چیف جسٹس، گونگی ججی اور اک بے نام قوم

بھائی لال چند لندن میں رہتا سندھی ہے، اینتھروپولوجسٹ ہے، ہندو ہے، سندر ہے اور شاندار انسان ہے۔ شرارتی آنکھوں اور سدا بہار مسکان کے ساتھ جس سے ملتا ہے گرویدہ کر لیتا ہے۔ جام پر جام لنڈھاتا ہے اور کہتا ہے “سائیں، آپکو تو جنت میں بھی مل جائے گی، مجھے تو یہیں پی لینے دو”۔ غرض کہ لال چند کے ساتھ آپ بور نہیں ہوتے۔
لال چند سندھ سے پنجاب گیا، ٹرین میں ملتان سے آگے اک ہمسفر سے گفتگو چلی اور حسب توقع لال چند نے اجنبی ہمسفر کا دل موہ لیا۔ اچانک وہ بولا، بھائی اپ نے نام نہیں بتایا؟ لال چند نے نام بولا تو اجنبی جھٹکے سے کھڑا ہوا اور چلایا، آپ ہندو ہیں؟ اب لال چند نے ہاتھ جوڑے اور بولا جی۔ اجنبی نے اتنی ہی آواز میں کہا “آپ نے بتایا کیوں نہیں، میں پہلی بار لائیو ہندو دیکھ رہا ہوں”۔ اتنے میں لال چند کا وہ نکل چکا تھا جسے پنجابی میں تراہ کہتے ہیں اور جسکے نکلنے کی “تراہ نکلنے” سے بہتر تعریف ممکن نہیں۔ لال چند اجنبی کی تھوڈی پر ہاتھ رکھ کر گھگھایا “سائیں بیٹھ جاو، ہندو ہے کہ میچ ہے جو لائیو چل رہا ہے”۔ اجنبی بیٹھ تو گیا مگر بولا بھائی آپ نے میرے ساتھ میرے گھر چلنا ہے پلیز ہم سب نے کبھی زندہ ہندو نہیں دیکھا۔ لال چند کو “زندہ ہندو نہیں دیکھا” سے اتنا خوف آیا کہ پیشاب کے بہانے اگلے ہی سٹیشن پر اتر گیا اور ٹرین بدل کر لاہور پہنچا۔
آپ کیا سمجھے لال چند کو مسلئہ ہندو نام سے ہوتا ہے؟ تو سنیے زرا۔ لال چند جو ٹرین کے واقعہ سے ڈرا ہوا تھا، اک اور اجنبی کو نام بتانے سے کافر ہوا، بولا جی آصف نام ہے۔ سر منڈاتے اولے، اتنے میں اذان ہو گئی۔ اب اجنبی لال چند کو مجبور کر رہا ہے کہ “آئیے آصف صاحب، نماز پڑھیں” اور لال چند دل میں “رام موری لاج رکھیو بلکہ جان بچاو” کا جاپ کر رہا ہے۔ شکر ہے اجنبی نے دوڑ کر وضو کر آنے کی اجازت دی اور لال چند آج تک دوڑا ہوا ہے۔ شاہ عنایت کا مرید، بات بات پر اللہ کا نام لینے والا لال چند کیا واقعی لال چند ہے؟ نہیں وہ تو بے نام ہے۔ نا لال چند بند کر بچتا ہے نا آصف۔
میرے وطن کے چیف جسٹس پہنچے کوئٹہ اور آٹھ اگست کے سانحہ پر آنسو بہائے۔ جسٹس ثاقب نثار کو آج سے نہیں جانتا۔ نیا نیا وکیل جسٹس قیوم کا جونیئر تھا اور ہمارے دفتر کے اوپر جسٹس ثاقب کے والد مرحوم کا چیمبر تھا۔ کتنی ہی بار ہم جسٹس ثاقب کی عدالت بھیجے جاتے تھے کہ کچھ سیکھیں اور واقعی آپ قابل جج ہیں، یا کم از کم تب تو تھے۔ مگر شاید مقرر کبھی بھی اچھے نا رہے ہوں گے کہ مقرر اور قاضی، دونوں لفظ کی اہمیت جانتے ہیں۔ نجانے کوئٹہ کے شہید وکیلوں کو یاد کرتے چیف کو معاشرتی علوم میں پڑھا دو قومی نظریہ کیسے یاد آ گیا۔ اور یاد آیا تو یہ کیوں بھول گئے کہ ستر سال پرانا تو فیصلہ بھی سوچ سمجھ کر بطور نظیر استعمال کیا جاتا ہے۔ ارشاد ہوا کہ “اس خطے میں دو قومیں تھیں، ایک مسلمان، اور دوسری کا تو میں نام بھی نہیں لینا چاہتا”۔ نجانے کیا کہنا چاہتے تھے اور کیا کہہ گئے، افسوس اب ہمارے ججوں کے تو فیصلے سمجھ نہیں آتے، تقریریں کیا خاک آئیں گی۔
جناب اعلی و عظمی، “وہ” جن کا آپ نام بھی نہیں لینا چاہتے اب اس قوم کا حصہ ہیں اور انکا درد ہی یہ ہے کہ انکا نام نہیں لیا جاتا۔ وہ عائلی قوانین سے محروم ہیں، انکی کم سن بیٹیاں اچانک مسلمان ہو جاتی ہیں اور پھر گھر والوں سے کبھی نہیں ملتیں، انکے کاروبار برباد ہو جاتے ہیں، وہ ہندوستان نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور وہاں پاکستانی کہہ کر دھتکارے جاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود انکی آواز نہیں سنی جاتی، کیونکہ کوئی انکا نام نہیں لینا چاہتا۔ اس ملک میں آپ ہی تو انکی امید ہیں، خدارا اگر آپ بھی انکا نام نہیں لینا چاہتے تو ایسی “گونگی ججی” راون کا پتلا سمجھ کر جلا دیجیے۔ آپ انکے ان داتا ہیں، انصاف کے بھگوان ہیں اور ظلم کی آندھی میں امید کا دیا ہیں۔ اپنے الفاظ پر غور کیجیے اور پوری کمیونٹی سے معافی مانگئیے۔
ایک منصف اپنے ہی وطن کی اقلیت کا نام نا لے سکے تو کون سے ناول کا کون سا جملہ لگے گا، زرا اپنے ایک ماتحت جج سے پوچھ لیجیے گا۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 12 تبصرے برائے تحریر ”چیف جسٹس، گونگی ججی اور اک بے نام قوم

  1. خوبصورت انداز میں معاملہ اور اسکی سنگینی سمجھائی ہے آپ نے۔ پتہ نہیں ہم بحیثیت قوم کب بڑے ہونگے اور کب حقائق کا سامنا کریں گے ۔

  2. بہت عمدہ تحریر بہت اہم ایشو پر۔ اب اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ عدل وانصاف کے اداروں میں فیصلے قانون کے بجائے جذبات کو مدنظر رکھ کر کئے جارہے ہوتے ہیں۔ جج حضرات کا اگر یہ رویہ رہا تو معاشرہ میں انصاف کس سے مانگیں گے؟ مذہبی حوالے سے ہمارے معاشرے کا حتی تعلیم یافتہ طبقہ بھی عقل ودلیل کی بجائے جذباتی ہو کر سوچتا ہے

  3. واقعی چیف جسٹس نے ایسے ہی کہا ..؟ یقین نہیں آرہا ….اگر پاکستان کا جج اس قدر نا اہل ہوسکتا ہے تو وزیر اعظم تو پھر کچھ بھی کوئی بھی ہوسکتا ہے ـ

  4. بہت عمدہ سر ۔ اہل تشیع ذاکر کی طرح لطیف اور ہلکے پھلکے مزاح کے ساتھ بیان شروع کیا اور ‘مصائب’ پر اختتام کیا۔:-p
    قرآن کریم نے کوئی9-10 بار ایک اصطلاح استعمال کی ہے ‘امت واحدہ’ ان تمام مقامات پر غور تدبر سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ تمام انسان ایک گروہ ایک جماعت ہیں اور انہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیئے اور ابتدا سے انسان اس طرح ہی رہتے تھے بعد میں منافرت اور مشاجرت پیدا ہوئی اور پیغمبروں کا سلسلہ اسی لیے شروع ہوا کہ تمام انسان ایک ہو جائیں۔

  5. بہت عمدہ رانا صاحب دو قومی نظریہ کا مطلب ھرگز یہ نہیں تھا کہ دوسری قوم کی سانسیں ہی بند کردیں ھم نے یہ وطیرہ کئ ورشوں سے اپنایا ھوا ھے لیکن
    وہ راحت صاحب نے کہا
    لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئ زد میں ؛؛؛
    یہاں پہ صرف ھمارا مکان تھوڑی ھے ؛؛؛؛

  6. ہمارے دل میں تو جسٹس رانا بھگوان داس اور ہندو بھائیوں کا بڑا احترام اور عزت ہے اور بہت سے تو بہت اچھے دوست ہیں ۔

Leave a Reply