ریاست کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔آصف محمود

حکومت تو بروئے کار آ چکی ، سوال اب یہ ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ وہ ریاست جسے آئین نے باب دوم میں مخاطب بنایا ہے اور اس پر عوام کی فلاح کے لیے کچھ فرائض ادا کیے ہیں۔ ریاست اور حکومت دو الگ اور مختلف تصورات ہیں۔ ریاست اور چیز ہے اور حکومت اور چیز۔لیکن دستور پاکستان باب دوم کے آرٹیکل 7 میں کہا گیا ہے کہ جہاں ریاست کو عوام کے حقوق کاتحفظ کرنے کا پابند کیا ہے وہاں وفاقی حکومت ، پارلیمان، صوبائی حکومتیں ، صوبائی اسمبلی اور مقامی اتھارٹیز کو ریاست سمجھا جائے گا۔گویا عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ وہ واحد چیز ہے جہاں حکومت ہی کو ریاست قرار دے دیا گیا ہے ۔ اب جس حکومت نے عوام کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے باب دوم کے تحت ریاست کا کردار ادا کرنا تھا ، وہی حکومت اپنے ہی عوام کے گھر گرانے پر تلی بیٹھی ہے ۔ عوام بے بسی سے سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ حکومت ہے تو ریاست کہاں ہے اور یہ ریاست ہے تو حکومت کہاں ہے۔ ناجائز تجاوزات کے خلاف مہم کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس نے لوگوں کے اعصاب چٹخا دیے ہیں۔ وہ گونگا شخص جو ریاست پر بوجھ بننے کی بجائے رزق حلال کی جستجو میں گنے کی جوس کی ریڑھی لگائے کھڑا تھا اہلکاروںنے اس گونگے شخص کو بھی نہیں چھوڑا۔ اسلام آباد ملک کا دارالحکومت ہے۔ دور دراز سے لوگ یہاں آ کر آباد ہوتے ہیں۔ یہاں آکر وہ ساری جمع پونجی اور گھر میں پڑے زیورات خرچ کر کے مکان بنانے کے لیے پلاٹ خریدتے ہیں۔ جگہ جگہ ہائوسنگ کالونیاں بن چکی ہیں۔ لوگ آتے ہیں اور یہ خیال انہیں دامن گیر ہوتا ہے کہ کہیں دھوکہ نہ ہو جائے۔ وہ موقع پر پلاٹ دیکھتے ہیں ، فرد لیتے ہیں اور پٹواری سے رابطہ کرتے ہیں ، وہ کہتا ہے یہ درست ہے۔چنانچہ ساری تسلی کر کے وہ اسے خرید لیتے ہیں۔ ریاستی اداروں کے سامنے باقاعدہ کارروائی ہوتی ہے ۔ پوچھا جاتا ہے آپ نے قبضہ لے لیا آپ کہتے ہیں لے لیا ۔ دوسرے فریق سے سوال ہوتا ہے آپ نے پیسے لے لیے وہ بھی کہتا ہے لے لیے، چنانچہ ضروری دفتری کارروائی کے بعد رجسٹری آپ کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اب آپ پھر پٹواری کے پاس جاتے ہیں وہ اس کا انتقال درج کرتا ہے اور آپ اس زمین کے مالک بن جاتے ہیں۔ اب اس پر تعمیر کا مرحلہ آتا ہے۔ گھر بنانا آسان نہیں ۔ رگِ جاں پر آپ ڈھانچہ کھڑا کرتے ہیں۔ پھر ایک روز آپ کو معلوم ہوتا ہے یہ جس جگہ پر آپ کا پلاٹ ہے جو جگہ تو نالے کی ہے۔ یہاں سے اتنے فٹ نالا تھا اور آپ کا پلاٹ تو نالے کے اندر ہے۔آپ گھر سے باہر نکل کر دیکھتے ہیں ، مشینیں آئی کھڑی ہیں کہ آپ کا گھر گرا دیا جائے۔ آپ گھر کو دیکھتے ہیں ، گھر کے کاغذات کو دیکھتے ہیں ، ان پر لگی سرکاری مہریں دیکھتے ہیں ۔آپ یہ دستاویزات اٹھاتے ہیں اور حکومتی اہلکاروں کے پاس جاتے ہیں کہ دیکھیے میں نے تو یہ جائیداد پیسے دے کر خریدی، لیکن آپ کی شنوائی نہیں ہوتی۔ جن اہلکاروں نے ملی بھگت کے ساتھ یہ سب کیا ہوتا ہے وہ مسکراہٹ بکھیر کر کہتے ہیں آپ کا گھر ناجائز ہے وہ تو گرے گا جس نے آپ کے ساتھ فراڈ کیا اس کے خلاف آپ کا دل کر رہا ہے تو جا کر مقدمہ کر دیجیے۔ سوال اب یہ ہے کہ ریاست ، حکومت اور اس کے اداروں کا کیا یہ کام نہیں کہ جہاں لوگوں کے گھر گرا رہے ہیں وہیں ان سے بھی سوال پوچھیں جنہوں نے لوگوں کے ان گھروں کی دستاویزات تیار کیں؟ کیا ریاست کا کام صرف یہ ہے کہ پہلے تماشا دیکھتی رہے اور لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہوتا رہے ۔ ایک دفعہ بھی آ کر کوئی نہ روکے کہ یہ تعمیرات غلط ہو رہی ہیں۔ اور جب تعمیرات ہو جائیں تو آ کر گرا دے کہ یہ تو ناجائز ہیں؟کیا ریاست کے لیے لازم نہیں کہ وہ ایک مکمل فارمولا لے کر آئے اور جن کے گھر گرائے جا رہے ہیں ان کے نقصان کا ازالہ کرایا جائے ؟غریب کا گھر گرانا ہو تو ریاست بروئے کار آئے اور غریب کے ساتھ دھوکہ کرنے والے گروہ کی بات آئے تو ریاست لاتعلق ہو جائے، کیا یہ انصاف پر مبنی رویہ ہو گا؟ آرٹیکل 24کے تحت لوگوں کے مالکانہ حقوق کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ان مالکانہ حقوق کے ساتھ اگر اس طرح کا کھیل کھیلا جاتا رہا تو اسے روکنا ریاست کے آئینی فرائض میں شامل ہے اور متاثرین کی داد رسی بھی ۔ سرکاری زمینوں پر ناجائز قابضین کا معاملہ الگ ہے لیکن اسلام آباد کے یہ لوگ ناجائز قابضین نہیں۔ کچھ اپنی جدی پشتی زمینوں پر بیٹھے ہیں اور کچھ کو سوسائٹیوں نے انہی سرکاری اہلکاروں کے ساتھ مل کر تمام قانونی تقاضے پورے کر کے زمینیں بیچ رکھی ہیں۔اب ان لوگوں کو اگر وہاں سے اٹھانا ہے تو حکومت کو ڈنڈے سے نہیں حکمت سے کام لینا چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کے نقصان کا ازالہ کیا جائے اور ازالے کا یہ معاملہ محض متاثرہ شخص پر نہ چھوڑ دیا جائے۔ یہ پورا کام اسی طرح حکومت خود کرے جس طرح وہ آپریشن کر رہی ہے۔آپریشن اس سارے معاملے کی انتہائی صورت حال ہے ۔ اس سے پہلے بہت سے اہم سوالات ہیں جنہیں دیکھ لیا جانا چاہیے۔ مثال کے طور پر نالوں کے پاس کسی کی ملکیتی زمین ہے تو اس کے ساتھ کیسا معاملہ کیا جائے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کسی نے وہاں شاملات پر گھر بنا رکھا ہے جیسے عمران خان کا اپنا گھر ہے تو اس کے ساتھ کیسے معاملہ کرنا ہے؟تیسرا سوال یہ ہے کہ گھر نہ ملکیتی زمین پر ہے نہ شاملات پر لیکن کسی سے زمین خریدی گئی ہے اور محکمے نے اس کا باقاعدہ اندراج ، رجسٹری اور انتقال کر دیا ایسے آدمی کے ساتھ کیسے معاملہ کیا جائے؟ اس سوال میں پھر مزید دو سوالات ہیں، ایک یہ کہ کسی متاثرہ شخص نے زمین کسی فرد سے خریدی تو معاملے سے کیسا نبٹا جائے اور اس نے یہ پلاٹ کسی سوسائٹی یا ٹائون میں خریدا تو اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے؟پھر یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ جن سرکاری اہلکاروں نے اس سارے معاملے میں عام آدمی کے ساتھ اجتماعی دھوکہ دہی کی ان کے ساتھ کیا کیا جائے؟ یہ وہ معاملات ہیں جن سے ریاست نہ پہلو تہی کر سکتی ہے نہ اسے کرنی چاہیے۔ اسد عمر ایم این اے اسلام آباد سے منتخب ہوئے لیکن ان کا تعلق چونکہ کراچی سے ہے ا س لیے مقامی لوگوں سے نہ ان کا اس طرح سے رابطہ ہے نہ وہ ان معاملات کو سمجھتے ہیں۔وزیر خزانہ بننے کے بعد فطری طور پر وہ عوام سے مزید دور ہو چکے۔تحریک انصاف کے نو منتخب ایم این اے علی اعوان مقامی آدمی ہیں اور حقائق سے واقف ہیں ۔ روزنامہ92 میں شائع ہونے والا ان کا بیان ذرا پڑھ لیجیے : ’’ سابق وفاقی وزیر طارق فضل چودھری نے مس گائیڈ کیا۔قصور لوگوں کا نہیں۔لوگوں نے تین ، پانچ اور سات مرلے زمین خریدی ، کسی نے اپنی بیوی کا زیور بیچا تو کسی نے قرض لیا ، ہم سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے ۔ متاثرین کو اکیلا نہیں چھوڑا جائے گا‘‘۔اس میں کیا کلام ہے کہ حکمت اور انصاف ہی بہترین طرز حکومت ہوتا ہے۔جب عمران خان کہتے ہیں کچی آبادی کا کوئی ایک گھر نہیں گرایا جائے گا تو یہ اصل میں حکمت کا اظہار ہے۔ تجاوزات کے اس سارے معاملے سے نبٹنے کے لیے ایسی ہی حکمت چاہیے۔ پس تحریر:سفر میں ہوں معلوم ہوا ہے کہ جناب چیف جسٹس نے سی ڈی اے کو لوگوں کے گھر گرانے سے روک دیا ہے۔ جناب چیف جسٹس کے لیے ڈھیروں دعائیں۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply