پچاس لاکھ گھروں کا سراب۔۔۔۔ محمد احسن سمیع

ہمارے بچپن میں کہانیوں کی کتابوں کی ایک سیریز آیا کرتی تھی جس کے ٹائٹل پر کہانی کے مرکزی کرداروں سے مزین ایک رنگا رنگ تصویر ہوا کرتی تھی جبکہ سبز رنگ کی پشت پر پبلشر کی جانب سے چھاپی گئی دیگر کہانیوں کا تعارف ہوتا تھا۔ انہی  کتابوں کے ذریعے ہمارا تعارف شیخ چلی اور اس کے خوشحال ہونے کے عظیم معاشی پلان سے ہوا۔ آج کل کے بچے اور ننھے منے انصافیوں نے پتہ نہیں ان کتابوں کی شکل بھی دیکھی ہے یا نہیں، بچوں کو اردو کہانیاں پڑھتے دیکھے زمانہ ہوگیا، آج کل تو ویسے بھی 4-4 سال کے بچوں کے ہاتھوں میں ہیری پورٹر سیریز کی ضخیم کتابیں تھما کر ان کی تصویریں سوشل میڈیا پر ڈالنے کا زمانہ ہے۔ سو جن بچوں کو شیخ چلی اور اس کے معاشی پلان سے تعارف حاصل نہیں وہ اگر کل شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں اپنی حکومت کے معاشی ترجمان جناب (مبینہ) ڈاکٹر فرخ سلیم کی گفتگو ملاحظہ فرما لیں۔ نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کی تفصیلات بیان کرتے موصوف نے وہ وہ گل کھلائے ہیں کہ شیخ چلی کی روح بھی عش عش کر اٹھی ہوگی! پہلے ہم کرپشن پکڑیں ، اس سے پیسہ بچے گا، وہ پیسہ ملک میں آئے گا، وہ پیسہ معیشت میں چھوڑیں گے، وہ پیسہ بینکوں میں جائے گا اس سے لوگوں کو قرض دیں گے ۔۔۔ اور پہلے میں انڈے خریدوں گا، اس میں سے چوزے نکلیں گے، وہ چوزے مرغی بن جائیں گے، وہ مرغیاں اور انڈے دیں گی، ا ن انڈوں سے اور چوزے نکلیں گے ۔۔۔ دونوں پلانز میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔

اصولاً میں عوام کے لئے رعایتی نرخوں پر حکومتی ہاؤسنگ پراجیکٹس کا مخالف نہیں ، تاہم کسی بھی منصوبے کی کامیابی کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ اس کی اساس کتنے حقیقت پسندانہ مفروضوں پر رکھی گئی ہے! 5 سال میں 50 لاکھ گھروں کی بات کسی نے زبردستی عمران خان کے منہ میں نہیں ٹھونسی تھی ، اس لئے اب ان کی پرفارمنس کا تجزیہ ان کے اپنے دعوے کی بنیاد پر کیا جائے گا اور ۔۔۔ “چلو 50لاکھ نہ سہی ، 50 ہزار گھر بھی بن گئے تو بڑی بات ہے، کچھ تو ہوا” ۔۔۔ جیسے بچکانہ دفاعی بیانات سے کام نہیں چلایا جاسکتا!

تحریک انصاف کی جانب سے منصوبے کی لاگت کا تخمینہ 180 ارب ڈالر بیان کیا گیا ہے! گویا پانچ سال میں 36 ارب ڈالر سالانہ اس پراجیکٹ کے لئے درکار ہیں! یاد رہے کہ پاکستان کے سالانہ بجٹ کی کل مالیت ہی تقریباً 44 ارب ڈالر ہوتی ہے ۔ گویا سرکاری وسائل سے تو کوئی پیسہ اس خیالی منصوبے پر خرچ کرنا ممکن ہی نہیں! اس لئے خان صاحب اگر یہ فرماتے ہوئے سنائی دیں منصوبے پر حکومت کوئی رقم خرچ نہیں کرے گی تو یہ ان کی حکومت کی اعلی حکمت عملی کا مظہر نہیں، بلکہ اس کام کے عملا ً ناممکن ہونے کا ملفوف اعتراف ہے ۔ جب حکومت کے معاشی ترجمان صاحب سے سوال ہوا کہ اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا تو موصوف نے فرمایا کہ وطن عزیز سے سالانہ 10ارب ڈالر کی “منی لانڈرنگ” ہوتی ہے ، اگر اس کو روک لیں تو سالانہ 10 ارب ڈالر تو ویسے ہی مل جائیں گے! ہمارے ممدوح جناب (مبینہ) ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب پہلےہی  اپنی ٹوئیٹر پر چھوڑی ہوئی پھلجھڑیوں کی وجہ سے معروف ہیں، اب لائیو ٹیلی وژن پر حکومتی ترجمان کی حیثیت سے ان کی اس گلفشانی سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ موجودہ حکومت کتنی “ویل انفارمڈ ” ہے۔ گویا کہ گزشتہ برس ملکی اخبارات میں شائع ہونے والی ایک مبہم رپورٹ پر آپ نے نہ صرف اپنے خوابوں کا پورا محل تعمیر کرلیا بلکہ کمال ڈھٹائی سے عوام کو بیچنے بھی لگے۔

مذکورہ اخباری رپورٹس گزشتہ برس امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی انسداد منشیات کے حوالے سے شائع ہوئی ایک رپورٹ پر مبنی تھیں ۔ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس رپورٹ میں بذات خود منی لانڈرنگ کے حوالے سے کوئی اعداد وشمار نہیں دئیے گئے ہیں بلکہ کچھ جگہوں پر ایک تھنک ٹینک مسمیٰ ” گلوبل فنانشل انٹیگرٹی ” کی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اس تھنک ٹینک کی رپورٹ تجارت کے ذریعے ہوئی غیر قانونی ترسیلات زر کے حوالے سے ہے اور یہ رپورٹ بھی ان کی ویب سائٹ پر موجود ہے اور بمعہ تمام ڈیٹا کے دیکھی جاسکتی ہے ۔ اس رپورٹ کے مطابق بھی پاکستان سے 2014 میں غیر قانونی کیش آوٹ فلو مجموعی تجارتی حجم کا “صفر” فیصد ہے! جبکہ 2005 سے 2014 تک غیر قانونی کیش آؤٹ فلو کا مجموعی حجم 4 ارب ڈالر کے قریب تھا ، سو معلوم نہیں ہمارے اخبارات نے یہ 10 ارب ڈالر سالانہ کا فگر کہاں سے حاصل کیا تھا ، جس سے انسپائر ہوکر ہمارے وزیر اعظم اور ان کی عظیم معاشی ٹیم نے ہوائی قلعوں کی ایک پوری کالونی تیار کرلی۔

حکوت کے معاشی ترجمان کا مزید فرمانا تھا کہ پیپرا کےمطابق حکومت کل ملا کر سالانہ 60 ارب ڈالر کے ٹھیکے جاری کرتی ہے ، جس میں سے 50 فیصد خرد برد ہوجاتا ہے! سو 30 ارب ڈالر سال کے یہاں سے مل جائیں گے! اب کوئی مجھ کندھ ذہن کے لئے یہ گتھی سلجھا دے کہ جس حکومت کا سالانہ بجٹ ہی 44 ارب ڈالر کے قریب ہو وہ ایک سال میں 60 ارب ڈالر کے ٹھیکے جاری کر کے اس میں سے 30 ارب ڈالر کیسے خرد برد کر سکتی ہے! دوسرے یہ کہ چلیں ہم آپ کی بات کو من و عن تسلیم کربھی لیتے ہیں تو یہ بتائیے کہ جب آپ نے اس منصوبے کے لئے حکومتی خزانے سے ایک بھی روپیہ خرچ نہ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے تو حکومتی ٹھیکوں میں کرپشن روک کر حاصل کی گئی رقم سے اس پراجیکٹ کی صحت پر کیا اثر پڑے گا؟ ؟؟

پھر آپ مثالیں امریکہ ، ملائیشیا وغیرہ کی دے رہے ہیں جہاں پالیسی ریٹ ہی 4 ساڑھے چا ر فیصد ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اسٹیٹ پالیسی ریٹ اس وقت 8٫5 فیصد ہے ۔ کوئی بھی بینک اس شرح سود سے کم پر کیسے فنانسنگ کرے گا؟ اس وقت بھی کمرشل بینک ہوم فنانسنگ پر کائبور پلس 4 فیصد چارج کررہے ہیں۔ ہم اگر آسانی کے لئے کائبور کو 8٫5 فیصد ہی تصور کرلیں (جبکہ اس وقت طویل مدتی کائبو ر 10٫70 فیصد ہے) تو بھی ان قرضوں پر شرح سود کم از کم 12٫5 فیصد ہوگی۔ بقول (مبینہ) ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب کے ان گھروں میں ڈیڑھ لاکھ روپیہ درخواست کنندہ گان دیں گے جبکہ باقی کی رقم کی فنانسنگ کی جائے گی۔ 180 ارب میں پچاس لاکھ گھروں کا مطلب ہے کہ فی مکان اوسط لاگت 45 لاکھ روپے ہوگی۔ یعنی 43 لاکھ 50 ہزار روپے کا قرض ہوگا۔ اگر اس قرض کی 20 سال کے عرصے پر امورٹائزیشن کی جائے ماہانہ قسط تقریباً 49 ہزار روپے ماہانہ بنتی ہے۔ دعویٰ یہ ہے کہ یہ گھر ایک لاکھ ماہانہ سے کم آمدنی والے افراد کو دیئے جائیں گے، جبکہ ماہانہ قسط اتنی زیادہ ہے کہ ایک لاکھ ماہانہ آمدنی والا بھی نہایت مشکل سے برادشت کرسکے۔ اور پھر ماہانہ قسط کی یہ رقم آج کے ریٹ کے حساب سے ہے۔ طویل مدتی مارگیجز کی سالانہ ری پرائسنگ ہوتی ہے، سو اسٹیٹ بنک کی شرح سود بڑھنے کی صورت میں (جوکہ لازماً بڑھے گی) قسط کی رقم میں مزید اضافہ ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ایک بار پھر عرض ہے کہ یہ خیالی پلاؤ آپ سے کسی نے زبردستی نہیں پکوائے تھے، سو اس قسم کی خام خیالی پر تنقید ہو تو برداشت بھی کریں۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں، معیشت ہاتھ سے نکلتی جارہی ہے۔ اس قسم کے ناقابل عمل منصوبوں پر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے بجائے کوئی ٹھوس تعمیری کام کریں۔ 300 ارب ڈالر ہماری معیشت کا کل حجم ہے، اور آپ 180 ارب ڈالر کے مکانات 5 سال میں بنانے کی باتیں کر رہے ہیں! جب ہمارا جی ڈی پی گروتھ ریٹ 6 فیصد تک بھی پہنچ نہیں پا رہا ہو اور آپ پانچ سال کے دوران معیشت کے نصف سے بھی زیادہ سرمایہ اکٹھا کرکے مکانوں کی تعمیر کے خواب بیچنے لگیں تو ہم آپ کے معاشی پلان کو شیخ چلی سے تشبیہ نہ دیں تو اور کیا کریں؟

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply