باورچی خانے کا دروازہ صحن میں تھا، میں صحن میں سرکنڈوں سے بنے موڑھے پر بیٹھا اُنہیں دیکھ رہا تھا، چولھے کے سامنے پڑی پیڑھی پر گلاب کا ڈھیر پڑا تھا،ہلکورے لیتا یہ ڈھیر اتنا پُر فسوں تھا کہ میں یک ٹک دیکھ رہا تھا، بیلن چکلےپر ایک مستی کے عالم میں پڑے پیڑھے کو بیل رہا تھا، چوڑیوں کی کھنک، بیلن کی ٹھک ٹھک ، اور چھوٹے مچان پر رکھے چولھےپر ،چڑھی چائے کی کیتلی میں سے بھاپ نکلنے کی سرسراہٹ ایک ایسی موسیقی پیدا کر رہی تھی جس سے دل کے تار ،تال میل جوڑکر بج رہے تھے! اُن کا چہرہ آتشیں ہو رہا تھا،چولھے کی حدت چہرےپر پسینے کی بوندیں پیدا کر رہی تھی، ناک میں پڑی کیل آج اُداس تھی آنکھوں میں طیش کا جوار بھاٹا رہ رہ کر اُٹھ رہا تھا۔
میرے سامنے فرسٹ ائیر انگریزی کا پرچہ پڑا تھا،میں قواعد کی رو سے کئی چیزیں غلط کر آیا تھا، اُنھیں میرے نتیجے کی فکر تھی اور میرے مستقبل کا خیال!
میرا مستقبل جو میرے آگے تھا!
مگر میں حال میں گُم تھا!
یہ بھی قسمت کی ستم ظریفی ہی ہے کہ مستقبل کبھی حال نہیں بن پاتا ہمیشہ آگے ہی رہتا ہے!
یاد نمبر 40
انہوں نے میرے سامنے ، کھولتی چائے کا پیالہ رکھا، سرکنڈوں سے بنی چنگیز میں ، خستہ گرم پراٹھا ایک خوش نما روٹی پوش میں لپٹا مہک رہا تھا، میں نے، اُداس نظروں سے اپنی گردن اُٹھائی وہ میرے سامنے جُھکی ہوئی تھیں ، اُن کے چہرے پر پسینے کی بوندیں صحن میں لگے پنکھے کی ٹھنڈی ہوا سے اب ختم ہو کر ایک نمی میں بدل رہی تھیں ،فضا میں ایک خوشگوار مہک کا بسیرا تھا، مگر یہ مہک میری اداسی کو مزید بڑھا رہی تھی !
کھاؤ! انہوں نے کہا،
نہیں میں نے اجنبیت سے جواب دیا، میرا انگریزی کا پرچہ خراب ہوا تھا، انہوں نے جی بھر کے ڈانٹا تھا، میرا دل بہت خراب ہوا تھا!
انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا ، پھر ہاتھ بڑھا ہر پراٹھے کا ایک لقمہ توڑا، اور میرے ہونٹوں سے لگا دیا!
میں ، اُن گلابی مائل سفید مخروطی انگلیوں کو دیکھ رہا تھا ، جو میرے ہونٹوں سے مَس ہو رہی تھیں ، مجھے دل میں کچھ پگھلتے ہوئے محسوس ہوا، مجھے ایسا لگا جیسے کوئی چیز ہے جو دھیرے دھیرے میرے دل کو موم کی طرح جلا رہی ہے، اُس آنچ کی تپش مجھے اچھی لگ رہی تھی !
میں نے اپنے لب کھولے ، اور لُقمہ نرمی سے اپنے منہ میں لیا، وہ سفید انگلیاں میری زبان سے مس ہو کر تیزی سے پیچھے کی جانب پلٹ گئیں،
تم کب سمجھو گے؟
میں نے اس نئے سوال پر اُن کو حیرت سے دیکھا اور کہا، مطلب؟
انھوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کچھ نہیں! ناشتہ کرو۔۔۔
میں نے کہا ایک نظم لکھی ہے ،میں نے کہا!
یکدم اُن کے چہرے پر دیے روشن ہو گئے، کہا مجھے سُناؤ! ،میں گویا ہوا!
ابھی مت آؤ۔
کہ میری اُمید کا موسم ڈھل چُکا ہے
ابھی مت آؤ
کہ زیست کا رستہ کٹ چُکا ہے
ابھی مت آؤ
کہ میری دنیا سمٹ چکی ہے
میرے ہی اندر مر چکی ہے
ابھی مت آؤ
کہ میرے پاس آنے سے
کترانے لگو گے میرے فسانے سے!
کیسی لگی؟ میں نے اشتیاق سے دریافت کیا، انہوں نے میری طرف دیکھا اور خاموشی سے اُٹھ کھڑی ہوئیں، دو قدم آ گے جا کر باورچی خانے کی دہلیز پر رُک گئیں!
اُن کی پشت پر پھیلے ہوئے سیاہ بال، سرسوں کے پیلے نازک پھول کی طرح صحن میں چلنے والے پیڈسٹل فین کی وجہ سے اٹھکھیلیاں کر رہے تھے، اُن کی کمر کا خم اپنے نازک کٹاؤ کے باوجود اس بوجھ کو ایک غرور سے دائیں بائیں کر رہا تھا، میں خاموش تھا، پھر اس سکوت کو انہوں نے توڑا اور کہا!
اپنا پراٹھا ختم کرو اور جاؤ!
جاری ہے۔
(مانی جی، میں عوام)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں
براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لڑکپن کا عشق۔یاد نمبر39۔منصور مانی“