پنجابی مسافروں کے قاتل کون/ٹیپو بغلانی

جاتی ہوئی بس روک کر مسافروں سے شناختی کارڈ دکھانے کے لیے کہا گیا.

شناختی کارڈ دیکھنے کا مقصد پنجابی مسافروں کو اتار کر قتل کرنا تھا.
یہ نواب اکبر بگٹی کی برسی کا دن تھا.
یہ بگٹی کی پہلی برسی نہیں تھی
ایسی ڈیڑھ درجن برسیاں پہلے  بھی ہوئیں لیکن کسی قسم کا کوئی واقعہ ریکارڈ پر نہیں ہے۔

اس واقعہ سے کچھ دن پہلے اپنی یاداشت دہرائیں
تو گوادر میں بحوالہ گمشدہ افراد مہ رنگ بلوچ کا جلسہ منعقد ہوتا ہے
جلسے کو ناکام بنانے کے لیے ریاست راستے بلاک کرتی ہے
لوگوں کو روکتی ہے
حتی کہ ریاستی اداروں اور احتجاج کرنے والے شہریوں کے درمیان آتشیں جھڑپ بھی ہوئی اور ہلاکت بھی ریکارڈ میں درج ہے.
اس جلسے سے قبل نگاہ دوڑائیں تو مہ رنگ بلوچ نے بلوچستان سے پنجاب اور پنجاب سے کے پی کے میں داخل ہوتے ہوئے عوام کو اپنے حق میں لینے کی کوشش کی
سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں مہ رنگ بلوچ کو ساؤتھ پنجاب بالخصوص تونسہ شریف اور ڈیرہ اسماعیل خان میں اپنی بلوچ برادری سے بھرپور تائید حاصل ہوئی۔
ڈیرہ اسماعیل خان میں پشتون سیاسی فورمز نے بھی بڑھ چڑھ کر خوش آمدید کہا۔

مہ رنگ بلوچ کی آمد، استقبال اور مؤقف کی پذیرائی دیکھیں تو سوشل میڈیا نے انہیں ملک بھر سے عوامی حمایت حاصل کرتے ہوئے دکھایا۔
جس کا شکریہ مہ رنگ نے ہر شہر سے گزرتے ہوئے بھی ادا کیا اور کوئٹہ واپس پہنچ کر بھی کھلے دل سے عوام کی حمایت کو سراہا۔

ریاست اس ستائش کو نوٹس کر رہی تھی کہ عوام ایجنسی اور حکومتی پالیسیز کی توثیق نہیں کر رہی اور مہ رنگ کی حمایت کر رہے ہیں
گویا بالواسطہ طور پر حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار کر رہے ہیں۔

اب اہم ترین آزمائش یہ تھی کہ آخر کیسے ماضی کے مقبول ترین بیانیہ کو پھر سے بلوچوں کا تعارف بنایا جائے۔
جس کے تحت انہیں نہایت آسانی سے دہشت گردی میں ملوث گردانا جا سکتا تھا۔
برسی کے دن بلوچستان کی عوام نے ایک ریلوے پل کو گرایا
اس واقعہ کی کوریج سوشل میڈیا پر موجود ہے۔
اس دن الصبح یہ خبریں نشر ہو رہی تھیں کہ صوبہ بھر میں ٹریفک بند رہے گی۔
پھر اچانک قلعہ سیف اللہ اور موسیٰ خیل کے اضلاع سے قیامت خیز خبریں آنا شروع ہوئیں۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ(6)
ترجمہ:
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کرلو کہ کہیں کسی قوم کوانجانے میں تکلیف نہ دے بیٹھو پھر اپنے کئے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
سورہ – الحجرات – آیت 6

بس میں سے شناختی کارڈ جمع ہوئے، مسافر اترے ان مسافروں میں ایک مسافر دکی بلوچستان سے تھا
6 مسافر کے پی کے سے تھے
باقی 17 مسافر ساؤتھ پنجاب کے تھے اور 01 مسافر سینٹرل پنجاب پاکپتن شریف سے تھا.
اپر پنجاب کا ایک بھی مسافر کسی بھی واقعہ میں متاثر نہیں ہوا۔

آئیے ہم مختلف زاویہ ء نگاہ سے شواہد کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ مسافر کس نے شہید کیے۔

سرکاری ٹی وی پر فوراً ہی خبر چلی کہ ان حملوں کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی نے قبول کی ہے۔
کیا یہ ذمہ داری بی ایل اے نے ریاستی اداروں کو فون کال کے ذریعے قبول کی؟
ٹویٹ یا فیس بک پر پوسٹ کر کے کی؟
اپنی آفیشل ویب سائٹ پر انہوں نے اعتراف کیا؟
واٹس ایپ میسیج یا ایس ایم ایس یا انٹرنیٹ پر ویڈیو پیغام کے ذریعے یہ ذمہ داری قبول کی گئی؟

دوسرا اہم سوال
بی ایل اے کے ہیرو نواب اکبر بگٹی کو قتل پرویز مشرف کے حکم پر کیا گیا
پرویز مشرف اردو سپیکنگ تھے اور کراچی – سندھ سے تھے۔
پاک فوج کے سربراہ صرف پنجاب سے نہیں لیے جاتے
سندھ اور کے پی کے سے بھی اختیار چیف آف آرمی سٹاف تعینات رہے۔
لہذا یہ حملہ مسافروں پر کس لاجک کے تحت کیا گیا؟

اب مسافروں کے ڈومیسائل دیکھیں تو یہ سب ان علاقوں کے لوگ ہیں،جو خود اپر پنجاب سے علیحدہ صوبہ بنانے کے  مطالبات میں مسلسل جدوجہد کر رہے ہیں۔
بی ایل اے خود ساؤتھ پنجاب کو محروم علاقہ تصور کرتی ہے
اور اپنے مؤقف کی تائید کرنے والی عوام کے طور پر دیکھتی ہے
ساؤتھ کے لوگ خود ہر لحاظ سے اپر پنجاب سے کٹے ہوئے ہیں۔

ان کی ثقافت، فکر اور فلسفہ کسی طور لاہور سے ہم آہنگ نہیں
بی ایل اے کیسے ان لوگوں کو مار سکتی ہے جو ایک تو ان کے ہم خیال ہوں دوسرا خود مظلوم ہوں۔
تیسرا ان مسافروں کی ہلاکت لاہور کو خاص فکر میں مبتلا کرنے سے قاصر ہے۔
ایک اور نکتہ اسی باب میں بڑا چیخ رہا ہے۔
بی ایل اے کس طرح سے دکی-بلوچستان کے شہری کو قتل کر سکتی ہے۔
وہ اپنے ہی ایک بڑے شہر کو اپنے خلاف کیوں کھڑا کرے گی؟

ایک اور اہم نکتہ
بی ایل اے نے 6 پشتون مسافر کیسے قتل کیے؟
کیا وہ کے پی کے کو بھی اپنے خلاف اکسانا چاہے گی؟

اور سب سے اہم نکتہ
جب شناختی کارڈ ہی مانگے جا رہے ہیں تو اس طرح سے تو فقط پنجابی مسافروں کو قتل ہونا چاہیے
لیکن یہاں تو ساری بس ہی قتل ہوئی۔
شناختی کارڈز پھر کس مقصد کے لیے جمع ہوئے تھے؟
سب کے سب مسافر شہید ہوئے لیکن
کیوں؟
اس لیے کہ پشتون اور دکی کے مسافروں نے قاتلوں کو پہچان لیا تھا
اب ان عینی شاہدین کو کیسے چھوڑا جا سکتا تھا
لہذا قاتل کا منصوبہ بری طرح ناکام ہوا اور بہت سے شکوک و شبہات کے ساتھ یہ واقعہ اپنے ذمہ دار وں کا تعین کرنے میں منقسم ہو گیا.
بی ایل اے نے بعد میں الزام کی تردید کر دی، مہ رنگ بلوچ نے آ کر مذمت کر دی
ان دو اقدام سے معاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
بے قصور لوگوں پر فردِ جرم عائد کر کے اصلی قاتل کہیں بچ تو نہیں گیا؟

ہمیں یاد کرنا چاہیے کہ کلبھوشن یادوو بھی ایرانی پاسپورٹ پر بلوچستان کی سرزمین سے گرفتار ہوا تھا
کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ہندوستانی ایجنٹس نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہوں؟
صوبوں کو ایک دوسرے کا مخالف کر دیا ہو؟
عوام کو مہ رنگ سے دور کر دیا ہو؟
عوام کو فوج سے بددل کر دیا ہو؟
سیاسی تنازعات اپنی جگہ پر خوب ہوا پکڑ رہے ہیں

اس واقعہ سے نہ صرف امن و امان کی کوششوں کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ گوادر میں اومان پاکستان اور چین کے باہمی تعاون سے تیار ہونے والا عالمی معیار کا ائیر پورٹ بھی اپنے افتتاح اور آپریشن کرنے کے مواقع سے ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔
یہ نقصان پاکستان اور چائنا کا باہمی نقصان ہے۔

کچھ ماہ قبل چلاس میں زیرِ تعمیر ڈیم اور بجلی گھر پر کام کرنے والے چینی ماہرین کو بے دردی سے قتل کر کے چین کو ہراساں کرنے کی کوشش کی گئی۔
امریکی پارلیمان اس وقت مسلسل ایسے منصوبے بنا کر خطے میں چین کے اثر کو کم کرنے کے لیے ہندوستان سے تعاون بڑھانے پر سنجیدہ نظر آ رہی ہے۔
چینی ماہرین کے قتل میں امریکی ایجنسی کو شک سے باہر نہیں کیا جا سکتا

اس سے قبل لاہور میں کرکٹ کے لیے آنے والے سری لنکن کھلاڑیوں پر ہندوستانی ایجنٹس نے حملہ کر کے پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کر دیا تھا۔
پاکستان اس بحران سے آج بھی باہر نہیں نکل پایا۔

اس وقت ایک محدود طبقہ اپنے ریڈی میڈ بیانیہ سے سنگین واقعات کو مہ رنگ اور بی ایل اے سے جوڑ کر ملک میں خونریزی اور سول وار کی سازشیں رچا رہا ہے۔
کہیں کہیں مجھے وہ کامیاب ہوتے بھی دکھائی دے رہے ہیں
ثبوتوں کے بغیر ریاستی عہدیداروں کی طرف سے قبل از وقت کی گئی قیاس آرائیاں ملکی استحکام پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی نظر آتی ہیں۔
خدانخواستہ یہ فلسفہ مقبول ہوا تو ملک استحکام کھو سکتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس وقت ملکی مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر کسی ایک فریق کی جانب سے بھی ہندوستان کے متعلق ہونے سے متعلق تشویش کا اظہار نہیں ہوا۔
نہ ہی امریکی ایجنسیز کی طرف کسی کا دھیان جا رہا ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ ملکی سلامتی کی صورتحال کا ازسرِ نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply