میں نہ تو زیادہ پڑھا ہوں اور نہ ہی زیادہ لکھا ہوں، اس لئے تحریر میں کسی بھی کمی بیشی کی صورت میں مجھے مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے اور تمام تر خامیوں کا سہرا انعام رانا کے سر کہ ان سے جیلس ہو کر (آپ جیلس کی جگہ متاثر بھی پڑھ سکتے ہیں) میں نے اپنے طور لکھنے کی سعی کی ہے۔
اب آتے ہیں موضوع کی طرف جب سے ہوش سنبھالا ہے، حقوق نسواں کے علاوہ کوئی بھی ایسی تحریک نہیں دیکھی یا سنی جس میں تسلسل ہو اور حقوق مرداں پہ بات کرنے پہ تو ویسے پابندی ہے چہ جائیکہ اس کے لئے تحریک چلائی جائے۔ ایک مشہور نعرہ ہمیشہ پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے کہ جہیز ایک لعنت ہے اور اس نعرے میں بھی عورت کی معصومیت اور بے بسی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے اور مرد کو لالچی اور خود غرض ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے (یہ میری اپنی منطق ہے) مگر حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ واضح رہے اس تحریر کا تعلق پنجاب کی ثقافت سے ہے، باقی حضرات اپنے علاقائی ثقافت کےتناظر میں اس تحریر کو پڑھ سکتے ہیں۔ اگر پنجاب میں شادی کی رسومات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے کہ شادی نہ صرف لڑکی والوں کے لئے مشکل بنا دی گئی ہے بلکہ لڑکے والوں کو اس سے دگنا اخراجات اور “نخراجات” اٹھانے پڑتے ہیں۔ اپنی بات کو واضح کرنے کے لئے ایک واقعہ بطور مثال پیش خدمت ہے۔
میرے ایک دوست کی شادی کی بات چلی، دونوں طرف سے وفود کے تبادلہ کے بعد بات طے ہو گئی۔ اب دونوں اطراف کے بڑے بزرگوں نے معاملات طے کرنے کے لئے بیٹھک کی تو لڑکی والوں کی طرف سے جو مطالبات آئے، مختصر ذکر کئے دیتا ہوں کہ لڑکے کی طرف سے کم از کم پانچ تولہ سونا لڑکی کو بطور تحفہ دینا ہو گا جو کہ لڑکی کی ملکیت ہو گا اس کے علاوہ لڑکے والے لڑکی کے لئے ملبوسات کی خریداری کے لئے رقم ہماری مٹھی میں دے دیں تاکہ لڑکی اپنی مرضی سے اپنے لئے ملبوسات خرید سکے۔ اس رسم کو ہماری علاقائی زبان میں وری کہتے ہیں یہ انگریزی زبان worryکے ہم پلہ نہیں تو اس سے وزن کے اعتبار سے بھاری ضرور ہے(لغت میں دیکھنے سے نہیں محسوس کرنے سے)۔
اب آتے ہیں لڑکے کی شرائط کی طرف تو ان کا کہنا تھا کہ مجھے شادی سنت نبوی کے مطابق کرنی ہے اور مجھے جہیز کا لالچ بالکل بھی نہیں ہے مگر لڑکی والوں کے مطالبات سننے کے بعد لڑکے والوں نے انکار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ تحریر کی طوالت کے باعث آخری سوال کہ اگر جہیز لعنت ہے تو لڑکی والوں کے مطالبات بمعہ احسان کیا ہیں؟ تمام لکھاریوں سے گزارش ہے اس معاملےپر روشنی ڈالی جائے نیز تحریر کے الفاظ پر جانے کے بجائے معاملے کے حل کی طرف راہنمائی کی جائے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں