جمال نقوی: حقائق کی روشنی میں

آج کل کچھ لوگ منحرف جمال نقوی کو ایک روشن استعارہ بنا کر اور انکی مثالیں اور قصائد پڑھ کر عوام کو یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ وہ لبرلازم اور گماشتہ سرمایہ داری کی طرف راغب ہوکر اور سوشلزم سے منحرف ہوکر راہ راست پہ آگئے اور انھوں نے سچائی کو پالیا۔ میں ناچیز اس موضوع پہ لکهتا اچها تو نہیں لگتا کیونکہ ڈاکٹر کامریڈ مصدق حسین نے تفصیل سے اس موضوع پہ لکها اور جمال نقوی کی کتاب “بائیں بازو کو پیچهے چهوڑتے ہوئے”کے جواب میں اس کے تضادات کی روشنی میں سچائی کو آشکار کیا۔ اور ایک کتاب مرتب کی۔ ”بائیں بازو کے منحرفین اور مارکسی نظریات“۔
کامریڈ ڈاکٹر مصدق کہتے ہیں کہ میری جمال نقوی سے تین چار ملاقاتیں ہوئیں۔ 1986 تک وہ سوشلزم کے “پسماندہ اور دهتکارے” ہوئے نظریات کے شدومد سے مبلغ تهے اور بقول موصوف تقاریر بهی کیا کرتے تهے۔ مگر کیا ہوا کہ سوویت یونین کے انہدام کے یکدم بعد وہ سوشلزم سے تائب ہوگئے اور سامراج اور استعمار کے ہم نوا بن گئے۔
اس انحراف کی میرے نزدیک دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔
1-یا تو سوشلزم کے نظریات بہت رجعتی اور قدیم و زوال پذیر ہوگئے تهے کہ انهوں نے اسے انسانیت کے لیے مضر سمجھ کر چهوڑا اور پهر اس نظریہ پہ بے تکی تنقید کے نشتر چلائے۔
2-یا ان کا سوشلزم سوویت یونین کے وجود سے منسوب تها۔ یعنی نظریات سے بالکل عاری پن۔
اب پہلی وجہ کی جانب آتے ہیں۔
اگر سوشلزم زوال پذیر اور ناقابل عمل تها تو کیا پہلے آپ کو اس بات کا ادراک نہ ہوسکا؟ جبکہ لبرل اور آزاد خیال حلقہ جات جمال نقوی کو دانشور ثابت کرنے پہ مصر ہے۔ ایک دانشور چیزوں یا نظریات میں چهپی خوبیوں اور خامیوں کو کهوج کر ہی اس کی تعریف کرتا ہے اور پهر الفاظ کو اس چیز کی حمایت میں رواں کرتا ہے۔ اگر سوشلزم ناقابل عمل تها تو آپ نے گورباچوف کے عہد میں ہی اسے خیر آباد کیوں نہیں کہا؟ کیوں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سوشلزم اور مارکسی نظریات پہ دشنام طرازی کا بازار گرم کیا؟
اگر ایک گاڑی کے چار کی بجائے دو پہیے ہیں تو اسے چلایا کیسے جاسکتا ہے؟ ایسی چیز ناقابل عمل اور ناقابل استعمال ہوگی۔ کیا پہلے آپکو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ سوشلزم نامی “ناقابل عمل”نظام کے تو آپ کے بقول دو پہیے ہیں اور اس کی گاڑی چل نہیں سکتی۔ آپ نے 1991 سے پہلے اس گاڑی کو خیر آباد کیوں نہیں کیا؟
اوپر کے تمام مندرجات سے لگتا ہے کہ موصوف کا سوشلزم سوویت یونین کے وجود سے ہی منسوب تها اور نظریاتی اساس جات صفرلگتی ہیں۔ کیونکہ جو شخص 1986 تک سوشلزم کی تعریفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہا ہو، وہ سوویت یونین کے انہدام کی رات سوشلزم سے تائب ہو کر حلقہ بگوش سرمایہ داری ہوگیا۔
اس بارے میں ،میری ناقص دانست کے مطابق دو وجوه ہوسکتی ہیں۔
1-یا تو موصوف کی مارکسی لیننی نظریات پہ گرفت گذارے لائق تهی۔
2-یا موصوف کے معاشی مفادات سوویت یونین کے ساتھ جڑے تهے۔
آئیے دونوں پہلوئوں کو تفصیل سے دیکهتے ہیں۔
موصوف نے کمیونزم کے لیے ایک لفظ ڈوگما یعنی عقیدہ استعمال کیا. ایک مجھ جیسا جاہل بهی واشگاف انداز میں کہہ سکتا ہے کہ مارکسزم ایک سائنس ہے۔ جس کا عقیدہ پرستی سے دور کا بهی تعلق نہیں۔ مارکسزم کے بنیادی اجزائے ترکیبی جدلیات، تاریخی مادیت اور مارکسی معاشیات۔ کسی بهی ملک کی سماجی اور معاشی حالت کو اس کے معروض کے مطابق ترقی کا راستہ دکهاتے ہیں۔ جدلیات حقائق کی کهوج کا راستہ ہے۔ اب اس میں کون سی چیز ثابت کرتی ہے کہ مارکس کی زبان اگر جرمن تهی تو “سرمایہ” جرمن زبان میں پڑهو یا ریاست اور انقلاب کو روسی میں ہی لازمی پڑهو۔ مارکس اور لینن کی طرز کے کپڑے پہنو وغیرہ۔ موصوف کی بے سروپا منطق خاکسار کی ناقص عقل سے بالاتر ہے۔ کیسے مارکسزم ایک ڈوگما ہے؟
پهر موصوف نے سوویت یونین اور دوسرے اشتراکی ممالک کےلیے کمیونزم کا لفظ استعمال کیا۔ میرے جیسا کم علم انسان بهی کہہ سکتا ہے کہ کمیونزم تو کہیں نافذ ہی نہیں ہوا۔ ان ممالک میں سوشلزم تها حضور یا عوامی جمہوریت۔ کمیونزم تو بے طبقاتی معاشرے کا نظام ہے۔ اور مارکسی اساتذہ مارکس، اینگلز، لینن، استالین، ماو اور انور ہوژا وغیرہ نے ہمیشہ واشگاف کہا کہ طبقاتی جدوجہد کی شدت کچھ کم ہوئی ہے، لیکن اقتدار مزدور طبقے کے ہاتھ آگیا ہے جو اس اکثریت کی آمریت کا دفاع کرے گی۔ لیکن سرمایہ دار اور جاگیردار استعمار کے ساتھ مل کر سازشیں برابر کیے جارہے ہیں۔ کسی اشتراکی ملک کا نام کمیونسٹ ریپبلک آف فلاں نہیں تها۔ بلکہ عوامی جمہوریہ یا سوشلسٹ جمہوریہ سرکاری نام رکها گیا۔ یہ محترم جمال نقوی کی مارکسی سائنس پہ گرفت تهی۔
موصوف نے پوری کتاب میں خود پسندی یا نرگیسیت کے دہانے خود اپنے پہ کهول کے رکهے ہیں۔ ایسے لگتا ہے کہ پاکستان میں چلنے والی ہر مزدور تحریک کی اساس جمال نقوی نے رکهی۔ مجهے تو ایسے لگا کہ وہ پاکستان کے چے گیویرا ہیں۔ اب بهلا اتنی بهی خود کی تعریف کی جاتی ہے بهلا؟
یہ چند سطحی حوالہ جات ہیں موصوف کی اشتراکی مارکسی تهیوری پہ گرپ کے۔
اب آتے ہیں معاشی فوائد کی جانب، جو موصوف نے سوویت یونین سے حاصل کیے۔ صرف وہ جن کا ہمیں علم ہے ورنہ ایسے وظائف بهی ہوں گے جن کا ہمیں علم نہیں۔
موصوف نے کتاب میں لکها کہ ان کے نظریات کی تبدیلی کا عمل 1990-91 میں شروع ہوا، جب وہ سوویت خرچے پہ سوویت یونین گهوم پهر کر آئے۔ علمیت اور دانشوری کا عالم دیکهیں کہ موصوف نے گورباچوف کے عہد میں سوشلزم میں خامیاں تلاش کیں اور وہ بهی اس وقت جب سوویت یونین کا انہدام ہوگیا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ گورباچوف نے گلاسناسٹ اور پریسترائیکا کا نام لے کر سرمایہ داری کی طرف مرجعت کی۔ ایسے سرمایہ دارانہ “سوشلزم”کو محترم نے دیکھ کر سوشلزم کو ناقابل عمل سمجها۔ حضرت کمال کے مارکسی دانشور تهے آپ۔اے کے بروہی جو آمروں اور غاصبوں کا گماشتہ تها اسے موصوف نے ترقی پسند ہونے کی سند عطا کی۔ ضرور کوئی مالی یا معاشرتی فائدہ حاصل کیا ہوگا۔
ضیائی دور میں کمیونسٹوں پہ بدترین ظلم اور جبر روا رکھا گیا۔ کامریڈ نذیر عباسی نے ضیائی فسطائیت کے ہاتهوں شہادت پائی۔ مگر موصوف نے کشادہ دلی کے ساتھ لکها کہ بریگیڈئیر امتیاز نے انهیں دوران قید کافی سہولیات مہیا کیں۔ اب خود بتائیں کہ ایک پارٹی کے دو راہنما گرفتار ہوئے ایک فوجی ٹارچر کے ہاتهوں جان سے گذر گیا جبکہ دوسرے کو ضیائی فسطائی فوجی سہولیات مہیا کررہے ہیں۔ دال میں کافی کچھ کالا ہے۔ یہ بات پارٹی راہنماوں کے لئے آج بهی سمجھ سے بالاتر ہے۔
موصوف کا جهوٹ وہ بهی ڈهٹائی سے کہ میجر اسحاق کمیونسٹ پارٹی کے ممبر تهے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ کبهی کمیونسٹ پارٹی میں نہیں رہے۔ ان کی اپنی پارٹی مزدور کسان پارٹی تهی۔موصوف کی بڑی بیٹی افشاں نے سوویت یونین کے شہروں تاشقند اور ماسکو وغیرہ کا 1988 میں دورہ کیا اور خرچ سوویت یونین نے اٹهایا۔ ان دوروں نے بهی موصوف کی بیٹی پر “منفی اثرات”ڈالے جو موصوف کے ایمان میں دراڑ ڈالنے کا باعث بنے۔ پهر خود 1990 میں سوویت خرچ پہ ماسکو گئے۔ اس کے بعد پهر کیا ہوا کہ چھ ماہ میں موصوف سرمایہ داری کے وکیل بن گئے اور سوشلزم کے خلاف ہذیان اگلنا شروع کردیا؟
اس سب کے بعد موصوف لکهتے ہیں کہ انکی تشریف آوری کے بعد سوویت یونین سے لیتهوانیا نے آزادی حاصل کی۔ پهر روس نے خود مختاری کا اعلان کیا۔ بهائی روس نے کسں سے اور کس روسی نے خود مختاری کا اعلان کیا۔ سوویت یونین کے انتشار سے پہلے ریفرنڈم ہوا تها جس میں 75 فیصد عوام نے رضا کارانہ سوویت اتحاد کے حق میں ووٹ دیا۔ لیکن گوربا چوف کے سرمایہ دارانہ اقدامات کی آڑ میں تشکیل پائے گئے سرمایہ دار ٹولے جس کا سربراہ یلسن تها ،نے اس وقت سپریم سوویت پہ شب خون مارکر روس کو الگ کیا۔ان تمام باتوں سے تضادات ابل ابل کے نکل رہے ہیں۔
ایسا شخص کیا دانشور ہوسکتا ہے؟
یا بس ایک خود پسندی کا شکار خود غرض اور مفاد پرست انسان؟ جس کے لیے دولت اور آسائشات نظریات سے مقدم ہوں۔

Facebook Comments

ہمایوں احتشام
مارکسزم کی آفاقیت پہ یقین رکھنے والا، مارکسزم لینن ازم کا طالب علم، اور گلی محلوں کی درسگاہوں سے حصولِ علم کا متلاشی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply