کوئی رجل رشید بھی ہے؟۔۔۔۔آصف محمود

ہر سوار شمشیر بکف اور ہر پیادہ قہر مجسم ۔ اللہ کے بندو تمہارے قبیلے میں کوئی حلیم الطبع اور معاملہ فہم بھی ہے یا سبھی جنگجو ہیںاور ہتھیار بند؟ اقتدار کے ایوان میدان ِ کارزار نہیں ہوتے جہاں آپ داد شجاعت دیتے آئیں اور کشتوں کے پشتے لگاتے جائیں۔ ہر چوراہے میں ٹکٹکی پر باندھ کر آدھے شہر کی پشت لہو کر دینے کو دلاوری نہیں کہتے ، دلاوری یہ ہوتی ہے کہ جب اقتدار ملے تو لہجوں کا آتش فشاں قدرے تھم سا جائے اور خیر خواہی اور ہمدردی کے جذبات غالب آ جائیں۔ خوف ، سراسیمگی ، غیر یقینی اور اضطراب پھیلا کر ناتراشیدہ جذبات کو تو آسودہ کیا جا سکتا ہے اس سے قوم کی تعمیر نہیںہو سکتی۔قوم قانون کی حکمرانی کے ساتھ اعتماد ، ہمدردی اور خیر خواہی بھی چاہتی ہے۔ کابینہ میں کتنے ہیں جنہیں مطالعے جیسی بری عادت سے کوئی راہ و رسم ہو اور جو خطے میںبدلتے رجحانات کا ادراک رکھتے ہوں ۔چین اور امریکہ کی کاروباری رقابت نے دنیابھر کی معیشت کی چولیں ہلا دی ہیں۔ایسے میں اگر پاکستان میں کچھ معاشی سرگرمی جاری تھی تو اسے غنیمت سمجھا جانا چاہیے تھا ۔عالمی سطح پر معیشت دبائو کا شکار تھی تولازم تھا حکومت سب سے پہلے اپنے سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لیتی۔انہیں حوصلہ دیا جاتا کہ پہلے مرحلے میں احتساب صرف ان کا ہو رہا ہے جو حکومت میں رہے یا بیوروکریسی کی صورت اس کا کل پرزہ رہے۔انہیں اعتماد دیا جاتا کہ آپ گھبرائے بغیر اپنی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ حکومت آپ کے لیے مزید بہتر ماحول پیدا کرنے کے لیے کوشاں رہے گی۔لیکن یہاں حکومت کا بیانیہ ہی اور ہے۔ اس کی بصیرت کا حاصل بس یہ تین فقرے ہیں : پکڑ لیں گے ، چھوڑیں گے نہیں ، الٹا لٹکا دیں گے۔اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ سرمایہ کار نے خوف زدہ ہو کر اپنی کاروباری سرگرمیوں کو معطل اور محدود کر لیا کہ کہیں اسے کسی ادارے کی طرف سے نوٹس نہ مل جائے اور وہ دھر نہ لیا جائے۔پوری مارکیٹ میں غیر یقینی اور خوف ہ ہراس پیدا ہو گیا کہ جانے کب کیا ہو جائے۔ فطرت کی طرح حکومت کے عناصر میں بھی اعتدال ہونا چاہیے۔ لوگوں کو کب تک ان اقوال زریں سے بہلایا جاتا رہے گا کہ احتساب ہو گا ، کسی کو چھوڑیں گے نہیں اور گورنر ہائوس عام آدمی کے لیے کھول دیے گئے۔دلی میں قحط پڑا تھا تولوگ عشق کرنابھول گئے تھے ۔یہاں کسے یاد رہے گا کہ وزراء کے خطبات کتنے شعلہ بیان اور اثر آفرین ہوا کرتے تھے۔محض احتساب کے نعرے سے غریب کا پیٹ نہیں بھرتا اور پھر احتساب بھی کیسا؟ شریف خاندان کی دہلیز پر جو یوں بیٹھ گیا ہے جیسے عمران خان ڈی چوک پر بیٹھ گئے تھے۔برادر مکرم شوکت یوسفزئی سے میں نے سوال کیا پنجاب کا ایک سب سے بڑا ڈاکو ہوتا تھا کیا وہ ابھی تک اسی منصب جلیلہ پر فائز ہے یا دھُل کر صاف ہو گیا ہے۔فرمانے لگے : آصف بھائی واقعہ یہ ہوا کہ پرویز الہی صاحب کے بارے میں کسی نے عمران خان کو غلط اطلاع دی تھی ورنہ وہ تو بہت اچھے آدمی ہیں۔ معاملہ یہ نہیں کہ حکومت کا دفاع نا ممکن ہو چکا معاملہ یہ ہے کہ قبیلے میں سارے ہی جنگجو ہیں۔تحریک انصاف اب ایک نظریے کا نہیں ایک کیفیت کا نام ہے۔ٍہر رہنما حالت غیض و غضب میں ہے۔سبھی نے گویا چیئر مین نیب کی اضافی ذمہ داریاں اپنے نازک کندھوں پر اٹھا رکھی ہیں۔صبح شام دھمکی دی جاتی ہے: چھوڑیں گے نہیں ، لٹکا دیں گے۔فلاں کی ایسی تیسی ، فلاں کو دیکھ لیں گے، فلاں کو بتا رہے ہیں حرکتیں ٹھیک کر لیں ، فلاں کان کھول کر سن لے چھوڑیں گے نہیں۔کیا حکومتیں اس طرح چلتی ہیں؟کوئی رجل رشید، کوئی مدبر ، کوئی تحمل مزاج ، کوئی معاملہ فہم۔جو قوم کو حوصلہ دے ، اسے اعتماد ے اور اس حوصلے اور اعتماد سے جذبوں کو زندہ کرے اور قوم کی تعمیر کرے۔ یکسوئی کا یہ عالم ہے کہ ناصر درانی کو بڑے چائو سے لایا جاتا ہے اور وہ ایک مہینہ نہیں نکال پاتے۔نرگس ایک دن اخلاقیات کے لیے خطرہ ہوتی ہے دوسرے دن وہ قومی اثاثہ قرار پاتی ہے۔سینیٹ میں غریب عوام کے پیسوں پر اجلاس منعقد فرما کر ایک دوسرے کو گالیاں دی جاتی ہیں ۔اتنے لمبے وعظ کیوں ؟اقتدار سینہ کوبی کا نہیں، عمل کا نام ہوتا ہے۔شواہد موجود ہیں تو مشاہد اللہ خان کے پورے خاندان کو کٹہرے میںکھڑا کر دیجیے لیکن سینیٹ میں الزام تراشی کی بجائے قانون سازی کیجیے۔ایک روز ایک بیان آتا ہے ابھی اس کے بازگشت فضائوں میں ہوتی ہے کہ اس کی تردید ہو جاتی ہے اور جب شام ڈھلتی ہے تو تردید کی بھی تردید فرما دی جاتی ہے۔رہے نام اللہ کا۔نہ کوئی ہوم ورک ہے نہ کوئی پالیسی۔بس تین نکاتی اقوال زریں ہیں:پکڑ لیں گے ، لٹکا دیں گے ، چھوڑیں گے نہیں۔ پولیس اور بیوروکریسی آپ سے ناراض ، عام آدمی آپ کے خوف اور آپ کی مہنگائی سے سہما ہوا، تاجر آپ سے خوفزدہ، اساتذہ آپ سے بے زار ۔کیا ملک اس طرح چلتے ہیں؟ ستر سالہ بوڑھے وائس چانسلرڈاکٹر اکرم چودھری کا احتساب ضرور کیجیے ، لیکن کیا یہ بھی ضروری تھا کہ انہیں ہتھ کڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ؟ وہ بھاگے نہیں جا رہے تھے ، وہ عادی مجرم نہیں تھے ، ان کا ریکارڈ مجرمانہ نہیں تھا ۔ساری عمر درس و تدریس سے وابستہ ایک بوڑھے کاکیا اتنا بھی حق نہیں کہ جب تک عدالت اسے مجرم قرار نہ دے تب تک اس کی عزت نفس کا یوں جنازہ نہ نکالا جائے۔مے خانے کے بارے میں تو سنا تھا کہ وہاں پگڑی اچھلتی ہے سوال یہ ہے کیا اب نئے پاکستان میں بھی کسی شریف آدمی کی دستار سلامت نہیں رہے گی۔ حکومت کی صف میں اگر کوئی نجیب اور نستعلیق آدمی ہے تو اسے آگے لائیے۔کوئی ایسا آدمی جس کا لہجہ آگ نہ نکلتا ہو۔کوئی ایسا فرد جسے جذبات کو تھام کر بات کرنے کا فن معلوم ہو۔عوام کو اعتماد میں لیجیے ۔اس وقت ایک سراسیمگی اور غیر یقینی کی کیفیت ہے۔اس کیفیت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ہر وقت اکھاڑے میں کھڑے ہو کر کبڈی کبڈی کرنا کوئی معقول رویہ نہیں ہے۔اکھاڑے سے نکل آئیے، حکومت کیجیے۔

Facebook Comments

آصف محمود
حق کی تلاش میں سرگرداں صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply