حلیم دلیم، اور عبدالحلیم۔۔۔۔سید عارف مصطفٰی

اس میں شاید کسی کو اختلاف نہ ہو کہ فی زمانہ مومن اور کافر تا پنجابی و مہاجر کا فرق مٹانے والی واحد شےحلیم ہی ہے جسکے ہوتےمحمود و ایاز ایک ہی میز پہ چپ چاپ بیٹھ جاتے ہیں ۔۔۔ لیکن اب حلیم کوکچھ لوگ دلیم کہنے لگے ہیں تاہم مجھے اس نام میں بہت قباحت محسوس ہوتی ہے کیونکہ دلیم کے صوتی تاثر سے یہ اعتراف جھلکتا دکھتا ہے کہ اس میں دالیں‌ زیادہ اور گوشت کم ہے یوں اس سے میزبان کی نیت و کفایت کا پول برسرعام کھلتا ہوا سا لگتا ہے۔۔۔ لیکن اس سے حلیم کو یا کھانے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ دلیم کہنے کے باوجود حلیم کی دیگ کا ڈھکن اٹھنے کی دیر ہوتی ہے کہ حلیم و دلیم کے جھگڑے مٹ جاتے ہیں اور اسے معدے کے گودام میں اتارنے کے مشتاقان بھی جوق در جوق کھنچے چلے آتے ہیں‌ ۔۔۔ ہربار جتنے کھانے والے پرانے اٹھتے جاتے ہیں اس سے  زیادہ   بیٹھتے جاتے ہیں اور کھانے والوں کا یہ حال کہ  جب تک پیٹ کے اندر حلیم اتنا نہ بھر جائے کہ اس کی سطح اوپر آنکھوں سے نہ جھلکنے لگے انکی مشق دہن جاری رہتی ہے ۔۔۔۔ ویسے میرا مشاہدہ ہے کہ جہاں کہیں حلیم کو دلیم کے نام سے پکایا جاتا ہے وہاں یہ متبادل نام پکارنے کا شوق بھی چند منٹ سے زیادہ نہیں چل پاتا اورلوگ دلیم کی دعوت پہ آتے ہیں اور کھا کھا کے ہانپتے چٹخارتے سسکارتے حلیم حلیم کا تذکرہ کرتے گھر جاتے ہیں-خود پکانے والے تک بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے حلیم نہیں دلیم پکایا تھا-

عام طور پہ یہ بھی ہوتا ہے کہ موقع خواہ کوئی بھی ہو کچھ جذباتی لوگ خصوصاً مذہبی تعلیمات پہ بہت کم عمل کرنے والے افراد ہر معاملے میں مذہب کو گھسیٹ لاتے ہیں اورکسی ادنیٰ سی لسانی لغزش کو بھی شرعی تڑکہ لگاکے سخت اسلامی سزا کے قابل بنا ڈالتے ہیں ، اسی طرح ایک روز  ایک ایسے ہی تقدس مآب میزبان کی طرف سے دعوت دلیم میں مدعو کیا گیا اور  وہاں میں اسے غلطی سے حلیم کہہ  بیٹھا تو وہ بڑے جز بز ہوئے اور کہنے لگے اسے حلیم نہ کہا کریں کیونکہ یہ خدا کا صفاتی نام ہے جس پہ میں نے تجویز پیش کی کہ پھر حفظان ادب کے تحت ہم اسے عبدالحلیم کہہ  لیتے ہیں جس پہ محفل میں موجود ایک صاحب یکایک بھڑک اٹھےاور فرمانے لگے کہ میرا نام بھی عبدالحلیم ہے اور آپکوکوئی حق نہیں کہ مجھے دیگ میں ڈالدیں- جس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ یہ سمجھنا بڑی غلط فہمی ہے کہ حلیم سے طبیعت میں حلیمی فروغ پاتی ہے ۔۔۔ اور جسے مزید یہ غلط فہمی دور کرنی ہو وہ علی الصبح حلیم پکتے ہی اسکی تقسیم کے مناظر خود دیکھ لے۔۔۔۔ تاہم عموماً حلیم مل ملا کے پکائی جاتی ہے اور جہاں بھی یہ پک کے تیار ہوتی ہے وہاں محلے میں آس پاس کم ازکم ایک آدھ صاحب ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہر ایسے موقع پہ بڑی خوداعتمادی سے جیب میں‌ چار یا پانچ لیموں ڈال کے بن بلائے ہی دعوتی کیمپ میں پہنچ جاتے ہیں اور میزبان کو یہ کہتے ہوئے پکڑا دیتے ہیں کہ لو بھئی اسے ڈال کے کھاؤ اور اور کھلاؤ اصلی مزہ تو اب آئےگا ۔۔۔ اگر کوئی یہ بتائے اور دکھائے کہ لیموں تو پہلے سے منگوائے رکھے ہیں تو ترنت فرماتے ہیں ۔۔۔ ارے یہ بھی کوئی لیموں ہیں ۔۔۔ذائقے والے لیموں تو خاص ہوتے ہیں، انکی پہچان بھی ہر کسی کو نہیں ہوتی بہت ڈھونڈنا    پڑتا ہے تب ہی ایسے اچھے لیموں مل پاتے ہیں – اسکے بعد اپنے چند عطیہ کیے  لیموں‌ کے بل پہ وہ تو گویا قیامت ہی ڈھادیتے ہیں اور آناً فاناً آستینیں چڑھاکے حلیم کا ایسا گھمسان لڑنے میں جت جاتے ہیں کہ تادیراپنی پلیٹ میں بنتے حلیم کے ٹیلے اور پہاڑ سبھی کو روند ڈالتے ہیں ۔۔۔
( اس موضوع پہ مزید استفادے کے لیئے میرے مضمون ‘ کراچی کا جغرافیہ’ سے حلیم کے تذکرے کا اقتباس ملاحظہ کیجیئے )

کراچی کی دوسری مشہور ڈش یہاں کا حلیم ہے، اسکی خاص بات اسکا ریشہ ہے۔۔۔ گویا طبعاً بزرگانہ سی ڈش ہے دوکانوں پہ ملنے والی حلیم کا ریشہ اکثر روئی کی ریشہ دوانی کا نتیجہ ہوتا ہے، جس کسی کے گھر میں اگر چند پرانے گدے اور لحاف ہیں تو وہ بخوبی اس کاروبار کی ابتداء کرسکتا ہے، کراچی میں اسے گلی محلےمیں مل جل کرپکانے اورلڑ لڑ کر بانٹنےکی روایت بہت مستحکم ہے۔۔۔ عموماً لڑائی چند “مخصوص’ گھروں پہ ہوتی ہے کہ وہاں حلیم دینے کون جائیگا۔۔۔! حلیم عموماً چندے سے پکایا جاتا ہے جو کبھی پورا پڑتے نہیں دیکھا جاتا،کونکہ جادوئی فارمولے کے تحت جو جتنا کم چندہ دیتا ہے بوقت تقسیم وہی گھرکا سب سے بڑا یعنی نہانے کا پتیلا مانجھ کراٹھائےحاضر ہوجاتا ہے۔۔۔ حلیم کی عمدہ پکائی کا انحصار اسکی گھٹائی پہ ہے جو عموماً اسکے گھوٹنے والے آلے”گھوٹنے ” کی مدد سے کی جاتی ہے اور یہ کام کرنے والے زیادہ تر وہ لڑکےبالے ہوتے ہیں جو اس گھوٹنے کے ہی سائز کے ہوتے ہیں،،،اور اسے گھوٹتےہوئےلٹک لٹک جاتے ہیں ۔۔۔۔ گھر میں ہل کر خود پانی بھی نا پینے والے لاڈلے اینٹوں سے بنے چولہوں میں آگ سلگانے کے لیے  جب بےتحاشا پھونکیں مارتےاور آنکھیں لال کرتے ہیں تو اقبال یاد آتےہیں

ع- ذرانم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

Advertisements
julia rana solicitors

حلیم پکانے کے لیے درکارسامان میں دالیں، گندم گوشت اورگھی تیل کےعلاوہ تاش کی گڈی، لوڈو، میوزک پلیئر اور پان ، گٹکے ماوا و مین پوری کی کئی درجن پڑیاں شامل ہیں ۔۔۔ خواہ دال ، گندم گوشت یا گھی تیل کم رہ جائے لیکن باقی دیگر میں کمی نا ہونے کو یقینی بنایا جاتا ہے۔۔۔ چونکہ حلیم کی تیاری کے دوران بہت لڑائیاں ہوتی ہیں اس لیے حلیم پک جانے کے بعد اگر اس میں گوشت وافر معلوم ہو تو احتیاطاً اسے گھوٹنے والےلڑکوں کوپھر سے گن لیا جاتا ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply