مجھے جینے دو۔۔۔۔ عبداللہ خان چنگیزی

وہ جب بھی اُس بوسیدہ سے مکان سے نکلنے کا سوچتی تو اُس کے سامنے وہ لا تعداد کالی، سرخ  اور کچھ سستی شراب کے خمار میں ڈوبی غلیظ آنکھیں اُس کا تعاقب کرتی رہتی لیکن وہ اب اِس سب کی عادی ہو چکی تھی دل میں ایک طوفان ہر وقت طلاطم پر رہتا مگر وہ اُن پرزور موجوں کو اپنی قسمت کی  سیاہ لکیروں کے ساتھ شامل کر دیتی اور وہ موجیں اُس میں فنا پا جاتی۔

وہ جب اپنے بارے میں سوچتی تو خود سے ایک عجیب سی نفرت محسوس کرتی رہتی ایک ہی سوال اُس کے ذہن کے نہاں خانوں میں گونجتا رہتا وہ عورت کیوں پیدا ہوئی؟ وہ مرد کیوں نہیں؟

یہ سوال کوئی نیا نہیں تھا جب سے اُس نے ہوش سنبھالا تھا اُس نے دو ہی چیزیں دیکھی تھی ایک اپنا وہ آسیب زدہ سا بوسیدہ گھر جس کو شاید جھونپڑی کہنا زیادہ مناسب ہوگا اور دوسرا وہ ہوس بھری آنکھیں! جو خود کو اُن آنکھوں کی زد میں پا کر جیسے جوالا مکھی بن جاتی اُس کا دل چاہتا کہ ایک لمحے میں اِن سب کو فنا کر دے پر افسوس وہ عورت تھی!

رات کی سنسان وادی میں وہ آنکھوں میں   مستقبل کے دلفریب خواب سجائے  بستر پر لیٹی ہوئی تھی وہ کسی اور جہاں میں کھوئی ہوئی تھی جیسے وہ خود کو اُس ماحول میں ضم کرنا چاہتی ہو کبھی نہ نکلنے کے لئے مگر خوابوں میں سچائی کہاں ہوتی ہے اُس کی بوڑھی ماں نے جب اُسے تیسری بار پُکارا تب وہ نا چاہتے ہوئے بھی شعور کی دنیا میں واپس آئی اور کچھ لمحے خالی الذہنی کی سی کیفیت میں ماں کو دیکھنے لگی

کیا ہوا ہے تجھے، کب سے پانی مانگ رہی ہوں میں اور تم ہو کہ  مجھے گھورتی جا رہی ہو؟ اُس کی ماں نے اُسے ہلا کر کہا۔۔۔۔

اوہ اچھا ماں ابھی لائی! یہ کہہ کر وہ اُٹھی اور کمرے کے کونے میں پڑے ہوئے ایک مٹکے سے پانی لیکر ماں کے پاس آگئی۔ اُس کے بعد وہ بہت دیر تک جاگتی رہی لیکن اب وہ خوابوں کی جنت میں نہیں تھی بلکہ وہ اپنی ماں کی وجہ سے پریشان تھی وہ کھانسے جا رہی تھی اس کو ٹی بی تھی۔

بیمار ماں دنیا کے دستور اور پاپی پیٹ کے لئے کیا کچھ نہ کرتی وہ صبح ہی سے اُن تمام گھروں میں جاکر جاڑو کٹکا لگانے جاتی جہاں سے اُن کے گھر کا چولہا گرم ہوتا تھا.

اُن گھروں میں بھی اُس کے بدن کی نوخیزی کسی سے چھپ نہ سکی چاہے وہ عدنان ہو جس نے ابھی جوانی کے کچھ ہی سال عبور کئے تھے یا وہ بڈھا شکور چچا ہو جن کو وہ عزت و احترام سے چچا کہہ کر پکارتی رہتی تھی لیکن وہ شاید اِس کو مال مفت سمجھ کر چچا کا لفظ قبول کرنے پر راضی نہیں تھا اُس کی وہ دہکتی آنکھیں جن میں ہوس کا کیچڑ بھرا ہوا تھا اُن سے جب وہ اُسے دیکھتا تو وہ خود کو بے بسی سے سنبھال سنبھال کر تھک جاتی۔

اُس دن بھی ویسا ہوا۔۔۔۔

بیٹی ایک گلاس پانی تو دینا۔ شکور چچا کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی جی چچا کہہ کر وہ کچن کے طرف تیزی سے گئی وہاں ایک گلاس میں پانی ڈال کر وہ باہر آئی اور گلاس اُس کی طرف بڑھا دیا بوڑھے ہاتھ جس میں رعشہ واضح طور پر دیکھ رہا تھا لیکن اُس کے اندر چھپا ہوا ابلیس اُس کو توقیت دیتا رہا کے وہ اِس لاچار عورت کے ہاتھوں کو سہلانے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے۔

وہ کانپ کر رہ گئی آج تو اُس کے پاکیزہ وجود کو کسی نے پرہوس ہاتھوں سے چھوا تھا۔ اُس کے ہاتھ سے گلاس چھوٹ کر زمین پر زور سے گِر پڑا اور ایک جھناکے کے ساتھ ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا بلکل اُس کے وجود کی طرح۔ وہ بے اختیار وہاں سے دوڑ پڑی اور گھر کے بڑے دروازے میں سے ایک زناٹے کے ساتھ باہر نکل گئی اُس کے ہوش اُس کا ساتھ نہیں دے رہے تھے تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی وہ اپنے گھر کی طرف جاتی رہی وہ نظریں بھی اُس کے خیالوں میں تزلزل بپا نہ کر سکی جو اُس کے وجود کے اطراف میں جاتے ہوئے طواف کر رہی تھی۔

گھر پہنچتے ہی وہ اُس نے ٹینکی کا پائپ کھول کر بے اختیار اپنے ہاتھوں کو مسلنا شروع کر دیا جس پر بظاہر کوئی گندگی نظر نہیں آرہی تھی لیکن شاید وہ اس نادیداہ سی لمس کو اپنے ہاتھوں سے دور کرنا چاہتی تھی جس نے اُس کی کنوارگی کے تالاب میں ہوس زدہ پتھر پھینکا تھا۔ جب وہ تھک گئی تو اُس نے پانی کا نل بند کردیا اور کمرے میں آکر ماں کے پاس بیٹھ گئی ماں نے اُسے عجیب سی نظروں سے دیکھا وہ غیر متوقع طور پر آج گھر آئی تھی۔

کیوں آج کیا کام پر نہیں گئی تم؟ ماں نے اس سے سوالیہ انداز میں پوچھا۔

آج کام زیادہ نہیں تھا اس لئے جلدی آگئی وہ کیسے اُس کو بتاتی کے اکیلی عورت کی عزت کے بیوپاری اُس سے اِس کی عصمت کا سودا کرنا چاہتے ہیں۔

وہ کچھ دنوں سے اُس کو دیکھ رہی تھی شاید وہ اِس محلے میں نیا آیا ہوا تھا بہت پر وجاہت چہرہ سلیقے سے پہنے ہوئے کپڑے اور مردانہ صفات سے پھر پور انداز! وہ جب بھی کام کرنے اپنے گھر سے نکلتی وہ اُس کو عجیب سی نظروں سے دیکھتا رہتا اِس کی انکھوں میں کچھ دوسری ہی بات تھی یا شاید وہ اس کا خام خیال ہی تھا لیکن وہ اِسے دوسروں سے کچھ الگ ہی لگتا رہا۔

آج پانچواں دن تھا اُس کو وہاں آئے ہوئے گھر سے قدم باہر رکھتے ہی جب اُس نے گلی کا دوسرا موڑ کاٹا تو وہ سامنے سے آتا ہوا دیکھائی دیا اُس کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکان تھی نظروں میں ایسا تاثر تھا جیسے کوئی جوہری کسی ہیرے کو پرکھتے وقت اپنی نظروں میں لے آتا ہے وه اس کے پاس سے گزرا اور بھاری قدموں سے چلتا ہوا دور ہوتا گیا۔

ناجانے کیوں وہ اُس کو اِن سب سے الگ لگنے لگا تھا اُس کا دل مضطرب انداز سے بے ترتیب دھڑکنے لگا۔ سب گھروں کے کاموں کو آج جلدی سے نمٹا کر وہ آپنے گھر کی طرف روانہ ہوئی نظروں کے حصار میں چلتے چلتے اپنے گھر کے چوکھٹ سے داخل ہوتے ہی اس کو ایک اجنبی کے ہونے کا احساس ہوا اُس کا دل اس کے حلق میں پہنچا جب اُس نے وہ نئے آنے والے لڑکے کو اپنی ماں کے ساتھ بیٹھے دیکھا ششدر سی چلتی ہوئی وہ ماں کے قریب ہوئی اور سوالیہ نظروں سے ماں کو دیکھنے لگی۔

تم آگئی بیٹا! ماں نے اس کو دیکھ کر خوشی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوتے ہوئے کہا۔

جی اُس نے جواب دیا وہ اِس لڑکے کو دیکھ رہی تھی جو اُس کے گھر کے چاردیواری میں موجود تھا۔

بیٹا عاشر یہ ہے میری بیٹی نیناں! اُس نے ماں کی آواز سنی جو اِس لڑکے کو نام سے مخاطب کر رہی تھی۔

جی اماں جی مجھے پتہ ہے کے یہی ہے آپ کی بیٹی بس نام سے انجان تھا۔ اُس نے نیناں کی طرف دیکھ کر کہا۔

کیا میں آپ سے کچھ بات کر سکتا ہوں؟ عاشر نے نیناں کی طرف انتہائی مہذب انداز میں دیکھ کر کہا۔

نیناں نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اس کی انکھوں میں اقرار دیکھ کر اس نے عاشر سے کہا جی کہئے

وہ اٹھا اور کمرے سے باہر کی طرف نکل کیا اس کا مطلب یہ تھا کے وہ اس کے ساتھ اکیلے میں بات کرنا چاہ رہا تھا

نیناں اس کے پیچھے کمرے سے باہر آئی اور اس سے کچھ فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔

نیناں اگر میں آپ سے یہ کہوں کے میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو آپ کا فیصلہ کیا ہوگا؟

نیناں کو ایسے لگا کے جیسے اُس کے سر پر کسی نے بم پھوڑ دیا ہو! وہ کہنے لگا

نیناں میرا کوئی نہیں اس دنیا میں اسی لئے اپنی زندگی کے اِس بڑے مقصد کو پورا کرنے اکیلے ہی آیا ہوں مجھے یہ نہیں پسند کے کسی کے عزت کے ساتھ کوئی کھیل کھیلوں میں ہمیشہ سے حقیقت پسند رہا ہوں شاید یہی عادت مجھے یہاں تک لے آئی ہے کے میں کھل کر آپنا اظہار کر سکوں۔ وہ خاموش ہوا اور اُس کے جواب کا منتظر تھا لیکن نیناں کے زبان گنگ تھی

میں ابھی کچھ نہیں کہہ سکتی! نیناں نے جواب دیا

کوئی جلدی نہیں میں اماں جی کی خیریت دریافت کرنے پھر آجاوں گا تب تک آپ بھی سوچ سکیں گی اچھا چلتا ہوں خداحافظ

وہ گھر سے نکل گیا نیناں نے دروازہ بند کر کے کمرے کی طرف دوڑ لگا دی اور اماں کی دیکھنے لگی۔

اماں کون ہے یہ؟ اُس نے اماں سے پوچھا

نیناں اِس کا نام عاشر ہے اور وہ ہمارے ہی محلے میں رہنے کیلئے آیا ہے باتوں سے بڑا نیک اور شریف لگ رہا ہے اِس بھری دنیا میں کوئی نہیں بے چارے کا شاید تم کو دیکھ کر اِس نے گھر کا پتہ کرلیا اور یہاں اگیا۔

بیٹا وہ تم کو چاہتا ہے شاید اِسی لئے وہ باعزت طریقے سے تم کو اپنی دلہن بنانا چاہتا ہے ویسے بھی آج کل ہمارے جیسے لوگوں کی قسمت میں اچھے رشتے کہاں ہوتے ہیں میں نے دنیا دیکھی ہے میں نے اِس کو جانچا ہے پرکھا ہے ایک نجی موبائل کمپنی میں ملازمت کرتا ہے اکیلا ہے شاید اِسی وجہ سے آج یہاں کل وہاں مکان بدلتا رہتا ہے۔

مجھے اُس نے بتایا ہے کے وہ میری بیٹی کو دل سے چاہتا ہے اور اُس سے شادی کرنا چاہتا ہے باقی آپ کی مرضی ہے بیٹی میں کب تک جیوں گی کب تک تم دوسروں کے گھروں میں لوگوں کے جھوٹے برتن صاف کرتی رہو گی کب تک میرا بوجھ آپنے نازک کندھوں پر لئے پھرو گی سوچ کر مجھے بتاو۔

ماں کی ہر بات پتھر پر لکیر تھی لیکن وہ کیسے اقرار کرتی وہ تو اُس کو جانتی تک نہ تھی کون تھا وہ؟

اسی سوچوں میں ایک ہفتہ گزر گیا وہ دوبارہ ان کے گھر نہیں آیا تھا نہ ہی وہ اس کو گلی کے نکڑ پر ملا تھا۔

کچھ دن بعد وہ پھر ان کے گھر میں موجود تھا اس کے ساتھ کچھ شاپرز میں کوئی سامان بھی تھا جو وہ ان کے گھر پر رکھ گیا تھا جب وہ واپس کام سے فارغ ہوکر گھر پہنچی تو وہ اس وقت گھر سے باہر نکلنے والا تھا

دروازے میں دونوں کا سامنا ہوا

کیسی ہو نیناں؟ اُس نے پوچھا!

آپ؟

جی کیوں آپ کو برا لگا؟

وہ کچھ نہ کہتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی اور وہ ہلکی سی مسکان کے ساتھ گھر سے نکل گیا۔

وہاں نیناں نے وہ سب کچھ دیکھا جو عاشر اپنے ساتھ لایا تھا۔

دیکھا نیناں میں کہتی تھی نہ کے عاشر ایک شریف انسان ہے اُس نے مجھ سے یہ نہیں پوچھا کے رشتے کا آپ لوگوں نے کیا فیصلہ کیا بس آکر میرا حال احوال پوچھا اور کچھ دن غیر حاضر ہونے پر معافی مانگی تم نے کیا سوچھا پھر اس کے بارے میں؟

ماں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا!

امی میں اس میں کیا کہہ سکتی ہوں آپ ہی میری سب کچھ ہیں لیکن کچھ عرصہ تک اس کو پرکھنا چاہئے نیناں نے جواب دیا۔

ہاں ہاں کیوں نہیں تم بھی تو اس سے بات کرو شاید تم بھی کچھ معلوم کرو اُس کے بارے میں۔

تیسرے دن وہ ان کے گھر میں موجود اماں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا اماں کے کہنے پر اس نے چائے بھی پیش کردی اس کو وہ شکریہ کہتا ہوا چائے پینے لگا۔
اب وہ روز کا سلسلہ شروع ہو گیا اُس کی اماں خوب مانوس ہو گئی عاشر کے ساتھ وہ روز آتا اور اماں کے لئے کچھ نہ کچھ لے کر آتا ایک مہینہ پورا ہو گیا اُس کو آتے ہوئے

نیناں میرے ایک دوست کی سالگرہ کی پارٹی ہے کیا آپ جانا پسند کرو گی؟ ایک دن عاشر نے اُس سے پوچھا۔

وہ تذبذب کا شکار ہوئی ابھی تک وہ کسی کے ساتھ باہر نہیں گئی تھی ناجانے کیوں وہ اس پر بھروسہ کرنے لگی تھی یا شاید یہ وہ وقت کے ظالم طمنچوں کے بعد کچھ مہربانی تھی جو کسی کو ان کے گھر کے چوکھٹ پر لے آئی تھی اِس سے پہلے اُس کی امی نے کہا۔

ہاں ہاں کیوں نہیں عاشر بیٹا نیناں اگر چاہے تو آپ کے ساتھ چل سکتی ہے

امی نے اُس کے انکار کرنے کی کوئی گنجائش نہیں رہنے دی۔

کب جانا ہے؟ نیناں نے کچھ سوچ کر کہا

کل چار بجے اُس نے جواب دیا

ٹھیک ہے میں کوشش کروں گی نیناں نے کہا۔

اچھا امی مجھے اجازت دیں کچھ کام ہے وہ نبٹھانے ہیں کل پھر ملاقات ہوگی خداحافظ

وہ چلا گیا

نیناں نے کچھ سوچ کر ہاں کر دی تھی وہ دل سے عاشر کو چاہتی تو تھی لیکن ایک چور بیٹھا تھا اُس کے ذہن میں وہ اِس خدشے کو دور کرنا چاہتی تھی وہ دیکھنا چاہتی تھی کے کیا اُس نے کوئی ملمع تو نہیں چڑھایا اپنی ذات پر۔

دوسرے دن وہ جلدی گھر آگئی اپنے مستقبل کے ممکنہ مجازی خدا کو پرکھنے کیلئے…

اُس نے کپڑے تبدیل کئے اور چار بجنے کا انتظار کرنے لگی ٹھیک چار بجے عاشر اُن کے گھر میں داخل ہوا اور اُس نے نیناں کو غور سے دیکھتے ہوئے اماں کو سلام کیا پھر اُس کی طرف دیکھ کر کہا آپ تیار ہو؟

جی! نیناں نے کہا۔

اچھا اماں ہم جلدی ہی آجائیں گے عاشر نے اماں کی طرف دیکھ کر کہا۔

ٹھیک ہے بیٹا جلدی آنا دیر نہ کرنا

وہ ا ِس کے ساتھ باہر آئی کچھ دیر بعد ایک ٹیکسی میں بیٹھے وہ ایک سمت کو جانے لگے۔

ظالم معاشرہ بھوکی نظریں اکیلی عورت یہ سب وہ الفاظ ہیں جن سے صرف وہ لوگ آشنا ہیں جن کے گھروں میں کوئی مرد نہیں ہوتا جن کی زندگی اور عصمت کے پاسبان نہیں ہوتے ایسے لوگوں کی زندگی میں شاید ہی کوئی ایسا آتا ہو جو ان کے درد کو اپنا درد سمجھ کر اسے دوا دے

معاشرے کے ناسور عورت کی اِس بے بسی کو خوب مزے لے کے تفریح کرتے ہیں شاید انسانیت کے بھیس میں بھیڑیے بھی رہائش پذیر ہیں اِن بے بس مخلوق کے درمیان۔ اُس کو بھی اِس بات کی کوئی خبر نہیں تھی بس ایک اُمید تھی ایک روشن مستقبل کی جن کے خواب سجائے آج وہ ایک مرد کو کسوٹی پر رکھ گئی تھی

کچھ دیر بعد ٹیکسی ایک ہال نما عمارت کے سامنے رکی اور وہ اتر کر اندر داخل ہوئے عاشر کے ہاتھ میں ایک تحفہ تھا جو اُس نے اندر جاکر ایک آدمی کے ہاتھوں میں دیکر اسے سالگرہ کی مبارک باد دی

اُس شخص نے نیناں کو بھری نظروں سے دیکھا اور اُس سے ہاتھ ملانے کیلئے ہاتھ بڑھایا لیکن اُس نے پہلے ہی مبارکباد دیکر اِس کے ہاتھ کو واپس ہونے پر مجبور کردیا.

اُس ماحول میں رہ کر نیناں نے سب کچھ محسوس کیا بہت سے مرد اُس کی طرف دیکھ رہے تھے عاشر نے اُس کو سب سے متعارف کروایا اور وہ دونوں چلتے ہوئے ایک نشست پر بیٹھ گئے

وقت گزرتا رہا کچھ زیادہ ہجوم نہ تھا بس دس پندرہ کے قریب ہی مرد اور عورتیں تھی

چار گھنٹوں کے بعد عاشر نے وہاں کے میزبان سے رخصتی چاہی اور وہ واپس گھر کی راہ پر جانے لگے ٹیکسی سڑک پر دوڑ رہی تھی لیکن وہ سوچوں میں گم۔

نیناں کیسے لگے میرے دوست؟ عاشر نے اُس سے سوال کیا۔

اُس نے چونک کر دیکھا اور کہا جی بہت اچھے۔

گھر پہنچ کر وہ دونوں گھر میں داخل ہوئے اور اماں کی طرف جانے لگے۔

آگئے اماں نے دور سے آواز دی جی اماں جی عاشر نے کہا اچھا اماں میں چلتا ہوں کل آفس بھی جانا ہے اچھی بات ہے بیٹا اللہ کے حوالے اماں نے اُسے دعائیں دیتے رخصت کیا۔

کیسا لگا
عاشر کے جاتے ہی اماں نے نیناں سے پوچھا۔کوئی برائی تو نہیں دیکھی تم نے عاشر میں اماں نے جواب سنے بغیر پھر سوال کیا!

جی نہیں اماں مجھے کوئی ایسی بات نظر نہ آئی جس کی بنیاد پر میں اس کو برا سمجھوں۔ نیناں نے جواب دیا

تو پھر کل اُس سے بات کر لوں؟

جی آپ کر لیں آپ سمجھدار ہیں باقی میں آپ کو کیا بتا سکتی ہوں جیسے آپ اچھا سمجھیں۔

عاشر دوسرے دن اُن کے گھر آیا تو امی نے اس کو آتے ہی اپنے پاس بیٹھا لیا اور اس سے کہنے لگی

عاشر بیٹا نیناں میرے جگر کا ٹکڑا ہے اُس نے کبھی بچپن نہیں دیکھا ہوش سنبھالتے ہی وہ میری مددگار بن گئی اُسے خوش رکھنا کبھی اس کو ناراض نہ کرنا مجھے آپ اچھے گھر کے لگتے ہو میرا دل گواہی دیتا ہے کہ میری بیٹی خوش رہے گی

اماں جی آپ کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں میں اس کو تم سے زیادہ چاہتا ہوں عاشر کے اس بات پر اماں کے ضعیف آنکھوں میں خوشی کے آنسو جھلملانے لگے اور عاشر کے ماتھے پر بوسا دیا.

سب کچھ طے ہو چکا تھا شادی کی تاریخ بھی پکی ہو گئی اور وہ دن بھی آیا جب نیناں نے خود کو سرخ دلہن کے جوڑے میں دیکھا شادی میں کچھ خاص لوگوں نے شرکت نہیں کی بس کچھ گنے چنے لوگ تھے جو عاشر کے وہ دوست تھے۔ جن کو وہ اس دن پارٹی پر دیکھ آئی تھی

عاشر ہم نے آپنا اپارٹمنٹ صرف آپ کی شادی کے لئے سجا دیا ہے پھر نہ کہنا دوستوں نے قربانی نہیں دی اُس کے ایک دوست نے عاشر کو بتایا جو نیناں نے بھی سن لیا اُس کے وجود پر شرم کے مارے کپکپاہٹ طاری ہو گئی

ایک مولوی بھی تھا جس نے نکاح پڑھایا وہ بھی عاشر لے کر آیا تھا بارات چلی گئی اور اماں نے روتے ہوئے اپنے لخت جگر کو رخصت کیا۔ اُن کی بارات اُس اپارٹمنٹ میں داخل ہو گئی جس کی بات اِس کے دوست نے کی تھی رات ہونے کو تھی ایک ایک کرکے سب لوگ چلتے گئے وہ جگہ کافی اچھی معلوم ہوتی تھی سب کچھ اعلی تھا اُس نے بیڈ کی طرف دیکھا اور اس پر بیٹھ گئی انتہائی نرم و گداز اُس نے ایسا کمرہ صرف وہاں دیکھا تھا جہاں وہ کام کرنے جاتی تھی۔

وہ بیڈ پر بیٹھی عاشر کا انتظار کرتی رہی جو شاید اپنے دوستوں کو رخصت کرنے میں مصروف تھا بہت دیر بعد عاشر آیا اور اُس کے پاس آکر آہستہ سے بیٹھ گیا اُس نے معافی مانگی اپنے دیر سے انے پر اُسی وقت کچھ آواز آئی اور کمرے کی روشنی چلی گئی عاشر نے اُس کو تسلی دی اور اور باہر جاکر مین سوئچ کو تلاش کرنے لگا بہت دیر ہوئی وہ واپس نہ آیا تو اٹھی اور اپنے ہاتھوں سے در و دیوار کو ٹٹولتے ہوئے دروازے تک جاپہنچی۔

نیناں نے باہر کچھ باتیں سنی اور دروازے سے کان لگا کر اسے غور سے سننے لگی

وہ عاشر کی آواز تھی۔

چودھری صاحب ہم پر بھی کبھی اپنا خاص کرم کر دیجیئے گا جیسے ہم آپ کا خیال رکھتے ہیں کبھی آپ کو باسی کھانا نہیں کھلایا ہمیشہ ہی تازہ شکار کر کے لاتے ہیں آپ کے لئے…

کل حویلی میں آکر ملنا مجھ سے اب ہم کو بھوک لگ رہی ہے اُس کا قہقہہ انتہائی غلیظ تھا۔۔۔۔ جو یقیناً چودھری تھا

Advertisements
julia rana solicitors

نیناں کی آنکھوں سے بینائی جا چکی تھی کبھی نا آنے کیلئے دل آخری بار دھڑک کر اُسے الوداع کہہ گیا تھا اُس کی روح نے اُس کے وجود کو اور سہارہ دینے سے انکار کر دیا تھا وہ دھڑم سے فرش پر گری کبھی نا اُٹھنے کیلئے اُس کی سیاہ زُلفیں اُس کے گلابی چہرے پر رقصاں تھیں سُرخ جوڑے میں اس کی بغیر روح کی ذات واقعی قیامت کا منظر پیش کر رہی تھی۔۔۔۔

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply