حیاتیاتی ڈیجیٹل دور۔۔۔۔پہلی بارش

فرض کریں آپ ایک کتاب پڑھ رہے ہیں ، کوئی خوبصورت بات پڑھنے کو ملتی ہے تو آپ کو راحت کا احساس ہوتا ہے ، کوئی بات پسند نہیں آتی تو آپ کا دماغ ناگواری کا احساس پیدا کرتا ہے ، دونوں صورتوں میں آپ کے دل کی دھڑکن ، فشار خون ، آنکھوں کی حرکت ، چہرے کے عضلات کا سکڑاؤ ، خون میں راحت یا ناگواری کے احساس سے جڑے ہارمونز کی مقدار ، دماغ کے نیورانز کے سگنل ، سب انتہائی معمولی سی مقدار میں بدل جاتے ہیں ،
اب فرض کریں آپ کے بدن میں ایک ”چپ” نصب ہے جو ان سب معمولی تبدیلیوں کا حساب رکھتی ہے اور اس ڈیٹا کو متواتر ایک مرکزی کمپیوٹر کو بھیجتی رہتی ہے ، چونکہ آپ کے بہت سے احساسات لاشعوری ہیں اس لیے کمپیوٹر آپ کو آپ سے بہتر جان پاۓ گا کہ آپ کو کسی قسم کی شاعری پسند ہے ، کونسے الفاظ آپ کو بھاتے ہیں اور کونسے نہیں ، ادب ، سائنس ، سیاست ، مذہب اور دوسری تحریروں میں آپ کو کیا پسند ہے اور کیا نہیں ،

کمپیوٹر آپ کے پل پل کا ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے ، کل بازار میں سے گزرتے وقت سائن بورڈ پر فلاں لیڈر کی تصویر لگی تھی ، اسکو دیکھ کر آپ کے خون میں ہارمونز کا اتار چڑھاؤ کیسے بدلا ، فلاں گھر کے سامنے سے گزرتے وقت آپ کے دل کی دھڑکن کیوں تیز ہوجاتی ہے ، آپ کو کون پسند ہے کون ناپسند ، فلاں مذہبی ، سیاسی ، سماجی لیڈر کے بارے میں آپ کی کیا راۓ ہے ، فلاں نام سن کر آپ کے نیورانز کے سگنلز اور آنکھوں کی حرکت کیوں رک جاتی ہے وغیرہ وغیرہ ،
یوں کمپیوٹرپر بیٹھا شخص آپ کو آپ سے بہتر جانتا ہے ، آپ کی شخصیت ، سوچیں ، پسند ناپسند ، صحت کو شاید آپ بھی اتنا نہ جانتے ہوں ۔

اسکو مزید آگے بڑھایئں ، ہو سکتا ہے وہ ”چپ ” آپ کے ہارمونز پر نظر رکھنے کے ساتھ انکو کنٹرول بھی کر سکتی ہو ،
آپ حکومت سے ناراض ہیں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے والے ہیں ، چپ آپ کے خون میں راحت والے ہارمونز کی مقدار بڑھا دے گی اور آپ خوشی خوشی گھر چلے جائیں گے ، آپ جنگ کے خلاف ہیں اور حکومت کی پڑوسی ملک کو دھمکیوں کو برا سمجھتے ہیں ، چپ آپ کے احساسات کو یوں بدلے گی کہ آپ بھی دشمن سے نفرت کرنے لگیں گے ،

اس طرح کا حیاتیاتی ڈیجیٹل دور ابھی چند دہائیاں دور ہے اور اس میں آمریت سے بچنے کا واحد حل شاید ڈیٹا کی ملکیت کو چند لوگوں تک محدود کرنے سے روکنا ہے ،
اس موضوع پر یول نوح حراری کا لیکچر ،

https://www.youtube.com/watch?v=7Xs3auqcX7k

مارسیلو گلیشیر کی تجاویز

https://www.npr.org/…/biometric-data-and-the-rise-of-digita…

یول نوح حراری کی تحریر

Advertisements
julia rana solicitors london

https://www.ft.com/con…/50bb4830-6a4c-11e6-ae5b-a7cc5dd5a28c

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply