ڈاک کا عالمی دن۔۔۔ارشد قریشی

نوٹ:یہ تحریر دو روز  پہلے 9  اکتوبر  کو ڈاک کے عالمی دن کے موقع پر لکھی گئی ہے!

برصغیر پاک و  ہند میں پہلے جدید ڈاک خانے کا   قیام 1837 عمل میں لایا گیا ۔ اقوامِ متحدہ کی خصوصی تنظیم  یونیورسل پوسٹل یونین  کے زیرِ اہتمام پاکستان سمیت   پوری دنیا میں ہر سال 09 اکتوبر کو  ڈاک کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔ ڈاک کا نظام ایک  عالمی تاریخی نظام ہے ۔ اس نظام  کا سلسلہ  سات ہزار سال پہلے  فرعون مصر کی ابتدائی دور سے ملتا ہے ۔  تقسیم ہند کے بعد  15 اگست 1947 سے  پاکستان  پوسٹ نے لاہور  میں اپنا دفتر قائم کیا اور اسی سال  اقوامِ متحدہ کی یونیورسل پوسٹل یونین  کا رکن بھی بنا  اور  سن 1948 میں پاکستان نے اپنا پہلا  یادگاری ڈاک ٹکٹ جاری کیا ۔

پاکستانی معاشرے میں جہاں  کئی پرانی روایات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں وہیں ڈاکیہ، ماسٹر بابو،  ڈاک خانہ ، ڈاک ڈبہ  جیسی اصطلاحات میں بھی کمی ہوئی ہے  اور کم ہونے کی وجہہ ظاہر ہے جدید ٹیکنالوجی کا  آنا ہے ۔ خاکی وردی میں ملبوس سائیکل پر سوار ڈاکیے بھی وردی کا رنگ بدلتے ہوئے گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار ہوئے تاکہ جدید دور سے قدم ملا کر چلا جاسکے ۔ ہمارے بچوں کو اب ڈاکیہ اور  ڈاک خانے کے حوالے سے سمجھانا ایک مشکل کام ہے کیوں کہ وہ اس حوالے سے بالکل نا واقف ہیں ۔

ماضی میں سائیکل پر سوار ڈاکیے کی گھنٹی بجتے ہی اہلِ محلہ کئی تمنائیں لیئے باہر چلے آتے تھے  کسی کو منی آرڈر  کا انتظار تو کسی کو اپنے پیاروں کے خط کا تو کسی کو پارسل اور کسی کو عید کارڈ  وغیرہ کا ۔ کسی لفافے پر سرخ روشنائی سے گھر کا پتہ لکھا ہوتا تھا تو اندازہ کر لیا جاتا تھا کہ کوئی اچھی خبر نہیں۔ جو لوگ پڑھے لکھے ہوتے تھے جلدی لفافے کھول کر پڑھنا شروع  کردیتے تھے جو لکھنا پڑھنا نہیں جانتے تھے وہ ڈاکیہ  سے ہی خط سن لیا کرتے تھے  اور پھر محلے کے پڑھے لکھے لوگوں سے اس کا جواب بھی لکھوایا کرتے تھے ۔ڈاکیے کی آمد کا ایک  وقت مختص ہوتا تھا اسی وقت لوگ اس کا انتظار کیا کرتے تھے لیکن کبھی اگر ڈاکیے کی سائیکل کی گھنٹی وقت سے پہلے سنائی دیتی تو لوگ پریشانی کے عالم میں گھروں سے باہر آجاتے کیوں کہ اس کا مطلب ہوتا تھا کہ کوئی تار  ( ٹیلی گرام ) آیا ہے  جو کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں آتا تھا ۔  ڈاکیہ بھی اپنا لہجہ خط کے متن کی مناسبت سے ہی رکھتا  اگر کسی کی موت ، بیماری یا کسی حادثے کی خبر ہوتی تو نہایت سنجیدگی سے خط سنا کر اداس چہرے کے ساتھ واپس پلٹ جاتا اور اگر  خط میں کسی کی شادی، بچے کی ولادت، رشتے کی خبر یا کسی رشتے دار کی آمد کی اطلاع ہوتی تو خوشی سے خبر سناتا اور کچھ دیر رک جاتا ،لوگ خوشی میں اس کا منہ میٹھا کراتے اور اسے انعام بھی دیتے اس طرح ڈاکیا  کی بھی خواہش ہوتی کہ خط کے اندر کوئی خوش خبری ہی ہو۔

شہروں کا یہ حال تھا کہ پوسٹ آفس کے باہر کئی لوگ  میز کرسی  چھتری لگائے بیٹھے ہوتے تھے جو لوگوں کے خطوط لکھا کرتے ، ان کے پارسل کو محفوظ طریقے سے بند کیا کرتے یا منی آرڈر کے فارم وغیرہ بھرا کرتے تھے۔ اسی طرح ہر ماہ ڈاک خانے کے باہر ایک اور قطار نظر آتی تھی جو ان سرکاری   اداروں سے ریٹائرڈ لوگوں کی ہوتی تھی جن کی پینشن ڈاک  خانے سے تقسیم کی جاتی تھی ۔سال میں ایک بار ڈاک خانوں کے  باہر طلباء کی قطار نظر آتی تھی جو لفافوں کے حصول  کے لیے ہوتی تھی کیوں کہ انہیں امتحانی  فارم کے ساتھ دو لفافے اپنے رہائشی پتے کے ساتھ لگانے ہوتے تھےجس میں  تعلیمی بورڈ کے محکمہ کی جانب سے ان کا ایڈمٹ کارڈ  اور مارکشیٹ کو  روانہ کیا جاتا تھا ۔  عید  اور نئے سال کی آمد پر بھی ڈاک خانے میں رونق لگی ہوتی تھی لوگ اپنے پیاروں کو نئے سال مبارک اور عید مبارک کے تہنیتی کارڈ ارسال کرتے تھے ۔

اب اگر ڈاک کے پرانے نظام کو دیکھا جائے تو بہت  سی روایت یا تو یکسر ختم ہوئی نظر آتی ہیں یا پھر ہر بدلتے دن کے ساتھ وہ دم توڑتی نظر آتی ہیں ، انٹرنیٹ ، ای میل، موبائیل فون آنے سے ان روایات پر گہرا اثر پڑا ڈاک سے عید کارڈ، شادی کارڈ اور نئے سال کے تہنیتی کارڈ کا سلسلہ ختم ہی ہوگیا ، سب سے منفی اثر ہاتھ سے خطوط لکھنے پر پڑا  یہی وجہ ہے کہ بچوں میں خوشخطی  کا رجحان اب نظر نہیں آتا ۔ باوجود اس کے اب بھی بہت سے لوگوں نے ڈاک کے نظام کو ہی اپنایا ہوا ہے جو بہت چاہت سے اپنے پیاروں کو ہاتھ سے خطوط لکھ کر  لیٹر بکس میں ڈالتے ہیں اور حقیقت میں اس کا  لطف ہی کچھ اور ہے ، جس طرح  پرانے کتب بینی کا شوق رکھنے والوں کو انٹرنیٹ پر کتب  کا مطالعہ کرتے ہوئے وہ  لطف نہیں آتا جو دستی کتب کے مطالعہ میں آتا ہے اسی طرح بہت سے لوگوں کو ای میل یا دوسرے ذرائع سے تسلی نہیں ہوتی جب تک کہ اپنے ہاتھوں سے خط لکھ کر  لیٹر بکس میں نہ ڈال دیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج کے جدید دور بھی پاکستان ڈاک کا محکمہ اپنی  اہمیت اور افادیت قائم رکھے ہوئے ہے  ہمیں بھی چاہیے کہ ہم اپنے ملک کے اس نظام سے نہ صرف بھرپور استفادہ حاصل کریں بلکہ اپنے بچوں کو بھی اس کی ترغیب دیں اس سے جہاں ایک جانب بچوں میں ہاتھ سے خطوط لکھنے کا شوق بیدار ہوگا  دوسری جانب ان کو اپنا رہائشی پتہ اور اپنے پیاروں کی رہائش کے بارے میں بھی مکمل آگاہی ہوگی ۔ کیوں  کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ بچوں کو اس بات کی آگاہی تو ہوتی ہے کہ وہ  یا ان کے دوست احباب کس علاقے میں رہائش پذیر ہیں لیکن انہیں ان کے رہائشی پتے کا قطعی علم نہیں ہوتا ۔ پاکستان  محکمہ ڈاک نے بھی اپنے نظام کو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق کیا ہے جس کے  تحت آپ اپنی ارسال کردہ ڈاک  کی  بارے میں مکمل آگاہی حاصل کرسکتے ہیں ۔

Facebook Comments

ارشد قریشی
محمد ارشد قریشی کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ شاعری کا شغف بھی رکھتے اور میم الف ارشیؔ کے تخلص کے ساتھ اشعار کہتے ہیں ،ہم سماج ڈیجیٹل میڈیا گروپ کے سربراہ اور پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ کےنائب صدر ہونے کے ساتھ انٹرنیشنل ریڈیو لسنرز آرگنائیزیشن پاکستان کےصدر ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ایک اچھا سچا اور مخلص صحافی دنیا کو پرامن اور خوبصورت بنا سکتا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply