں لڑکیوں کو زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا جاتا ہے.
معاشرتی المیہ یہ بھی تھا کہ ادھر لڑکی بالغ ہوئی ادھر اسکے ہاتھ پیلے کردیئے جاتے ہیں. امریلا کے ماں باپ کی خواہش تھی کہ وہ جلد از جلد اپنی بیٹی کو رخصت کریں تاکہ وہ اپنی زندگی ہی میں اپنی بیٹی کا اچھا نصیب دیکھ سکیں .

خاندانی روایات کے مطابق اسکی خالہ نے اسکے والد سے اپنے بیٹے کے لیے رشتہ مانگ رکھا تھا. یہ بات طے ہوئی تھی کہ میٹرک ہوتے ہی رشتہ دے دیا جائے گا.
امریلا کے ابا   بھی یہ سوچ رہے تھے  کہ ابھی تو ان کی بیٹی نے پڑھنا ہے میں اسےکیسے بیاہ دوں . مگر دوسری جانب ان  کی غربت   بیٹی کو مزید پڑھانے کی اجازت نہیں دے رہی تھی.
کچھ دن بعد اسکی خالہ مبارکباد دینے آئی.  امریلا کے  گھر کی اوپر والی منزل کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی. اس نے دل میں سوچ رکھا تھا کہ یہ منزل بنے گی تو اسکو کرایہ پر دینے سے جو کرایہ ملے گا.  اسکی فیس اس سے ادا ہوجائے گی. مگر جب  خالہ نے اسکے والد سے اس کے رشتے کی بات کی تو یہ سن کر اسے بے حد افسوس ہوا کہ اسکے والد نے اسکا رشتہ جلد از جلد دینے کی حامی بھرلی.
امریلا  نے اسوقت اپنے والد کے چہرے کے تاثرات کو بھانپ لیا تھا. انکے چہرے کے تاثرات بتارہے تھے کہ انہوں نے بڑی مشکل میں یہ فیصلہ کیا. امریلا کھڑکی  میں  کھڑی  ان سب باتوں کو سن رہی تھی. اسی دوران ابا نے اسے  آواز دی  کہ خالہ کے لیے کچھ کھانے کو لے آؤ. وہ سن کھڑی تھی. والدہ نے آکر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو وہ چونکی اور آنکھیں صاف  کرنے لگی۔۔
تمہارے ابا جان تمہیں کافی دیر سے آواز دے رہے ہیں. تم سن کیوں نہیں رہی. وہ چپ چاپ وہاں سے چلی گئی.
کچھ دن بعد شادی  کی شہنائی ہر سمت گونج اٹھی.امریلا کی شادی تھی. اسے رخصت ہونا تھا. چند ہی لمحوں میں وہ گھر سے رخصت ہونے والی تھی. برسوں جن کے ساتھ گزرے ان سے جدائی کا وقت تھا. وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اسکا  پڑھائی کا خواب کبھی  شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے گا.

Advertisements
julia rana solicitors london

شادی کے بعد اسے پتہ لگا کہ اسکا شوہر    نشہ کرتا ہے. جب اسکے پاس نشے کے پیسے ختم ہوجاتے تو وہ اسے کہتا کہ اپنے ماں باپ سے پیسے مانگو. وہ مرتی کیا  نہ  کرتی، کئی جھوٹے بہانوں کا سہارا لیکر وہ اپنے ماں باپ سے پیسے لیکر اپنے شوہر کو دیتی. اگر وہ ایسا نہ کرتی تو اسکا شوہر اس پر بری طرح تشدد کرتا.
ایک دن اسکے شوہر نے اس سے   بڑی رقم کا مطالبہ کیا. جسے پورا کرنا اسکے لیے ناممکن تھا. پیسے نہ ملنے پر اس نے امریلا کو خؤب مارا پیٹا اور   گھر سے نکال دیا. اسکے بچے اس سے چھین لیے گئے اور اسے طلاق بھی دے دی. اسکی زندگی کے پے درپے  صدمات نے اسکا ذہنی توازن  بگاڑ  دیا. اب وہ گلیوں میں پاگلوں کی طرح گھومتی پھرتی اور کہتی کہ “میں کسے آواز دوں.

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply