• صفحہ اول
  • /
  • سائنس
  • /
  • ریاضی کے شروعاتی دور کا ایک اجمالی تعارف۔۔۔۔عمر رضا

ریاضی کے شروعاتی دور کا ایک اجمالی تعارف۔۔۔۔عمر رضا

آج کا عراق یعنی قدیم زمانے کی سمیرین تہذیب دنیا کی سب سے پہلی تہذیب تھی۔اس تہذیب کا اوریجن پری ہسٹری میں جا ملتا ہے۔ اس کی تاریخ ساڑھے پانچ ہزار سال قبل از مسیح تک پرانی ہے۔ تہذیب کا مطلب جہاں انسان بڑے شہروں اور عمارتوں کو تعمیر کر کے وہاں رہ سکیں اور مذہب،سیاست،ادب،سائنس اور رسم و رواج کو جنم دے سکیں۔

انسانی تاریخ میں ریاضی کے استعمال کاعلم جو ابھی تک ہمیں پہنچا ہےوہ سمیرین ،میسوپوٹامین اور بیبلونین تہذیبوں کی صورت میں پہنچا ہے۔بیبلونین تہذیب کی جڑیں5500سال قبل از مسیح پرانی سمیرین تہذیب میں ملتی ہیں۔سمیرین کون لوگ تھے اور کہاں سے آ کر  یہاں آباد ہوئے اس بارے میں کوئی حتمی معلومات موجود نہیں ہیں۔ 5500 سال قبل کچھ لوگ سمر آئے اور انہوں نے ایک چھوٹا سا شہر آباد کیا جسے اریڈنو کہا جاتا تھا۔یہ لوگ ابیدین کہلاتے تھے۔
سمیرین تہذیب نے سب سے پہلےسائنس ،قانون ، اور ریاضی کو ڈویلپ کیا۔سمیرین ہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سب سے پہلے شہر کی بنیاد رکھی۔

یہ شہر دو دریاؤں  دجلہ  اور فرات کے درمیان واقع تھا جنہیں انگلش میں یوفریٹس اور ٹائگریس کہا جاتا ہے-سمیرین تہذیب ایک طرح سے پوری انسانی تاریخ میں وہ پہلی کوشش کا نتیجہ تھی جس نے انسانوں کو اکٹھا کر کے ایک مربوط نظام کے تحت رہنے کا پابند کیا۔ اس کا دارلحکومت “ارک” تھا۔یہ وہ تہذیب تھی جہاں تاریخ کا سب سے پہلا ایک سیاسی معاشرہ قائم ہوا اور جہاں تاریخ کا سب سے پہلا آرٹ ڈویلپ ہوا جہاں تاریخ کا سب سے پہلا ادب قائم ہوا۔دنیا کا سب سے پہلا نقشہ یہاں بنایا گیا۔ٹائر کی ایجاد اسی شہر میں ہوئی “ار ک”ایک کافی بڑے شہر میں تبدیل ہوتا گیا کیونکہ دور دراز سے لوگ یہاں تجارت کی غرض سے آتے تھے اور یہاں رہائش پزیر ہوتے گئے۔گلگامیش جو “ارک” کا بادشاہ تھا اس نے پورے شہر کو چاروں طرف سے بڑی دیواریں تعمیر کر کے دوسرے لوگوں کے حملوں سے بچنے کے لیے محفوظ کیا ۔ان دیواروں کی لمبائی چھ میل سے بھی زیادہ تھی۔آج سے ساڑھے چارہزار سال پہلے چھ میل لمبا شہر جو تقریبا تیس ہزار کی آبادی پر مشتمل تھا تاریخ کے سب سے پہلے ٹرید سینٹر کی حیثیت رکھتا تھا ۔یہ شہر گلگامیش کے اپنے ظلم کی وجہ سے تباہ ہوا ۔اس شہر کو سترہویں صدی میں برطانیہ میں برپا ہونے والے صنعتی انقلاب کے تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے۔ان فگرز سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت کا یہ شہر ترقی اور ٹیکنالوجی کا ایک بے مثال نمونہ تھا۔یہ شہر چارہزار سال تک قائم رہا۔ جب عرب لوگ تیسری صدی عیسوی میں یہاں آ ئے تب تک یہ شہر برباد ہوچکا تھا۔اس تہذیب کی ترقی کا جتنا بھی علم ہم تک پہنچا ہے وہ سمیرین اور بیبلونین تہذیبوں کی رائٹنگز کی صورت میں پہنچا۔انہوں نے جو ریاضی ڈویلپ کی وہ مٹی کی گیلی تختیوں پر کی جاتی جو بعد میں سکھا کر محفوظ کر لی جاتیں۔تہذب کا پیدا ہونا ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو سمیرین تہذیب کو حاصل ہوا۔

یہاں ایک کنفیوژن اکثر پیدا ہوتی ہے کہ سمیرین بیبلونین اور میسوپوٹامین تہذیبوں میں کیا فرق ہے؟

اصل میں دنیا کی سب سے پہلی تہذیب سمیرین تہذیب ہی تھی جو ساڑھے پانچ ہزار سال قبل از مسیح شروع ہوئی تھی اور اس تہذیب کی بنیاد ابیدین لوگوں نے رکھی ۔
تقریبا 3800 سال پہلے اکاڈینز نے سمیرین تہذیب کو اپنے قبضے میں لیا اور ایک نئی تہذیب کی بنیاد رکھی جسے بیبلونیا کہا جاتا ہے۔بیبلونیا اکاڈین زبان کے لفظBabiliسے نکلا ہے جس کا مطلب ہے”خداؤں کا دروازہ” یعنیThe gates of gods بعد میں یونانیوں نے اس لفظ کو بیبلونیا میں تبدیل کیا۔عراق کا نام قدیم سمیرین شہر “ارک” سے نکلا ہے جسے عربوں نے بعد میں پورے خطے کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ۔سمر پہلی تہذیب تھی اور یہ نام اسے اکاڈینز نے دیا۔ اکاڈینز نے سمر پر قبضہ کر کے بیبولونین تہذیب کو جنم دیا۔
اس تہذیب کی پیدائش کے پانچ ہزار سال بعد جب یونانیوں نے یہاں قدم رکھا تو انہوں نے اس تہذیب کو میسوپوٹامین تہذیب کا نام دیا ۔میسو مطلب درمیان ا ور ٹامین مطلب دریاؤں۔یعنی دو دریاؤں کے درمیان زمین کا ٹکڑا ۔

سمیرین تہذیب کی خاص بات یہ تھی کہ سب سے پہلے بیج بو کر کاشتکاری کی گئی۔اس سے پہلے کے لوگ اپنی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر روز شکار کرتے تھے اور یہ سلسلہ لاکھوں سالوں پر پھیلا ہوا تھا۔جب کاشتکاری کا سلسلہ شروع ہوا تو کھیتوں کی پیمائش کے لیے ریاضی کی انسانی تاریخ میں پہلی بار فارمل معنوں میں ضرورت پڑی۔ ساڑھے چار ہزار سال قبل از مسیح جب لکھنے کا فن ایجاد ہوا تو ریاضی کی ترقی میں حیرت انگیز حد تک ڈویلپمنٹ ہوئی۔تاریخ کا سب سے پہلا پوزیشنل نمبر سسٹم ڈویلپ ہوا جو “بیس سکسٹی” نمبر سسٹم تھا جسے “سیکسا جیسمل نمبر سسٹم بھی کہتےہیں”۔اس نمبر سسٹم کی خاص بات یہ تھی کہ یہ سسٹم صرف دو سمبلز پر مشتمل تھا اور ان دو سمبلز کو استعمال کرتے ہوئے انہوں نے بیس سکسٹی نمبر سسٹم تشکیل دیا۔ ایک سے لے کر انسٹھ تک انہوں نے دو سمبلز کے ساتھ انسٹھ مختلف پیٹرنز کو استعمال کرتے ہوئے انسٹھ تک کی گنتی تشکیل دی۔لیکن نمبر ساٹھ پر کسی نئے پیٹرن کی بجائے انہوں نے وہی سمبل استعمال کیا جو سیکسا جیسمل سسٹم میں نمبر ایک کے لیے استعمال کرتے تھے۔اس نمبر سسٹم میں جو دو بنیادی مسائل تھے ان میں ایک یہ تھا کہ ایک نمبر کو وہ دو یا دو سے زیادہ مختلف ویلیوز کے لیے استعمال کرتے تھے۔1،60،600،3600،7200 کو ایک ہی سمبل سے لکھا جاتا۔ چونکہ اس سسٹم میں ایک مسلہ زیرو کے نا موجود ہونے کا تھا اس لیے انہوں نے نیکسٹ پلیس ویلیو کے لیے تھوڑی سپیس چھوڑ کر بائیں طرف موو کیا۔مختلف پلیس ویلیوز کے درمیان سپیس ہونے کی وجہ سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوتا کہ ایک نمبر کس پلیس ویلیو کو ظاہر کر رہا ہے۔نیکسٹ پلیس ویلیو ساٹھ کا ملٹی پل تھی اور اس سے اگلی پلیس ویلیو ساٹھ کے سکوئیر کا ملٹی پل تھی اور اس سے اگلی پلیس ویلیو ساٹھ کے کیوب کا ملٹی پل تھی اینڈ سو آن۔بلکل اسی طرح جیسے ڈیسی مل نمبر سسٹم میں نیکسٹ پلیس ویلیو کی طرف موو کرتے ہوئے ہم دس سے نمبر کو ضرب دیتے جاتے ہیں۔

بیبلون کی ریاضی کے متعلق ہمیں ابھی تک جو بھی علم پہنچا ہے وہ مٹی کی تختیوں کی صورت میں ہم تک پہنچا ہے۔ بیبلون کے لوگ مٹی کی تختیوں پر ریاضی کرتے تھے۔وہ گیلی نرم مٹی پر سٹائلس(پین کی طرح کا ایک آلہ جو آگے سے ترچھا ہوتا) کی مدد سے اپنی ریاضی کرتے اور بعد میں انہیں سکھانے کے لیے رکھ دیتے تا کہ یہ ریکارڈ محفوظ رہے۔ یہ تختیاں تقریبا 3500 سال قبل از مسیح تک پرانی ہیں۔ریاضی کی جڑیں انہیں تختیوں میں جا ملتی ہیں۔
ان تختیوں میں استعمال ہونے والی زبان اکاڈین ہے۔ بیبلون کی سب سے ترقی یافتہ ارتھمیٹک اکاڈین میں تھی۔

میسوپوٹامین تہذیب کی تاریخ 2000 قبل از مسیح سے 600 سال قبل مسیح تک پھیلی ہوئی تھی۔بیبلون سے دو قسم کی ریاضی کی تختیاں دریافت ہوئیں۔ٹیبل ٹیکسٹ جس میں کسی خاص مقصد کے لیے کوئی قیمتیں وغیرہ درج کی جاتی تھیں جیسے وزن کے ریکارڈز ملٹی پلیکیشن ٹیبل اور ریسی پروکل ٹیبلز وغیرہ۔
تختیوں کی دوسری قسم الجبریک اور جیومیٹری کے مسائل کو حل کرنے کے طریقوں پر مشتمل تھی۔کچھ تختیوں پر دو سو سے زیادہ مسائل پر لکھا گیا تھا۔تین سو سال قبل مسیح میں بیبلونین ریاضی کا ایک اور دور شروع ہوا جب دی گریٹ الیگزینڈر نے یہاں اپنے قدم جمائے۔ان تین سو سالوں کے وقفے میں ریاضی میں آسٹرونومی کے حوالے سے بہت بڑی ڈولپمینٹ ہوئی جو
Ptolemy کی Almagestکے پائے کی سمجھی جاتی ہے۔ المیگسٹ دوسری صدی میں یونانی زبان میں ستاروں کی حرکت اور سیاروں کے راستوں پر لکھی جانے والی ایک ریاضی کی کتاب ہے۔
کیونی فارم تختیوں کا استعمال کافی زیادہ تھا۔قوانین،ٹیکس اکاؤنٹس،کہانیاں،سکول کے اسباق،اور خطوط مٹی کی ان نرم تختیوں پر نکش کنندہ کیے جاتے جنہیں بعد میں دھوپ یا بھٹی میں سکھا کر محفوظ کر لیا جاتا۔”نپور” کے خطے میں ہی کم از کم 50000 ہزار کے قریب ایسی تختیاں دریافت ہوئیں تھیں۔یہ تختیاں 1600 سے 1800 سو سال قبل مسیح میں لکھی گئیں۔سب سے بڑی کولیکشن استنبول،فلے ڈیلفیا کے شہروں سے ہوئیں جن کی تعداد پانچ لاکھ کے قریب تھی۔


Cuneiform
تاریخ کے سب سے پہلے رائٹنگ سسٹمز میں شمار کی جاتی ہے جو سمیرین تہذیب کی ایجاد تھی۔ان سسٹمز میں جو سمبلز استعمال کیے
جاتے تھے ان کی شکل لکڑی کے اس کھونٹےسے ملتی تھی جو کسی جانور کو باندھنے کے لیے زمین میں گھڑا جاتا ہے۔
Cuneiformکا مطلب تیکھی صورت کے ہیں۔

بیبلون نیومرل بیس سکسٹی نمبر سسٹم پر ہی کیوں مشتمل تھا؟ اس حوالے سے کوئی حتمی معلومات تو حاصل نہیں ہیں لیکن کچھ تھیوریز اس حوالے سے پیش کی گئی ہیں ۔ اس وقت کے کیلنڈر کے مطابق ایک سال میں 360 دن ہوتے تھے اور یہ نمبر چونکہ ساٹھ کا ملٹی پل ہے یا ساٹھ اس کا فیکٹر ہے اس لیے انہوں نے بیس سکسٹی نمبر سسٹم استعمال کیا۔
ساٹھ ایک ایسا عدد ہے جو سب سے زیادہ فیکٹرز رکھتا ہے جو بارہ کے قریب ہیں۔اس لیے انہوں نے بیس سکسٹی نمبر سسٹم استعمال کیا۔ ساٹھ وہ سب سے چھوٹا عدد ہے جسے ایک سے چھ تک کے ہر عدد کے ساتھ تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
بیبلونین کے حساب سے ایک دن بارہ گھنٹے کا تھا۔ ان کے ایک گھنٹے میں بھی 60 منٹس ہوتے تھے۔لیکن ان کا ایک منٹ آج کے دو منٹ کے برابر تھا۔
اس وقت کی آسٹرونومی کے مطابق پانچ سیارے دریافت کیے جا چکے تھے اور ایک سال میں بارہ مہینے تھے۔ پانچ کو بارہ سے ضرب دی جائے تو ساٹھ آتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ایک دائرے میں 360 ڈگریز ہی کیوں ہیں؟ہماری زمین 365 دن میں ہی کیوں سورج کا ایک چکر مکمل کرتی ہےجو 360 ڈگریز کے قریب کا نمبر ہے؟ یہ ساٹھ اور اس کے ملٹی پلز کی آ ج کی ایپلیکیشنز سمیرین تہذیب سے ہی لی گئی ہیں۔
دی گریٹ زیگوریٹ ٹیمپل چاند کے دیوتا”نینا” کی پوجا کرنے کے لیے تعمیر کیا گیا۔’ہران’ اور’ زیگوریٹ’ کے ٹیمپل سے آسٹرونومی اور جیوڈیسیٹی کے علم کا ثبوت ملتا ہے جنہیں آج ہم سائنس کہتے ہیں۔زیگوریٹ کی چھاؤں میں میزو پوٹامین سکالرز نے اڈوانس ریاضی کو ڈویلپ کیااور فریکشنز کے تصورات کی بنیاد رکھی ۔ریسی پروکل کے موجودہ تصور میں وہ دو اعداد جنہیں ایک دوسرے سے ضرب دی جائے تو جواب ایک آئے۔لیکن بیبلونین ریاضی میں ریسی پروکل کا تصور مختلف تھا۔ان کے مطابق ہر وہ عدد ایک دوسرے کا ریسی پروکل ہے جو ساٹھ کا فیکٹر ہے ۔ 12 اور 5 دونوں ساٹھ کے فیکٹرز ہیں اس لیے یہ دونوں ایک دوسرے کی ریسی پروکلز ہیں۔
بیبلونینز نے لینئیر سسٹمز پر کام کیا۔وہ سکوئیر روٹس نکال سکتے تھے۔انہوں نے دو کا جو سکوئیر روٹ نکالا اس کی ویلیو آج کی ویلیو کے پانچ ڈیسی مل پلیسز تک درست تھی۔یعنی تقریبا وہی ویلیو جو آج ہم کیلکولیٹ کرتے ہیں۔انہوں نے کیوبک مساواتوں پربھی کام کیا۔

بیبلونین ریاضی سیکھنے کے لیے نیچے دو ویب سائٹس کا لنک دیا گیا ہے۔ دلچسپی رکھنے والے دوست ان لنکس کو وزٹ کر سکتے ہیں۔بیبلونین نمبر سسٹم کو مکمل طور پر سمجھنے کے لیے پوزیشنل نمبر سسٹم کے تصور پر گرفت ہونا ضروری ہے ورنہ بیبلونین ریاضی کو سمجھنا مشکل ہے۔سیکسا جیسمل نمبر سسٹم کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ڈیسی مل نمبرز کو بیبلونین نمبرز میں کنورٹ کرنے کی پریکٹس کی جائے بغیر آن لائن کنورٹر استعمال کیے۔ان لنکس میں ایک ویب سائٹ پہ جا کہ آن لائن ڈیسی مل نمبرز کو بیبلونین نمبرز میں کنورٹ کیا جا سکتا ہے تا کہ اپنے رزلٹس کا موازنہ ان نمبرز سے ہوسکے۔بیبلونین ریاضی کافی ایڈوانس ریاضی پر مشتمل ہے جسے ایک آرٹیکل میں بیان کرنا نا ممکن ہے۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انفرادی طور پر ریسرچ کرلی جائے۔
نوٹ: سمیرین ،بیبلونین اور میسوپوٹامین تہذیبیں ایک ہی خطے یعنی دجلہ اور فرات کے درمیان واقع تھیں۔ان تینوں ناموں میں فرق زبان اور تہذیبوں کے دورانیے کا ہے۔ ان تینوں تہذیبوں کے دورانیے کے حوالے سے کافی اختلاف ہے اس لیے اس آرٹیکل میں جو تاریخی معلومات ہیں ان تہذیبوں کے حوالے سے وہ حتمی نہیں ہیں اور غلطی کی کافی گنجائش موجود ہوسکتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

https://www.storyofmathematics.com/sumerian.html
https://www.dcode.fr/babylonian-numbers

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply