لسٹر کا احسانِ عظیم۔۔۔۔۔۔پہلی بارش/ہیلتھ بلاگ

انیسویں صدی کے وسط کا انگلینڈ ہے ، اگر آپ بیمار پڑ گئے ہیں اور استطاعت رکھتے ہیں تو اپنا علاج گھر پر کروائیں گے ، اگر غریب ہیں تو ہسپتال جائیں گے ، وجہ ؟ ہسپتال میں آپ کے مرض کے بگڑنے اور جان بحق ہونے کے زیادہ امکانات ہیں ، اس زمانے میں زخموں کے بگڑنے کا سبب آلودہ ہوا سمجھی جاتی تھی ، جراثیم سے بیماریوں کے پھیلنے کا کوئی تصور نہیں تھا ، ا  س لیے سرجن لوگ اپنے ہاتھ اور جراحی کے آلات بھی نہیں دھوتے تھے اور خون آلود ہاتھوں کے ساتھ ایک کے بعد دوسرا آپریشن شروع کر دیتے تھے ، بلکہ گندے ہاتھ اور گندے آلات زیادہ محنتی سرجن کی علامات تھیں ،
شائقین کا ہسپتال آ کر آپریشنز کا لائیو نظارہ کرنا عام سی بات تھی۔،

پھر ایتھر کے ذریعے مریض کو بے ہوش کر دینے کا طریقہ ایجاد ہوا ، بظاہر ایتھر نے درد کم کیا لیکن اصل میں موت کے امکانات کو بڑھایا کیونکہ اب سرجن زیادہ بے باکی سے آپریشن کرتے اور گہرے نشتر چلانے لگے تھے ۔

١٨٤٦ میں جب ایتھر کے ذریے پہلا آپریشن ہوا تو شائقین میں ایک کالج سٹوڈنٹ بھی تھا جس کا نام جوزف لسٹر تھا ، لسٹر ایک پر تجسس اور غیر روایتی نوجوان تھا ، اسکو جراحی کے زخموں کو سمجھنے میں شروع سے ہی دلچسپی تھی ، اس لیے پہلے میڈیکل سٹوڈنٹ بنا ، پھر ڈاکٹر اور پھر ترقی کرتے کرتے گلاسگو یونیورسٹی میں سرجری کا پروفیسر۔.

لسٹر نے نوٹ کیا کہ جو زخم اندرونی ہوتے ہیں یعنی جن میں جلد نہیں ٹوٹتی وہ زیادہ خراب نہیں ہوتے اور سڑان نہیں دیتے ، پر جن زخموں میں جلد میں شگاف پڑ جاتا ہے ان کے خراب ہونے اور  سڑان پیدا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے ، لسٹر کو لوئی پاسچر کی یہ دریافت بھی معلوم تھی کہ دودھ اور خوراک کے خراب ہونے کی وجہ خوردبینی جاندار یا جراثیم ہیں ، پاسچر نے انکے سدباب کے لیے تین تجاویز دی تھیں ، دودھ کو فلٹر کر لیں ، یا گرم کر لیں یا اس پر کیمیکلز آزمائیں۔،

لسٹر نے مفروضہ بنایا کہ شاید جراحی کے زخم خراب ہونے کی وجہ  بھی یہی جراثیم ہوں جو خراب کھانوں کی طرح زخم میں بدبو بناتے ہیں ، ان کے علاج کے لیے پہلے دو طریقے تو ممکن نہیں تھے پر کوئی کیمیکل ڈھونڈا جا سکتا تھا ، پر کونسا کیمیکل ؟

اس زمانے میں فصلوں میں کھاد کے طور پر گٹر کا پانی استعمال ہوتا تھا ، اور اسکی بدبو کو ختم کرنے کے لیے فصلوں پر فینول (کاربولک ایسڈ) چھڑکا جاتا تھا ، لسٹر کا مفروضہ تھا کہ فینول زخموں میں بدبو اور جراثیم ختم کرنے میں بھی موثر ثابت ہوگا ۔
١٨٦٥ میں لسٹر کے کلینک میں ایک سات سالہ بچہ لا یا گیا جس کی ٹانگ کی ہڈی کو تانگے کے پہیے نے کئی جگہ سے توڑ دیا تھا ، لسٹر نے پٹی کو فینول میں بھگو کر زخم پر باندھ دیا ، چار دن بعد جب پٹی کو کھولا گیا تو زخم میں کوئی بدبو ، کوئی پیپ ، خراب ہونے کی کوئی علامات نہیں تھیں ، چھ ہفتے میں بچے کی ٹانگ مکمل مندمل بھی ہوگئی ۔

میڈیکل سائنس میں یہ ایک بڑا انقلاب تھا جس کو لسٹر نے چھ تحقیقاتی آرٹیکلز میں لینسٹ نامی جریدے میں شائع کیا ، ان آرٹیکلز نے جراحی کی سائنس ہی بدل دی ، آپریشن تھیٹرز میں صفائی کا رحجان شروع ہوا ، جراحی کے دستانے ، گاؤن ، آلات ، آپریشن ٹیبل کو فینول سے دھویا جانے لگا ، خوردبین کا استعمال عام ہوا ، جراثیم کی تشخیص کی جانے لگی ، اور جراحی کی اموات میں ڈرامائی حد تک کمی آ گئی ،

لسٹر کی دنیا بھر میں پذیرائی ہوئی ، انکے نام پر سرجری میں ایک بڑا ایوارڈ ”لسٹر میڈل ” کے نام سے جاری کیا جاتا ہے ، دو بیکٹیریا (لسٹریا ، لیسٹریلیا ) کا نام انکے نام پر رکھا گیا ہے ، بہت سے ہسپتال اور میڈیکل سینٹرز انکے نام پر قائم ہیں ، ہم شائد انہیں لسٹرین کے حوالے سے بھی جانتے ہوں جو پہلے جراثیم کش دوا تھی اور اب ماؤتھ واش کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔،

Advertisements
julia rana solicitors london

اگلی مرتبہ آپ یا آپ کا کوئی پیارا آپریشن تھیٹر جاۓ تو انسانیت کے اس محسن کو ضرور یاد رکھیں ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply