حُسنِ جاناں کی دید ممکن نہیں /رشک ،رشک،رشک(3)۔۔اویس قرنی جوگی

خوشوں کا جواب سن کر ہم اپنا سا منہ لے کے رہ گئے۔ دُم تو تھی نہیں دَم دبائے ہی آگے بڑھ گئے۔ دروازے پہ تابناک جلی حروف میں جنت الماویٰ لکھا دیکھا تو ہمارا دباّ ہوا دم نکلنے پہ تُل گیا۔ یہ صرف جنت الماویٰ ہی نہیں ، غالب کے ایک شعر کی تشریح بھی ہے
ہم تو منہ اوپر اٹھائے ، آنکھیں موندے اس شعر پہ جھوم رہے تھے۔ نجانے کب دروازہ کھلا اور جنت کے محافظین کا ایک جتھا اپنے ہتھیار تان کر دھمکانے آن پہنچا۔ ہم بہتیرا منمنائے۔ لیکن انہیں یقین نہ آیا۔ انہوں نے ہمیں جنت کی جاسوسی کرنے والا کوئی شیطان سمجھ لیا۔ حالانکہ ہماری شکلوں میں بہت فرق ہے۔ تکرار بڑھی تو شکل پہ چھائی رعونت سے داروغہ نظر آنے والے نے ہم سے شناختی دستاویز طلب کی۔ دوبارہ وہی رام کہانی دہرائی کہ ہم کسی تیاری یا ارادے سے اس طرف نہیں آئے۔ ہم تو بے خبر پڑے سوتے تھے کہ آنکھ کھلنے پر خود کو محوِ سفر پایا
اس اثناء میں وہ چار فرشتے بھی پہنچ آئے۔ ہم نے ان کے منہ کھولنے سے پہلے ہی اپنی بے تابی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی حرکت تسلیم کرتے ہوئے کہا ، آپ ہی گواہی دو یہ تو ہمیں مہمانِ خواندہ بلکہ شیطانِ راندہ سمجھ رہے ہیں۔ بتاؤ انہیں کہ ہم آئے نہیں لائے گئے ہیں
فرشتوں نے آپس میں کچھ گٹ پٹ کی اور ہم سے الزامِ شیطانی رفع ہوا۔ ہم نے سوچا شاید گواہی مل گئی اب ہمیں جنت میں گھسنے کی اجازت ہے۔ سو جنت میں گھسنا چاہا ، لیکن چوکس کھڑے چوبداروں نے پکڑ لیا۔ ہمارے واویلے کے جواب میں بتایا گیا کہ اول تو ہم زندہ سلامت آدمی ہیں۔ جنت میں ہمارا داخلہ ممکن نہیں۔ دوم یہ کہ سیدی مرزا غالب کسی دوسری جنت میں ملاقات کو تشریف لے گئے ہیں۔ آتے ہی ہونگے
نفس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
سر جھکائے انتظارنے لگے۔ کچھ دیر بعد عود کی خوشبو نتھنوں سے ٹکرائی۔ اس کے ساتھ ہی چوبدار کی آواز گونجی: با ادب باملاحظہ ہوشیار
اور ہماری یہ کیفیت کہ جسم کا ایک ایک انگ آنکھ ہونے پہ بضد ہوگیا۔ دل نے پسلیوں سے ٹکرا ٹکرا کے یہ رکاوٹ توڑ کر باہر نکل کر خود یہ منظر دیکھنے کی ضد باندھ لی۔ جگر الگ روہانسا ہوگیا کہ حضرت کو آنکھوں کی راہ سے نہیں خود دیکھنا ہے۔ مدتوں سے پیاسی آنکھیں اپنی ہی تپش کی تاب نہ لاسکیں تو پپوٹوں میں چھپے فوارے چھڑکاو کرنے لگے۔ طب اس کی جو توجیہہ کرے ہماری آنکھیں تو انہیں دیکھنے کیلئے وضو کررہی ہیں
غالب دا دیدار ہے باہو ، مینوں لکھ کروڑاں حجاں ہُووو

Advertisements
julia rana solicitors

رشک ،رشک،رشک

صد کیا صد ہزار جلوے روبرو تھے ، ، دید کا احساں بھی اٹھا لیتے ، لیکن طاقت ہی کہاں تھی۔ وہی حال تھا کہ
دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں
ہماری کیفیت سمجھنا مشکل نہیں اگر آپ کبھی روزہ دار رہے ہوں۔ 12 گھنٹے کے بعد وقتِ افطار جو کیفیت ہوتی ہے۔ جتنا کچھ بھی سامنے موجود ہو ، پانی پیتے پیتے ہی پیٹ بھر جاتا ہے۔ اب اس روزے دار کا سوچیے جسے روزہ رکھے صدیاں بیت گئی ہوں۔ پھر وقتِ افطار دل کرے کہ
اے تن میرا چشماں ہووے ، تے میں مرشد ویکھ نہ رجاں ہُوو
جلوہ جاناں سامنے اور ہم پہ مشکل آن پڑی۔ عشق کہے مژگاں اٹھائیے۔ ادب کہے سر کو جھکائیے۔ دل تو حسرت ِ دیدار کی نیاز دیا جاچکا تھا اب سر باقی تھا ہم نے بے تکلف سر ہی حاضر کردیا۔ دستِ شفقت کا لمس محسوس ہوتے ہی سب لکیریں جسم کی گویا رگِ جاں ہوگئیں۔ تُرک لہجے میں فارسی تلفظ والی اردو کان پڑی:سراٹھاؤ بالک ، کیا ہمیں نہ دیکھو گے؟
عرض کی:طور پتھریلا تھا اور موسیٰ اللہ کے برگزیدہ رسول تھے۔ جبکہ میں ایک مشتِ خاک ہوں۔ تاب کیسے لاسکوں گا؟
استاد ہنسے اور شانے پہ تھپکی دیتے ہوئے فرمایا:میر مہدی اور میر جوگی تم دونوں ہمارے خاص رتن ہو۔ ہمارے دل کے بہت قریب ہو۔
اب مدعا سنو!تمہیں یوں اچانک بلوانے کا مقصد ایک خاص پیغام دینا ہے۔ ہم تو خواب میں آکر یہ پیغام دے دیتے ، لیکن کلو کو دفترِ خداوندی سے این او سی لینے بھیجا تو معلوم ہوا کہ تم نے اس معاملے میں بارگاہِ یزداں سے سٹے آرڈر لے رکھا ہے کہ استاد کو چند ثانیوں کیلئے خواب میں نہیں دیکھنا چاہتا ، مجھے اصلی اور دائمی دیدار چاہیے۔ لیکن پیغام کا بروقت پہنچانا بھی ضروری تھا ، اس لیے مناسب سمجھا کہ تمہیں یہاں بلوا کے ذہن نشین کروا دوں۔
سر ہنوز خم اور آنکھیں نم تھیں، عرض گزاری:یا سیدی آپ حکم فرمائیے
فرمایا:رشک سے بھڑک نہ جانا ، معاملہ ہی کچھ ایسا ہے۔ ہماری بٹیا رانی ایشال فاطمہ کی سالگرہ ہے۔ اور اسے مبارکباد کا پیغام پہنچانا ہے۔
اتنا سنتے ہی رشک سے اعصاب جھنجھنا اٹھے۔ جسم کا رواں رواں فریاد بن گیا:-استاد برادرم میر مہدی اور مجھے آپ نے بس فرزندی پہ ٹرخایا۔ ورنہ آپ کی شفقت، محبت ، لاڈ سب بیٹیوں کے حصے میں آئے۔ آپ نے کبھی میر مہدی کو ، باقر علی، حسین علی، ثاقب یا مجھے تو کبھی اتنے لاڈ نہ کروائے جتنے آپ کو منشی نبی بخش حقیر کی صاحبزادی ذکیہ پہ آئے۔

Facebook Comments

جوگی
اسد ہم وہ جنوں جولاں ، گدائے بے سروپا ہیں .....کہ ہے سر پنجہ مژگانِ آہو پشت خار اپنا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply