خوشوں کا جواب سن کر ہم اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ دُم تو تھی نہیں دَم دبائے ہی آگے بڑھ گئے۔ دروازے پہ تابناک جلی حروف میں جنت الماویٰ لکھا دیکھا تو ہمارا دباّ ہوا دم نکلنے پہ تُل گیا۔ یہ صرف جنت الماویٰ ہی نہیں ، غالب کے ایک شعر کی تشریح بھی ہے
ہم تو منہ اوپر اٹھائے ، آنکھیں موندے اس شعر پہ جھوم رہے تھے۔ نجانے کب دروازہ کھلا اور جنت کے محافظین کا ایک جتھا اپنے ہتھیار تان کر دھمکانے آن پہنچا۔ ہم بہتیرا منمنائے۔ لیکن انہیں یقین نہ آیا۔ انہوں نے ہمیں جنت کی جاسوسی کرنے والا کوئی شیطان سمجھ لیا۔ حالانکہ ہماری شکلوں میں بہت فرق ہے۔ تکرار بڑھی تو شکل پہ چھائی رعونت سے داروغہ نظر آنے والے نے ہم سے شناختی دستاویز طلب کی۔ دوبارہ وہی رام کہانی دہرائی کہ ہم کسی تیاری یا ارادے سے اس طرف نہیں آئے۔ ہم تو بے خبر پڑے سوتے تھے کہ آنکھ کھلنے پر خود کو محوِ سفر پایا
اس اثناء میں وہ چار فرشتے بھی پہنچ آئے۔ ہم نے ان کے منہ کھولنے سے پہلے ہی اپنی بے تابی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حرکت تسلیم کرتے ہوئے کہا ، آپ ہی گواہی دو یہ تو ہمیں مہمانِ خواندہ بلکہ شیطانِ راندہ سمجھ رہے ہیں۔ بتاؤ انہیں کہ ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں
فرشتوں نے آپس میں کچھ گٹ پٹ کی اور ہم سے الزامِ شیطانی رفع ہوا۔ ہم نے سوچا شاید گواہی مل گئی اب ہمیں جنت میں گھسنے کی اجازت ہے۔ سو جنت میں گھسنا چاہا ، لیکن چوکس کھڑے چوبداروں نے پکڑ لیا۔ ہمارے واویلے کے جواب میں بتایا گیا کہ اول تو ہم زندہ سلامت آدمی ہیں۔ جنت میں ہمارا داخلہ ممکن نہیں۔ دوم یہ کہ سیدی مرزا غالب کسی دوسری جنت میں ملاقات کو تشریف لے گئے ہیں۔ آتے ہی ہونگے
نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
سر جھکائے انتظارنے لگے۔ کچھ دیر بعد عود کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی۔ اس کے ساتھ ہی چوبدار کی آواز گونجی: با ادب باملاحظہ ہوشیار
اور ہماری یہ کیفیت کہ جسم کا ایک ایک انگ آنکھ ہونے پہ بضد ہوگیا۔ دل نے پسلیوں سے ٹکرا ٹکرا کے یہ رکاوٹ توڑ کر باہر نکل کر خود یہ منظر دیکھنے کی ضد باندھ لی۔ جگر الگ روہانسا ہوگیا کہ حضرت کو آنکھوں کی راہ سے نہیں خود دیکھنا ہے۔ مدتوں سے پیاسی آنکھیں اپنی ہی تپش کی تاب نہ لاسکیں تو پپوٹوں میں چھپے فوارے چھڑکاو کرنے لگے۔ طب اس کی جو توجیہہ کرے ہماری آنکھیں تو انہیں دیکھنے کیلئے وضو کررہی ہیں
غالب دا دیدار ہے باہو ، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہُووو
رشک ،رشک،رشک
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں