اصلی یا جعلی(2)۔۔وہاراامباکر

آئن سٹائن کے سامنے گریویٹی کی وضاحت کا مسئلہ تھا۔ نیوٹونین گریویٹی اور آئن سٹائن کی پیشکردہ تھیوری آف ریلیٹیوٹی میں آپس میں ایک پیراڈاکس تھا۔ عطارد کے مدار کا مشاہداتی ڈیٹا بھی اشارہ کر رہا تھا کہ نیوٹونین گریویٹی میں کچھ سقم ہے۔ آئن سٹائن نے اس پر جنرل تھیوری آف ریلیٹیویٹی پیش کی۔ یہ انتہائی زبردست طریقے سے یہ نہ صرف نیوٹن کے قوانین کے “کیوں” کا جواب دیتی تھی بلکہ ان مسائل کا بالکل ٹھیک ٹھیک جواب بھی دیتی تھی جو نظر آ رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سائنس کی خوبصورت ترین تھیوریوں میں سے سمجھی جاتی ہے۔
لیکن خوبصورتی سچ ہونے کے لئے کافی نہیں۔ یہ کیسے طے کیا جائے کہ یہ محض خوبصورت ہی ہے یا کسی گہرے سچ کی طرف اشارہ بھی کرتی ہے؟ اس کیلئے اس تھیوری کو محض پچھلے ڈیٹا کی وضاحت ہی نہیں بلکہ ایسی “نئی” پیشگوئی کرنا تھی جس کا مشاہدہ یہ تصدیق کر دے کہ یہ وضاحت کی طاقت رکھتی ہے۔
اگر یہ درست تھی تو ستاروں سے آنے والی روشنی کو سورج کے قریب کچھ خم کھانا چاہیے تھا۔ اور اتنا ہی جتنا اس تھیوری کی پیشگوئی تھی۔ یہ مشاہدہ صرف مکمل سورج گرہن میں کیا جا سکتا تھا۔ اور ایسا مشاہدہ ۱۹۱۹ کے سورج گرہن میں ہوا۔ اس تصدیق نے جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کو فزکس کا اہم ستون بنا دیا۔
اگر مشاہدہ اس تھیوری سے مطابقت نہ رکھتا تو تھیوری کا سر قلم ہو جاتا۔ واپس ہمیں نئے سرے سے گریویٹی کی وضاحت کیلئے تلاش کرنی پڑتی۔
خوبصورت تھیوری کی خوبصورت مشاہدے سے مطابقت نے ہمارے فہم میں جنرل تھیوری آف ریلیٹویٹی کا خوبصورت اضافہ کر دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وہ طریقہ تھا جس نے کارل پوپر کو بہت متاثر کیا۔ ایمپریکل مشاہدہ تھیوری کا سر قلم کر سکتا ہے۔ خیال کا منطقی ہونا، باربط ہونا، خوبصورت ہونا کافی نہیں۔ من پسند ہونا کافی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوپر کے تجزیے میں اس کے مقابلے میں مارکسسٹ ہسٹری اور فرائیڈ کا سائیکوانالیسس خیالات ہر چیز کچھ زیادہ ہی اچھی طرح وضاحت کر دیتے ہیں۔ کوئی بھی تاریخی واقعہ اٹھا لیں، مارکسزم طبقاتی کشمکش کی نگاہ سے وضاحت فوراً کر دیتا ہے۔ یہی معاملہ فرائیڈ کے ساتھ بھی ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں یہ دونوں تھیوریاں اس قدر زیادہ وسیع اور لچکدار ہیں کہ ہر مشاہدے کو اپنا لیتی ہیں۔ اگر کوئی تھیوری ہر شے کی وضاحت کر دے تو امکان ہے کہ وہ کسی بھی شے کی وضاحت نہیں کر رہی۔ پوپر نے کہا کہ فرائیڈ اور مارکس کی تھیوریاں غیرسائنسی ہیں کیونکہ کوئی بھی ایسا مشاہدہ، ایویڈنس، تجربہ ایسا تصور نہیں کیا جا سکتا جو ان کو جھٹلا دے۔ falsifiable ہونے کی کسوٹی ضروری ہے۔ یعنی کہ کوئی بھی ایسی آبزرویشن یا تجربہ جس کی بنیاد پر کہا جا سکے کہ یہ خیال غلط ہے۔
مثال کے طور پر، اگر میں دعویٰ کروں کہ کتوں کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں تو کوئی کتوں کا مشاہدہ کر سکتا ہے، ان کی ٹانگیں گن سکتا ہے کہ چار ہیں یا دو اور اس بنیاد پر میرا دعوٰی غلط ثابت کیا جا سکتا ہے۔ پوپر کے مطابق، خواہ یہ سٹیٹمنٹ ٹھیک ہو یا غلط، یہ سائنسی سٹیٹمنٹ ہے کیونکہ شواہد کی بنیاد پر اسے رد کیا جا سکتا ہے۔
مجھے دو یا چھ ٹانگوں والے کتے دکھا دیں تو یہ سٹیٹمنٹ غلط ہو جائے گی۔
“جو جھٹلایا نہیں جا سکتا، وہ سائنس نہیں”۔ پوپر کے پیشکردہ خیالات میں یہ وہ اصول ہے جو اچھی سائنس کرنے میں عام طور پر ہماری راہنمائی کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اگر پوپر درست ہیں تو اس کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ سائنسی تھیوریوں کو کبھی بھی مکمل طور پر ثابت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمیشہ اس چیز کی گنجائش رہتی ہے کہ کوئی نیا مشاہدہ ان کو غلط قرار دے دے گا۔ مثال کے طور پر ہزاروں بار مشاہدہ کر لیا جائے کہ کتے کی چار ٹانگیں ہوتی ہیں۔ اور اس کو دیکھ کر میرا اعتماد بہت بڑھ گیا ہے کہ میری تھیوری درست ہے۔ لیکن ایک روز ایک موڑ پر دو ٹانگوں والا کتا میرے سامنے آ گیا۔ ہزاروں بار اپنی تھیوری کی مثبت تصدیق کو اس ایک مشاہدے نے غلط ثابت کر دیا۔ سائنس میں ترقی اسی طرح غلط ثابت کرنے سے ہوتی ہے۔ جبکہ سوڈوسائنس کی تھیوریاں اتنی لچکدار ہیں کہ ہر مشاہدہ ان کی لپیٹ میں لے آیا جاتا ہے۔ یہ وہ وجہ ہے کہ ان میں وضاحت کی صلاحیت نہیں رہتی۔
مارکسسٹ ہسٹری اور فرائیڈ کے سائیکو انالیسس کی یہ لچک وہ خاصیت ہے جس کی وجہ سے یہ سائنس نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پوپر کے اس خیال پر زیادہ تر لوگ اتفاق کریں گے کہ سائنس کو الگ کرنے کے لئے یہ اچھی کسوٹی ہے۔ تاہم، کتنا ہی اچھا ہوتا کہ محض اسی کی مدد سے ہم یہ تفریق کر لیتے۔
اور اگر یہ اتنا آسان ہے تو پھر اس تفریق میں تو کوئی مسئلہ ہی نہیں؟ ٹھیک؟
مسئلہ یہ ہے کہ اصل دنیا اتنی سادہ نہیں۔ اس میں مشکلات زیادہ ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply