حضرت علی (ر) پر چند اعتراضات اور ان کا جواب۔۔۔ انعام رانا

‫اس مضمون کا مقصد قطعا کوئی فرقہ وارانہ بحث یا علمی رعب جھاڑنا نہیں۔ یہ تو کچھ سوالوں کا جواب ہے محض۔ دوسرا حضرت علی سلام اللہ علیہ کی ذات اس سے بہت بلند ہے کہ مجھ جیسے کے دفاع کی محتاج ہو۔ یہ تو فقط اس بلبل کی سی حرکت ہے جو منہ میں پانی لیے حضرت ابراھیم(ع) کیلیے دہکتی آگ بجھانے کو بھاگتی تھی کہ شمار میں آ جائے۔‬تحریر کی طوالت کیلئیے معذرت مگر یہ مقالہ اس کا متقاضی تھا۔
‫
‬
‫حضرت علی (ر) کے دور خلافت کے حوالہ سے ایک طبقے نے ھمیشہ کچھ اعتراض اٹھاۓ ہیں۔۔‬

‫پہلا اعتراض؛‬
‫حضرت علی(ر) نے بھی تو اپنے ہی رشتہ داروں کو حاکم مقرر کیا۔ ‬

‫یہ اعتراض فقط تاریخ پر سرسری نظر کا نتیجہ ہے۔ حضرت عثمان(ر) پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے اہل خاندان کو حاکم مقرر کیا۔ بلاشبہ حضرت عثمان(ر) اپنے رشتہ داروں کیلیے صلہ رحمی سے کام لیتے تھے اور اسی طبیعت کو مدنظر رکھتے ہوے وقت شہادت حضرت عمر(ر) نے کہا تھا کہ “اگر حضرت عثمان(ر) کو خلیفہ بنا دوں تو وہ ابو معیط کے خاندان کو لوگوں کی گردنوں پر سوار کر دیں گے اور ایسا ہوا تو وہ انکی جان لے لیں گے۔ “(انساب الاشراف بلازری ص ۱6، ۱7)۔ افسوس کے وقت نے یہی دن دکھایا۔ اسی کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت علی(ر) نے بھی تو خاندان والے بھر دیے۔ ‬
حقیقت یہ کہ ایسا ہرگز نہ تھا۔ اسلامی سلطنت کے اہم صوبے شام، کوفہ، بصرہ اور مصر تھے۔ دیکھیں تو اصل صورت کیا تھی۔

‫شام؛‬
‫شام کیلیے حضرت سہیل ابن حنیف کو مقرر کیا گیا۔ یہ معزز انصاری تھے۔ امیر معاویہ کی فوج نے مقرر کردہ گورنر کو رستے سے ہی واپس کر دیا۔ جب حضرت علی(ر) نے بیعت کی دعوت بھیجی تو تین ماہ تک اسکا جواب نہ دیا گیا اور تین ماہ بعد ایک کاغذ پر صرف بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھ کر بھیج دیا گیا۔‬

‫بصرہ ؛‬
‫بصرہ کیلیے آپ نے حضرت عثمان ابن حنیف(ر) کو مقرر کیا۔ جنگ جمل کے بعد یہاں حضرت عبدللہ ابن عباس مقرر ہوے جو حضرت علی(ر) کے شاید سب سے قریبی تھے بحثیت چچا زاد اور دوست۔ حضرت علی (ر) بیت المال کے سلسلے میں اتنے ہی سخت تھے جتنے کہ حضرت عمر(ر)۔ چنانچہ ایک شکایت پر جب ان سے بازپرس کی گئی تو آپ نے ایک سخت جواب دیا، استعفی دیا اور مکہ جا کر بیٹھ گئے۔ انکی جگہ پر بصرہ میں حضرت عمر(ر) کے دور سے موجود زیاد بن سمیعہ کو حاکم لگایا گیا۔ یہ وہی زیاد ہے جسے بعد میں امیر معاویہ نے اپنے والد کا ولد الزنا قرار دے کے بھائی بنا لیا تھا۔ اسی کے بیٹے ابن زیاد کی فوج کے ہاتھوں امام حسین(ر) کی شہادت ہوئی۔ ‬

‫یمن؛‬
‫واحد یمن تھا جہاں اولین تقرریوں میں امیرالمومنین نے اپنے گھر کا کوئی شخص، اپنے چچا زاد حضرت عبید اللہ ابن عباس(ر) کو مقرر کیا۔ امام حسن کے دور میں یہ مخالف کیمپ سے جا ملے تھے۔‬

‫مکہ؛ ‬
مکہ کیلیے بنی مخذوم کے خالد بن عاص کو مقرر کیا۔ اہل مکہ نے بھی گورنر کو قبول نہ کیا۔ بلکہ جنگ کی تیاری کی اور تین ہزار کی جمیعت معزول عثمانی گورنر عبدللہ بن عامر کی یقین دہانی پر بصرہ پہنچ گئی۔

‫کوفہ؛‬
‫کوفہ کیلیے پہلے حضرت عمارہ بن شہاب(ر) کو مقرر کیا مگر اہل کوفہ نے انکار کیا اور اپنے موجود گورنر حضرت ابو موسی اشعری (ر) اور اپنی بیعت بھیج دی سو انھیں برقرار رکھا گیا۔ ‬
حضرت علی(ر) جب کوفہ پہنچے تو دیکھا کہ گو حضرت ابو موسی (ر) نے انکی بیعت کی تھی مگر وہ بطور گورنر انکے لیے حمایت حاصل نہ کر پائے تھے۔ سو انھیں معزول کر کے حضرت قرضہ بن کعب انصاری کو گورنر مقرر کیا۔

‫مصر؛ ‬
‫حضرت قیس بن سعد(ر) کو مصر پر مقرر کیا۔ یہ انصاری معزز و صحابی تھے۔ بعد ازاں انکو معزول کیا گیا مگر یہ امام حسن(ر) کے دور تک حب علی(ر) نبھاتے رہے۔ ‬
مصر میں محمد بن ابو بکر(ر) کا تقرر حضرت علی(ر) کی ایک سیاسی غلطی ہی تصور ہو گی۔ کیونکہ حضرت سعد بن قیس(ر) بردبار صحابی تھے جنھیں امیر معاویہ کسی بھی طرح اپنی طرف نہ کر سکے۔ بلکہ دونوں نے ایک دوسرے کو خطوط میں یہودی ابن یہودی اور بت پرست ابن بت پرست لکھا۔ محمد بن ابو بکر(ر) جذباتی نوجوان تھے اور جنگ میں کود پڑے سو حضرت عمرو بن العاص کی فوج نے مصر فتح کیا اور انکی لاش کو بھی جلا دیا۔

‫سو ہم دیکھتے ہیں کہ دو چچازاد بھائیوں اور ایک سوتیلے بیٹے کی تقرری کے علاوہ تمام اہم تقرریاں غیروں میں ہیں۔ معیار انصاف اور تقوی ہے اور اسکی خلاف ورزی پر بہترین دوست بھی ناراضگی کی قیمت پر قابل مواخذہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ حسنین کریمین (ر) بھی اس وقت اس عمر میں تھے کہ کوئی اہم گورنری پاتے مگر انھیں بھی مقرر نہ کیا گیا اور نہ ہی کوئی بیٹا ولی عہد بنا۔ سو امام علی(ر) پر یہ اعتراض حب معاویہ سے زیادہ بغض علی ہے۔ ‬

دوسرا اعتراض؛
“‫کیا حضرت علی(ر) در پردہ حضرت عثمان (ر) کے قاتلوں میں ہیں؟ کیونکہ قصاص نہ لیا۔”۔‬

‫قصاص کا سوال دراصل اپنے اندر یہ الزام بھی ہے کہ کیا حضرت علی(ر) شہادت حضرت عثمان(ر) میں ملوث تھے؟ سو چلیں یہی پہلے دیکھ لیں کہ کیا وہ ممکنہ طور پر انکے قاتلوں میں تھے؟‬

‫مگر زرا دیکھیے تو وہ حالات کیا تھے جن میں وہ شہادت ہوئی جسکے نتیجے کا عفریت آج بھی جان سے چمٹا ہے۔ حضرت عثمان(ر) نے شاید تبھی کہا تھا کہ اگر مجھے شہید کر دیا تو قیامت تک کبھی ایک مصلے پر نماز نہ پڑھ پاو گے۔ ‬
اوّل تو حضرت علی رض کو ضرورت ہی کیا تھی کہ وہ قریب اسی سال کے ایک بزرگ کو قتل کرواتے جبکہ کچھ عرصہ میں اللہ ویسے ہی انکو اپنی رحمت میں جگہ دیتا۔ حضرت علی(ر) نے تو شیخین کے خلاف بھی کوئی سازش نہ کی جبکہ “لوگ” انھیں بغاوت پر اکساتے رہے۔

‫دوسرا اس وقت کے حالات دیکھیں۔ حضرت علی (ر) تنہا ہی حکومتی پالیسیوں کے مخالف نہ تھے۔ حضرت عثمان (ر) کے مخالف صحابہ میں حضرت ابوزر غفاری، جہجاہ بن سعید، عباس بن عبدالمطلب ، عمار بن یاسر، عمرو بن العاص، عبدللہ بن مسعود اور حضرت علی رضوان اللہ تعالی اجمعین شامل ہیں جن سے کسی نہ کسی موقعہ پر انکا شدید اختلاف رہا۔ ان میں سے کئی صحابہ پٹے، شہر بدر ہوئے، نشانہ دشنام بنے حتی کہ امہات المومنین نے حضور(ص) کے بال اور جوتا نکال کر کہا کہ ابھی تو یہ بھی پرانے نہی ہوے۔ سو ان حالات میں شہر مدینہ میں انکے موافقین کافی کم ہی تھے۔‬

ان حالات میں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ حضرت علی(ر) کے تعلقات حضرت عثمان(ر) کے ساتھ کیسے تھے۔ حضرت علی(ر) انکی اولین بیعت کرنے والوں میں تھے۔ انکی مشورہ کار بھی رہے اور باقی صحابہ کی طرح انکو تنقید کا نشانہ بھی بنایا۔ مگر بغاوت پر لوگوں کو اکسانا کہیں ثابت نہیں۔ جب باغیوں نے خلیفہ پر پانی تک بند کر دیا تو حضرت علی(ر) نے ہی تدبیر کر کے پانی پہنچایا۔ پہلی بار جب باغی آئے تو ان سے مذاکرات کر کے انکو لوٹایا اور دوسری بار بھی کوشش کی۔ حضرت عثمان(ر) نے شہادت سے بلکل قبل حج کیلیے جو خطبہ بھیجا وہ حضرت ابن عباس کے ہاتھ بھیجا جو حضرت علی(ر) کے چچا زاد اور دوست تھے۔ اگر انکو حضرت علی(ر) سے خطرہ ہوتا تو اتنا اہم خط انکے ساتھی کے ہاتھ بھیج کر انھیں امیر حج کیوں مقرر کرتے۔ اور یہ حضرت علی(ر) نے فرمایا لوگوں یاد رکھو میں اسی دن کمزور ہو گیا جب حضرت عثمان(ر) کو شہید کیا گیا
‫(روایت نمبر ۳۹۰۸۸۔ ابن ابی شیبہ۔ )سو باہمی تعلقات کہیں بھی ایسے نہیں کہ قتل کی سازش نظر آئے۔‬

‫اسی نوعیت کی بات حضرت علی(ر) نے امیر معاویہ کے خط کے جواب میں کی جو ابو مسلم لائے۔ فرمایا کہ تم مجھ پر خون عثمان(ر) کا ناحق الزام لگاتے ہو اور قاتل کا مطالبہ کرتے ہو تو میں تو انکا کوئی مقرر قاتل نہیں جانتا۔ میں نے ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی مگر کوئی نہیں ملا۔ پس یہ ممکن نہیں کہ جن پر تم قتل کا گمان کرتے ہو انھیں بھیج دوں۔‬
‫تو پھر قاتل تھا کون؟ بہت سے نام لیے گئے مگر ثبوت کو کچھ بھی نہ تھا۔ سب سے زیادہ مظبوط اشارہ تو حضرت طلحہ(ر) کے بارے میں ہے جو قصاص کا نام لے کر سب سے پہلے نکلے۔ شہادت عثمان (ر) میں ان کا کردار سب سے توجہ طلب ہے۔ جب یہ لوگ بصرہ پہنچے تو اہل بصرہ نے حضرت طلحہ(ر) کے وہ خطوط نکال لیے جن میں انکو حضرت عثمان(ر) کے قتل پر ابھارا گیا تھا۔ پھر ام المومنین (ر) کو جنگ جمل پر لانے والے بھی یہی تھے اور اسی لیے حضرت علی(ر) نے سخت غصے سے کہا تھا کہ اپنی عزت محفوظ رکھ کر رسول(ص) کی عزت ساتھ لے کر نکلا ہے کہ مقصد حاصل کرے۔ پھر انھی حضرت طلحہ کے قتل کا الزام مروان بن حکم پر ہے جو ان ہی کی فوج میں تھا اور جس نے حضرت عثمان (ر) کے بیٹوں سے بھی کہا کہ میں نے تمھارے باپ کا بدلہ طلحہ(ر) سے پورا کر دیا۔ خود مروان کا کردار بھی انتہائی مشکوک ہے۔ اسے حضرت عثمان (ر) نے اپنے حفاظتی دستہ کا لیڈر مقرر کیا۔ حضرت عثمان(ر) سمجھاتے تھے اور یہ نعرے لگا کر بلوائیوں کو بھڑکاتا تھا۔ یہاں تک کہ حضرت نائلہ(ر) نے کہا کہ یہ ہمیں مروا کر چھوڑے گا۔ ‬

‫تیسرا اعتراض؛‬
“‫حضرت علی(ر) نے قاتلین حضرت عثمان(ر) سے قصاص کیوں نہ لیا”۔‬
‫ ‬
‫اب آتے ہیں اس معروف سوال کی طرف جو بہت سے لوگ تاریخ میں مختلف بہانوں سے اٹھاتے رہے۔ سو “نہ انکی ادا نئی نہ اپنی خو بدلی”۔ اس جواب میں ہم تاریخی کے ساتھ ساتھ اس سوال کا قانونی پوسٹ مارٹم کرنے کی بھی کوشش کریں گے۔‬
‫جیسا کہ پہلے عرض کی کہ مدینہ پر باغیوں کے خروج سے قبل حالات کچھ بہت بہتر بھی نا تھے۔ لوگوں میں بے چینی تھی، امہات المومنین اور صحابہ حضرت عثمان(ر) کی پالیسیوں کے شدید ناقد ہو چکے تھے اور انکے مقرر کردہ گورنروں کے اقدامات کی وجہ سے عام عوام میں بھی شدید ردعمل پیدا ہو چکا تھا۔ انھی حالات میں باغی مدینہ پر چڑھ دوڑے۔‬
‫مدینہ پر پہلا حملہ مصریوں نے حج کے قریب کیا۔ مگر حضرت علی(ر) اور کچھ دیکر صحابہ نے مذاکرات کیے اور خلیفۃ المسلمین نے ان سے وعدے کیے۔ چنانچہ یہ باغی لوٹ گئے اور وعدوں کے وفا ہونے کا انتضار کیا۔ کچھ ماہ میں جب وعدے پورے نہ ہوے تو شوال میں باغی دوبارہ آئے۔ مگر اب کی بار مصریوں کے ساتھ کوفی اور بصری بھی تھے۔ پھر مذاکرات کے بعد یہ لوٹے مگر یکدم دوبارہ شہر میں داخل ہوے اور قبضہ کر لیا۔ اسکی توجیہ جو بھی ہو، وہ مدینۃ الرسول(ص) پر اس حملے کا جواز نہیں بن سکتی۔ آخر ہونی ہوئی اور حضرت عثمان(ر) شہید کر دئیے گئے۔ کئی دن کے بعد انصار کے اصرار پر حضرت علی(ر) نے منصب قبول کیا اور باغیوں سمیت اکثریت نے انکی بیعت کر لی۔‬
‫حضرت عثمان (ر) کی شہادت کے وقت صورتحال یہ تھی کہ شہر پر باغیوں کا قبضہ تھا۔ شہید خلیفہ کی تدفین بھی رات کو چھپ کر کی گئی۔ پانچ یا آٹھ دن کے بعد مہاجرین و انصار کی اکثریت کی دعوت پر حضرت علی(ر) نے بیعت عام لی اور امیرالمومنین ہو گئے۔ مگر عملا مدینہ منورہ باغیوں کے قبضے میں تھا اور وہ اسی طاقت میں موجود تھے جس طاقت میں سابقہ خلیفہ راشد کو شہید کیا۔‬
‫اوّل تو اس صورتحال میں ممکن ہی نہ تھا کہ باغیوں سے فوری قصاص لیا جاتا جبکہ وہ خلیفہ سوم کو (نعوذباللہ) ظالم کہ کر انکی شہادت کے حق میں دلائل دیتے تھے۔ دوسرا شہر پر عملا انکا قبضہ تھا اور فوری قصاص کی ضد شاید صرف یہ نتیجہ نکالتی کے حضرت حسن(ر) کو بھی اپنے والد کا قصاص مانگنا پڑتا۔ جذبات کو الگ کر کے سوچیں تو یہ ممکن ہی نہیں تھا فوری طور پر۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ قتل ایک بڑی اور طاقتور جماعت کی بغاوت کے نتیجے میں ہوا۔ اس میں سے فرد کو ڈھونڈنا عملا ناممکن کے قریب تھا۔ کچھ لوگوں نے شک کا اظہار حضرت ابوبکر(ر) کے سگے اور امام علی(ر) کے سوتیلے بیٹے محمد بن ابوبکر پر کیا۔ مگر انھوں نے نا صرف خود انکار کیا بلکہ حضرت عثمان(ر) کی بیوہ، جو شرعا مدعی بھی بنتی ہیں، حضرت نائلہ (ر) نے بھی انکی معصومیت کی گواہی دی۔ پس قاتل باہر سے آنے والوں کی جماعت میں تھا جو اسقدر طاقتور تھی کہ ان سے فورا قصاص ممکن نہ تھا۔ یہی دلیل تب ہوئی جب بصرہ میں حضرت علی(ر) نے حضرت قعقاع ابن عمرو (ر) کو سفیر بنا کر ام المومنین(ر) کے پاس بھیجا۔ جب خون عثمان(ر) کے قصاص پر اصرار ہوا تو حضرت عمرو(ر) نے کہا کہ اس وقت جو حالات ہیں بہتر ہے کہ انکے بہتر ہونے کا انتظار ہو اور پھر غور کیا جائے کہ کون افراد ذمہ دار ہیں۔‬
‫ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نئے خلیفہ کو غیر مشروط اطاعت کے زریعے اتنا طاقتور بنایا جاتا کہ وہ ظالم جماعت سے قصاص طلب کر سکتے۔ مگر افسوس کہ انکے خلاف بغاوت کر کے انکو اسقدر کمزور کیا گیا کہ وہ سیاسی جھگڑوں میں الجھ کر شرعی حکم کو پورا نہ کر سکے۔ بجائے کے خلیفہ کی بیعت کر کے انھیں مظبوط کیا جاتا اور پھر مسلمان مل کر مفسدین کو شرعی سزا دیتے، مکہ اور شام جیسے اہم علاقوں نے بیعت ہی سے انکار کر دیا اور امت کو دو حصوں میں بانٹ دیا۔‬
‫مگر ٹھہریں، کیا قصاص واقعی ایک مطالبہ تھا یا فقط ایک سیاسی نعرہ؟ قصاص کی پہلی آواز مکہ سے اٹھی جہاں حضرات طلحہ و زبیر(ر) بھاگ کر پہنچے۔ ام المومنین حضرت عائشہ(ر) بھی وہیں موجود تھیں۔ ابھی تک کہیں بھی مجھے یہ نہیں ملا کہ ان کی جانب سے کوئی وفد قصاص کا مطالبہ لے کر امیرالمومنین کے پاس آیا اور انھوں نے جھٹلا دیا۔ پھر یہ حضرات تین ہزار کی جمیعت لے کر بصرہ کو چل نکلے اور لوگوں کو قصاص پر ابھارتے رہے۔ بہت ہی قابل غور بات ہے کہ اگر قصاص مقصود تھا تو بصرہ والوں نے جب حضرت طلحہ(ر) کے خطوط پیش کر دیے جو اس قتل پر ابھارتے تھے، تو ان کے خلاف کاروائی کیوں نہ ہوئی۔ کیا جنگ جمل سے پہلے مدعیان قصاص نے اپنے ہی ساتھی سے پوچھا کہ صفائی پیش کرو کہ قصاص تمھاری طرف ہی نہ نکلتا ہو۔ دوسرا ان ہی کی فوج کا مروان ساری عمر کہتا رہا کہ طلحہ(ر) کے بعد میں نے کسی سے حضرت عثمان(ر) کا قصاص طلب نہیں کیا۔ پھر دوران جنگ حضرت طلحہ و زبیر(ر) کا یہ کہنا کہ “یا علی(ر) ہم نے آپکی بیعت مجبوراً کی ورنہ ہم خلافت کے کم حقدار نہ تھے” بھی کافی کچھ واضح کرتا ہے۔ اور یہ تو کہیے کہ اگر قصاص واقعی مبنی بر شریعت دعوی تھا تو جو جمل کے بعد لوٹ گئے اور پھر قصاص طلب نہ کیا، کیا وہ شریعت کے دعوی سے ہٹ گئے تھے؟ شاید صورتحال کی بہترین تشریح وہ جملہ ہے جو حضرت علی(ر) نے حضرت طلحہ(ر) سے کہا کہ “اپنی عزت محفوظ رکھ کر رسول(ص) کی عزت ساتھ لے کر نکلا ہے کہ مقصد حاصل کرے”۔‬

‫دوسری جماعت جو مدعی قصاص بنی وہ اہل شام کی تھی۔ یہاں یہ نقطہ بہت اہم ہے کہ تین ماہ تک شام سے نہ بیعت بھیجی گئی اور نہ ہی قصاص کا کوئی دعوی۔ جب جمل ہو چکا اور حضرت علی(ر) نے بیعت سے منکرین پر چڑھائی کا ارادہ کیا تو سفیران کے آمدورفت میں قصاص کی بات اٹھی۔ امیر معاویہ کے خط کے جواب میں حضرت علی(ر) نے صاف کہا کہ وہ یوں ہی شبہ میں تمام لوگ نہیں بھیج سکتے۔ اب یہاں بھی دیکھیے کہ جنگ صفین کے بعد جب حکم مقرر ہوے تو قصاص پھر ندارد۔ صلح کے معاہدے کے تحت حکم مقرر ہوے مگر معاہدے کی کوئی شک صاف طور پر قصاص کا مطالبہ نہیں کرتی اور نہ ہی مقررشدہ دونوں حکم کو قصاص لینے کا اختیار دیتی ہے۔ ایک نقطہ جسکا جواب آئیں بائیں شائیں ہی ہوتا ہے کہ امیر معاویہ جب امام حسن(ر) سے معاہدے کے بعد حاکم ہوے تو اپنے پورے دور حکومت میں کب اس قتل کا قصاص لیا؟ کچھ کہ دیتے ہیں کہ انھوں نے بہت سے لوگ قتل کیے اس جرم میں۔ اوّل تو زرا کچھ کے نام ہی دے دیں۔ دوم کوئی حوالہ کسی عدالتی کاروائی کا جس میں قاتل پر قتل ثابت ہوا۔ تیسرا، اگر صرف شبہ میں ہی لوگ مار دئیے تو پھر اس فیصلے کی شرعی حیثیت کیا ہو گی؟ ‬
اب تک کے بات سے تو یہی لگتا ہے کہ قصاص کا نعرہ دینی مطالبے سے زیادہ ایک سیاسی ہتھیار ہی تھا۔

‫صفین میں ہوئی بدعہدی نے حالات کو اور خراب کیا اور ایک نئی جنگ کی تیاری شروع ہوئی۔ اسی دوران خوارج کا فتنہ اپنی شدت پر کھڑا ہو گیا اور خلیفۃ المسلمین کو ان باغیوں کے خلاف جنگ نہروان لڑنی پڑ گئی۔ اس تمام تر ابتری میں یہ ممکن ہی نہ تھا کہ قاتل کی تلاش ہوتی یا پھر اس سے قصاص لیا جاتا۔‬
‫باغی مصری، بصری، شامی اور کوفی تھے۔ ایک نہایت اہم سوال یہ ہے کہ گورنر کہاں تھے اور بغاوت انھی کے علاقوں سے آئی تو آخر انھیں خبر کیوں نہ ہوئی۔ آخر امداد کیوں نہ آئی امیر المومنین کو بچانے۔ مصر میں عبدللہ بن سعد، کوفہ میں ابو موسی اشعری، بصرہ میں عبدللہ بن عامر اور شام میں امیر معاویہ حکمران تھے۔ یہ سب بغاوت سے واقف تھے۔ انکو حضرت عثمان(ر) کے خطوط بھی ملے۔ یہ سب حضرت عثمان(ر) کے مقرر کردہ اور رشتہ دار تھے۔ تو پھر یہ غفلت و خاموشی کیوں۔ حتی کہ قریب ترین مکہ میں بھی سکوت ہی رہا۔ کیوں امیرالمومنین کو بچانے کوئی نہ آیا؛ حتی کہ شہادت کے بعد تک بھی کوئی امداد نہ پہنچی کہ پہنچ کر باغیوں کو بےبس کرتی اور قاتلوں کو سزا ملتی۔ کیا قصاص کا نعرہ دراصل اسی نااہلی کی جوابدہی سے بچنے کی کوشش تو نہ تھی؟‬
‫اب دیکھتے ہیں کہ حضرت علی(ر) قصاص لیتے کس سے؟ انگریزی میں ایک اصطلاح موب سائیکی استعمال ہوتی ہے۔ ہجوم جب کوئی کام کرتا ہے تو اسکا ذہنی رجحان دراصل ایک شخص کے تابع نہیں ہوتا۔ مجمع میں موجود افراد کی انفرادیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ فقط ایک ہجوم بن کر کوئی عمل کر جاتے ہیں۔ ایسے میں اس اجتماع میں موجود کئی لوگ شاید وہ کرنا بھی نہیں چاہتے جو ہو جاتا ہے۔ ہم اب بھی اسکی مثال دیکھتے ہیں کہ مجمع نے توہین قرآن پر کہیں دھاوا بولا اور ملزم قتل ہو گیا۔ اب آپکو قاتل ڈھونڈنا ہو تو ڈھونڈ اسے چراغ رخ زیبا لے کر۔ آج تو ٹیکنالوجی ترقی کر چکی اور سی سی ٹی وی بتا سکتا ہے کہ پٹرول کس نے ڈالا، آگ کس نے لگائی یا کون فقط کھڑا گم سم جلتے ہوے کو دیکھ رہا تھا۔ مگر سوچئے چودہ سو سال قبل اس سینکڑوں کے ہجوم میں سے کیسے تلاشا جاتا کہ خنجر کس نے چلایا۔ ضروری تھا کہ اس کی باقاعدہ تفتیش ہوتی مگر افسوس اس کا موقع ہی نہ بن سکا۔ سو حضرت علی(ر) کو قصاص نہ لینے کا الزام دینا محض بغض ہی ہو سکتا ہے۔‬
‫آئیے زرا قانونی نظر سے بھی دیکھیں۔ قصاص اسلامی قانون کا ایک اہم اصول ہے۔ اسی لیے کہا گیا کہ قصاص میں زندگی ہے۔ اگر قصاص ایک قانونی اصول ہے تو اسکا ضابطہ یا پروسیجر بھی قانون ہی دیتا ہے۔آقا(ص) اور انکے بعد انکے خلفا/ امیرالمومنین ہی حاکم اور قاضی تھے۔ مقدمات انکے پاس لائے جاتے اور انکا فیصلہ اسلامی قانون کے مطابق کر دیا جاتا۔ مجھے تو اس پاک دور میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ کوئی گروہ خود ہی قصاص لینے چل پڑا ہو۔ بلکہ ہمیشہ پروسیجر کو فالو کیا جاتا تھا۔ چنانچہ قاضی کی عدالت کو مان کر وہاں استغاثہ کرنے کے بجائے یہ کہنا کہ جن پر ہمیں شبہ ہے وہ ہمیں دے دو، یہ بذات خود اصول قانون کی نفی ہے۔‬
‫پہلا سوال تو یہ کہ شرعی طور پر مدعی تھا کون۔ میں کوئی عالم تو نہیں مگر محدود علم کے مطابق یہ دعوی حضرت عثمان(ر) کے گھر والوں کو کرنا تھا۔ جس میں انکی زوجہ حضرت نائلہ (ر) یا سترہ بچے تھے۔ کہیں بھی یہ نہی ملا کہ انھوں نے دعوی کیا ہو یا انکے دعوی قصاص کو ٹھکرایا گیا ہو۔ مجھے سمجھ نہی آتا کہ گھر والوں کی موجودگی میں انکے بجائے قصاص کا مطالبہ انھوں نے کیوں کیا جو حضرت عثمان(ر) کے اہل بیت نہ تھے۔ کیا انکے اہل بیت کو قصاص سے کوئی دلچسپی نہ تھی؟‬
‫سو پہلے تو ضروری تھا کہ مدعی عدالت میں دعوی کرتا۔ جبکہ یہاں تو صورتحال یہ تھی کہ عدالت کے وجود کو ہی ماننے سے انکار کر دیا گیا بیعت ٹھکرا کر۔ دوسرا کہیں بھی کوئی حوالہ نہیں کہ امیرالمومنین کی عدالت میں استغاثہ کیا گیا ہو۔ اگر کوئی استغاثہ کرتا بھی تو شرعی اصول کے مطابق حضرت علی(ر) کو مقدمہ چلانا ہوتا، تفتیش کرنی ہوتی، ذاتی اور واقعاتی شہادتوں کو پرکھنا ہوتا اور پھر کسی ثابت شدہ ملزم پر حد نافذ کرتے۔ جبکہ یہاں نہ تو کسی نے استغاثہ کیا، اور نہ ہی کوئی ٹھوس شہادت پیش کی۔ سو یہ مقدمہ ممکن ہی نہ تھا۔ کیا آپ باب العلم اور خلیفۃ الرسول(جو بچپن سے آقا {ص} کے تربیت یافتہ تھے) سے بھی یہ توقع کرتے ہیں کہ فقط شبہ میں ہزاروں قتل کر دیتے؟‬
‫یہاں یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ حضرت علی(ر) نے خود ہی بطور امیرالمومنین قصاص کیوں نہ طلب کر لیا۔ تو اوّل تو جیسا کہ پہلے کہا جا چکا کہ انکو وہ سیاسی اطاعت ہی نہ دی گئی جو اسکی قوت دیتی۔ دوسرا، سیاسی ابتری اور مسلسل جنگوں نے انکو یہ موقع ہی کب دیا کہ اس قتل کی تفتیش کرتے جس نے اس فتنۃ الکبری کی بنیاد رکھی۔ مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی(ر) نے کوشش کی۔ اسکا پہلا ثبوت تو تب ہے جب محمد بن ابو بکر پر تفتیش ہوئی اور خود حضرت نائلہ (ر) نے انکی بے گناہی کی گواہی دی۔ دوسرا ثبوت حضرت علی(ر) کا وہ خط ہے جو انھوں نے امیر معاویہ کو لکھا کہ میں نے بہت کوشش کی مگر مجھے کوئی قاتل نہیں ملا۔ میں امام علی(ر) کے اس بیان کو سچ مانتا ہوں؛ کیا آپ نعوذباللہ انکو جھوٹا بھی مانیں گے؟‬
‫قانون کی زبان میں قصاص کا مقدمہ کبھی لڑا ہی نہیں گیا بلکہ فقط چوک چوراہوں میں بیان بازی ہوئی۔ اور عدالت چوراہوں میں لگے نعروں ہر مقدمے فیصلہ نہیں کرتیں۔‬
‫مجھے امید ہے کہ میں اس سوال کا جواب دے پایا ہوں کہ حضرت علی(ر) خون حضرت عثمان(ر) کا قصاص لینے میں ناکام کیوں رہے۔ ‬
‫ ‬
‫ ‬

‫چوتھا اعتراض؛‬
“‫کیا حضرت علی(ر) کی جنگیں فقط اقتدار کی خواہش تھیں‬”

‫ ‬
‫امیرالمومنین کی لڑی جنگیں بذات خود یہ بتاتی ہیں کہ وہ فقط اصلاح کی کوشش ہیں۔ حکومت کے پھیلاو کی خواہش نہیں۔‬
‫حضرت علی(ر) جن حالات میں خلیفہ منتخب ہوے اس میں بھی بیعت کو شدت سے نافذ نہیں کیا گیا۔ حضرت عبدللہ بن عمر (ر) اور کچھ صحابہ نے بیعت نہیں کی مگر ان کو مجبور نہیں کیا گیا۔ صرف حضرت طلحہ و زبیر(ر) کو اشتثنا نہیں ملا کہ وہ خود امیدوار تھے۔ پھر ام المومنین (ر) اور بہت سے لوگوں نے مکہ میں بیعت نہیں کی بلکہ بیعت کا پروانہ اہل مکہ نے چاہ زمزم میں پھینک دیا۔ مگر مکہ پر کوئی لشکر نہیں بھیجا گیا(جیسے بعد میں بھیجے گئے)۔ شام نے تین ماہ تک بیعت کا جواب ہی نہ دیا مگر کوئی فوری کاروائی نہیں ہوتی۔‬
‫آئیے دیکھیں کہ حضرت علی(ر) مدینہ سے حضرت حسن(ر) اور کچھ دیگر ساتھیوں کی مخالفت کے باوجود بصرہ کو نکلے کیوں۔ حضرت علی(ر) کا بصرہ کی طرف نکلنا بااردہ جنگ نہ تھا۔ آپ کی خلافت کے بعد بہت سے لوگ مکہ میں جمع ہو گئے جن میں وہ عثمانی گورنر تھے جنکو معزول کیا گیا، اہل مدینہ تھے جو حج پر گئے اور شہادت عثمان(ر) کی خبر پا کر مکہ رک گئے۔ حضرت طلحہ(ر) اور زبیر(ر) تھے جو بیعت کے باوجود مکہ جا کر مخالفت میں جت گئے اور ان میں سب سے ممتاز شخصیت ام المومنین حضرت عائشہ سلام اللہ علیہ کی ہے۔ ان میں سے اکثر شخصیات خود حضرت عثمان(ر) کی مخالف تھیں اور اعتراض اٹھاتی رہیں مگر خلیفہ بزرگ کا یوں مظلوم شہید ہو جانا انھیں ناگوار گزرا اور بلاشبہ حضرت علی(ر) سے ذاتی ناپسند کا بھی اہم رول تھا۔ اب یہ لوگ قصاص کا پرچم اٹھا کر بجائے مدینہ آنے کے، معزول گورنر بصرہ عبدللہ بن عامر کی یقین دہانی پر بصرہ کو نکل پڑے۔ اس صورتحال میں حضرت علی(ر) بھی نکلے اور ان کا مقصد جنگ نہیں بلکہ انکو سمجھا کر واپس لانا تھا۔ جیسا کہ انھوں نے خود اپنے ساتھیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ مقصد بھائیوں سے ملاقات اور انکو واپس لانا ہے۔ اور میں جنگ شروع نہ کروں گا۔‬

‫بصرہ میں جنگ جمل سے قبل بھی حضرت علی(ر) کا رویہ مسلسل انکو منانا اور واپس لانا تھا۔ مکہ سے آنے والوں نے بصرہ کا بیت المال لوٹ لیا اور کئیوں کو قتل کر دیا۔ اسکے باوجود جب لشکر علی(ر) آیا تو صلح کی بات کی۔ بعض روایات کے مطابق تو تین دن تک مذاکرات ہوے۔ حضرت علی(ر) نے حضرت قعقاع ابن عمرو (ر) کو سفیر بنا کر ام المومنین(ر) کے پاس بھیجا۔ روز یوم جمل بھی حضرت علی مسلسل صلح کی کوشش میں رہے۔ ام المومنین(ر) کے لشکر میں موجود حضرت کعب(ر) کی کوشش بھی یہی تھی کہ صلح ہو جائے۔ مگر جب یہ طے ہو گیا کہ وہ نہ مانیں گے تو قرآن کے حکم کے مطابق قتال ہوا۔ ‬
‫دوران جنگ بھی حضرت علی(ر) تاسف کا شکار نظر آتے ہیں کہ انکو اپنی ہی مسلمان بھائیوں کو قتل کرنا پڑ رہا ہے۔ حضرت سلیمان بن صرد(ر) نے امام حسن(ر) سے روایت کی کہ حضرت علی(ر) نے یوم جمل فرمایا کہ میں پسند کرتا ہوں کہ اس دن سے بیس سال قبل فوت ہو جاتا۔ ( روایت نمبر ۳۸۹۸۷۔ ابن ابی شیبہ۔ )۔ پھر دیکھیے کہ جنگ کے دوران اعلان کیا کہ ہتھیار پھینکنے والے اور بھاگنے والے کے پیچھے نہ جاو۔ جب جمل/اونٹ گرا تو محمد بن ابوبکر(ر) سے کہا کہ ام المومنین (ر) کی خیریت لو، انکو احترام سے ایک گھر میں منتقل کیا۔ کسی بھی مقتول کا مال غنیمت میں نہ لینے دیا اور جنگی قیدیوں کے ہتھیار اور نہ لڑنے کی ضمانت لے کر چھوڑ دیا۔ جب کچھ ساتھیوں نے کہا کہ آپ انکی جانیں تو حلال کرتے ہیں اور مال حرام تو شدید غصے میں کہا کہ کیا حضور(ص) کا حرم تمھیں دے دوں۔ لوگوں نے کہا وہ تو ہماری ماں ہیں تو فرمایا پھر انکی بیٹیاں تم پر کیوں حلال کروں؟ (حوالہ ابن ابی شیبہ)۔‬

‫دوسری جنگ حضرت علی(ر) کو صفین کی لڑنی پڑی۔ جمل اور صفین میں کافی وقت ہے جسکے درمیان مفاہمت کی کوشش رہی۔ مگر ایک تو تمام ذاتی ناپسند والے شام میں جمع ہوتے گئے اور دوسرا یہ واضح ہو گیا کہ مقصد فقط سیاسی ہے تو جنگ کا فیصلہ ہوا۔ اس جنگ میں بھی حضرت علی(ر) کی کوشش مصالحت ہے۔ جنگ ایک روز نہیں بلکہ ایک عرصہ چلی۔ ون ٹو ون اور قبیلہ در قبیلہ مقابلے ہوے اور اس دوران محرم کے وقفے اور دوران جنگ بھی مذاکرات کی کوشش ہوئی۔ کتنے ہی لوگ حضرت عمار بن یاسر(ر) کو حضرت علی(ر) کی فوج میں دیکھ کر سمجھ گئے کہ باغی جماعت کون ہے اور حضرت علی سے آن ملے۔ جب کچھ بھی کام نہ آیا تو جنگ عام ہوئی۔ دوران جنگ جب مسلمان بے شمار قتل ہونے لگے تو امام علی(ر) نے افسوس سے ہونٹ کاٹتے ہوے کہا کہ اگر میں جانتا کہ معاملہ یہاں تک پہچ جائے گا تو میں ہرگز نہ نکلتا، اے ابو موسی جاؤ اور ہمارے درمیان فیصلہ کرو خواہ میرا سر ہی کیوں نہ دینا پڑے۔ (روایت نمبر ۳۹۰۰۷۔ ابن ابی شیبہ۔ )۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب قرآن نیزوں پر اٹھائے گئے تو جنگ جیتتے حضرت علی(ر) نے طوعا کرعا جنگ روکی اور مذاکرات شروع ہوے اور حکم مقرر ہوے۔ اب ان حکم کا کردار کیا رہا یہ ایک علہدہ بحث ہے۔‬
‫تیسری جنگ جو حضرت علی(ر) پر مسلط کی گئی وہ جنگ نہروان ہے۔ صفین میں جنگ روکنے اور مذاکرات کرنے پر امام کے اپنے ہی لشکر سے کچھ لوک “لا حکم الا اللہ” کا نعرہ لگا کر علہدہ ہو گئے۔ شروع میں ان سے درگزر کیا گیا۔ یہ لوگ اعلانیہ حضرت علی(ر) کو نعوذباللہ کافر یا مشرک کہتے تھے اور امیر معاویہ کو بھی۔ یہ لوگ دوران نماز نعرے لگاتے اور مسلسل ابتری کی کوشش کرتے۔ مگر پھر انھوں نے صحابہ کو بھی شہید کرنا شروع کر دیا تو انکو اللہ کے حکم کے مطابق سزا دینے کے ارادے سے جنگ کی گئی۔ اسی جنگ میں ایک باپ لشکر علی(ر) میں تھا اور بیٹا خارجی بن کر مارا گیا۔ اگر یہ فقط اقتدار کی جنگ ہوتی تو باپ بیٹے کے خلاف کھڑا نہ ہوتا۔‬
‫سو یہ صاف ظاہر ہے کہ حضرت علی(ر) کی جنگیں اقتدار کی ہوس نہیں اصلاح کو کوشش اور منصب خلافت کی توقیر کی بحالی کے مقصد سے تھیں۔ ان جنگوں میں نبوی(ص) اخلاق کا مظاہرہ ہوا۔ بار بار صلح کی دعوت دی گئی اور مقتولین پر کوئی کفر کا فتوی نہ لگایا گیا اور نہ ہی لاشوں کا مثلہ ہوا۔‬

‫پانچواں اعتراض: حضرت علی رض فتوحات نا کر پائے

 

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے کچھ دوست یہ طنز بہت دیدہ دلیری سے کرتے ہیں کہ انکے دور میں “اسلام کی ترقی رک گئی کیونکہ کوئی ایک انچ زمین بھی مزید فتح نا ہوئی”۔ اوّل تو اوپر بیان کردہ حالات میں جب گھر والے ہی اپ کے خلاف ہو جائیں تو باہر والوں سے کیا لڑا جاتا۔ دوسرا یہ حضرات اس طنز کی وجہ سے اسلام پہ تلوار کے زور پر پھیلاؤ کا الزام دراصل مان رہے ہوتے ہیں۔ یعنی اگر ریاستی تلوار نا ہو تو اسلام پھیلنا بند ہو جاتا ہے؟ تیسرا یہ اصحاب اس سوال پہ توجہ نہیں دیتے کہ کیا “زمینیں فتح کرنا” جناب علی رض کے نزدیک “اسلام کی ترقی” تھا بھی یا نہیں؟ شاید وہ دعوت کی بنیاد پر اسلام کی نبوی تبلیغ کو برقرار رکھنا چاہتے تھے۔ پھر اسلام کی اس “زمینی تبلیغ” کے نتائج ہولناک نکلنا شروع ہو گئے تھے اور شاید حضرت علی رض یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ قبائلی جیورسڈکشن کی حامل خلافت، زرعی معاشرے کی آلودگی کا شکار ہو۔ چنانچہ یہ طعنہ نہیں توصیف کی بات ہے۔ ‬

‫حکومت اگر فقط اختیار اور مالی فوائد کا نام ہے تو حضرت علی(ر) امیر معاویہ کا ایک گورنر بن کر اس سے زیادہ فائدے میں رہتے کیونکہ خود انکا اپنا تمام اقتدار تو دوستوں اور دشمنوں سے تکلیف اٹھاتے ہی گزرا نا کہ اقتدار سے وابستہ فوائد کا لطف اٹھاتے جیسا کہ بعد میں ہوا۔ امام علی(ر) کی جنگیں آخری کاوش تھیں خلافت کو ملوکیت میں بدلنے کے خلاف اور خلافت کو بطور وراثت نبوی(ص) کے برقرار رکھنے کی۔ ‬

‫انعام رانا‬

Advertisements
julia rana solicitors london

‫ ‬

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 3 تبصرے برائے تحریر ”حضرت علی (ر) پر چند اعتراضات اور ان کا جواب۔۔۔ انعام رانا

  1. تحریر میں جب حضرات صحابہ علیہم الرضوان کے نام آۓ تو فقط (ر) لکھا گیا جو بذات خود ایک قابل اعتراض عمل ھے

  2. المیہ تو یہ ہے کہ آپ لوگ سیاست کی الف ب سے واقف نہیں اسی ناواقفیت کا نتیجہ اس طرح کے مضمون ہیں جو حقیقت سے زیادہ افسانہ نگاری کے ضمن میں داخل کر نے چاہیے۔

Leave a Reply