“دو اسلام ”

ہم ایک مظلوم قوم کے مظلوم بچے ہیں ۔ ہمیں بچپن ہی سے اپنے بڑوں کے رویوں ، بر تاؤ ،رکھ رکھاؤ، سلیقہ ، عادات و اطوار ، مختلف پیلے ، کھڑوے کچے پکے مزاج غرض ایک پورے لائف سٹائل کا اور ایک گھمبیر شخصیت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ لیکن ان سب سے بڑھ کر کہیں اہم چیز پڑھانے اور سکھانے کا رویہ ہےجس نے آگے جا کر ہماری شخصیت کی تعمیر کرنی ہوتی ہے۔ وہ ہمیشہ سے آج تک متنازعہ اور کافی مبہم رہا ہے ۔یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے کہ جب بھی بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ چلنے پھرنے اور باقاعدہ بات کرنے کے قابل ہو جاتا ہے تو والدین اسکو اپنے مذہب کے مطابق مذہبی پیشوا ،امام ، راہب پادری وغیرہ کے پاس بھیجنا شروع کر دیتے ہیں اور ساتھ ساتھ گھر میں والدین بھی انہی چیزوں کو دہراتے رہتے ہیں ۔ یہاں سے ایک بچے کا تربیت گاہ کا باقاعدہ سفر شروع ہو جاتا ہے ۔
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے ہاں بچوں کو تر بیت گاہ اور ابتدائی طور پرمسجد کے اندر جو دین کی تعلیم دی جاتی ہے وہ بہت ہی سطحی ہونے کے ساتھ ساتھ چند عام عبادات تک محدود ہے ۔ اسکے علاوہ نہ کسی تربیت گاہ کے ممبر نے اسلام کو سمجھا اور پڑھا ہوتا ہے اور نہ مسجد کے امام صاحب کو توفیق نصیب ہوئی ہوتی ہے ۔ اور اگر کسی کو معلوم بھی ہو تو وہ عملی شکل سے محروم ہوتا ہے۔ ہمیں تربیت گاہ میں بنیادی چیزوں کے ساتھ جھوٹ ، دغابازی فریب وغیرہ سکھائی جاتی ہے ۔ جیسے کہ ہمیں کہا جاتا ہے بچپن میں فلاں کام کرو یا وہ نہ کرو تو پھر میں آپکو چاکلیٹ یا کھلونا لا کے دونگا اور جب چاکلیٹ یا کھلونا دینے کا وقت آجاتا ہے تب ہمارے بڑے حیلے بہانوں کا سہارا لے کر اس بات کو کسی طرح سے ٹال دیتے ہیں۔ یعنی انکے نزدیک وعدہ خلافی صرف اس عہد کے توڑنے کو کہتے ہیں جو اہم امور اور بڑوں کے ساتھ سنجیدہ معاملات میں کیے جاتے ہیں ، چھوٹے بچوں کو ٹالنے کی خاطر جھوٹا چاکلیٹ کا وعدہ، وعدہ نہیں ہوتا اور ان کاپاس رکھنا بھی کوئی اہم بات نہیں ہوتی ۔ وعدے کی پاسداری جیسے بھی ہو ، جس حال میں اور جس کے ساتھ بھی ہو، کتنی اہم ہے؟ ذرا سیرت النبی ؐمیں ابوجندل رض کا وہ واقعہ دیکھیں کہ بارگاہ نبوت مبارکہ میں اپنی پیٹھ کے داغ دکھائے جو قریش ستانے کے لیے دیا کرتے تھے ۔پھر نبی مہربان صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا کہ معاہدہ یہی ہوا ہے قریش سے کسی مسلمان کو جو مکہ سے آیا ہو واپس کیا جائے گا ۔اب وعدہ خلافی نہیں کی جا سکتی صبر سے کام لیں اللہ کوئی تدبیر ضرور فرماے گا ۔ ابوجندل نے اٹھ کرمسلمانوں کے مجمع کے سامنے ایسی رو کر اپنی ظلم کی داستان سنائی کہ قریب تھا کہ مسلمان قابو سے باہر ہوتے مگر حکمِ نبوی وہی رہا۔ (جبکہ ہمارے بڑے ہمیں یہ سکھا دیتے ہیں کہ زندگی میں آگے جھوٹ کیسے بولیں گے ، بات کو ٹالنا کیسے ہے اور وعدہ خلافی کیسے کرنی ہے ، لیکن ہمارے بڑے یہ بھول جا تے ہیں کہ بچے دیکھنے اور نقل کرنے سےبہت جلد سیکھتے ہیں ۔ ۔)۔
دوسرا جب بھی گھر میں کوئی کھانے کی چیز دی جاتی ہے تو کبھی بھی کوئی اضافی چیز اس نیت سے دی جاتی ہی نہیں کہ ایک تم کھالو اور ایک اپنے کسی غریب دوست کو کھلاؤ یا اپنی اسی چیز میں سے آدھا تم کھالو اور آدھا اپنے دوست کو کھلانا، بلکہ باقاعدہ طور پر سختی سے بتایا جاتا ہے کہ سارا خود ہی کھانا ہے (یعنی زندگی میں نہ کبھی ہمدردی ، باٹنے کا درس دیا جاتا ہے اور نہ ہی قربانی کا درس) ، تیسرا جب بھی کوئی آپ کےسامنے لڑائی جھگڑا کرے تو پہلے تو کبھی بیچ میں گھسنے کی ضرورت نہیں اور دوسرا اگر کوئی گواہی لینا چاہے تو تمہیں اگر معلوم بھی ہو تو بتانا مجھے نہیں پتہ یا میں نے ٹھیک سے دیکھا نہیں۔( صلح و صفائی اور حق و سچ کا ساتھ دینے میں کوئی تیر مارنے والی بات نہیں)بلکہ بچے کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جاتا ہے کہ فلاں کا بچہ کتنا ہوشیار ہے وہ کبھی بھی کسی کے معاملے میں گواہی نہیں دیتا چاہے اس نے دیکھا بھی ہو ۔اسی طرح زندگی کے اک خاص حصے میں دفاعی حیثیت سے چند اک چیزوں کا اور بھی عجیب و غریب تصور پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔ وہ یہ کہ زندگی میں اگر کبھی کسی کے ساتھ کسی بھی مسئلے پر تنازعہ پیدا ہوگیا تو یاد رکھنا کبھی پیچھے ہٹ کر شرافت نہ دکھانا کیونکہ شرافت دکھانے والے بزدل ہوتے ہیں بلکہ ڈٹ جانا اور مرنا یا مارنا پڑے تو بھی کر گزرنا ۔ یعنی اپنا حق معاف نہیں کرنا جو لوگ اپنی موقف پر ڈٹے رہتے ہیں اور اپنے حق کے لیے معاف کرنے ، درگزر کرنے ، قربانی دینے کےبجاے مرنے اور مارنے کے لیے تیار رہتے ہیں وہ بہت بہادر اور نڈر ہوتے ہیں۔ اسکے بر عکس جو قربانی ، معاف کرنے اور فساد سے بچنے کی خاطر شرافت اور اعلیٰ ظرفی کا حامل ہوتا ہے وہ انتہائی بزدل اور ڈرپوک ہوتا ہے۔ اور یوں ایسے رویوں کی بناء پر معاشرے فساد ، حسد ، اور دشمنی جیسے گناؤنے افعال کی بھینت چڑھ جاتے ہیں۔
بچپن میں کچی اور تازہ زمیں پر جس قسم کا بیج بویا جاتا ہے اور جس کھاد سے گوڈی کرائی جاتی ہے تو پودا بھی اسی ہی نسل کا اگتا ہے۔ اور اس طرح جب بڑے ہوکر سکول اور کالج جانا شروع کرتے ہیں تو سکول کے اندر کوئی نیا ماحول نہیں ہوتا وہی ماحول اور ویسا ہی تربیتی اسلوب اور کردار جس سے ہم تربیت گاہ میں پہلے سے ہی تقریباً آشنا ہوچکے ہوتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ہمارے سکولوں کا نظم و نسق اور ٹیچنگ جیسا مقدس پیشہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پل رہاہے جو اپنے وقت کے ہر میدان میں فیل یافتہ ، سفارش یافتہ اور نالائق یافتہ رہ چکے ہیں ۔ عمر کے اس حصے میں ایسے لوگ اساتذہ کے روپ میں دینی اور عصری تعلیم کے جو رموز سکھا رہے ہوتے ہیں وہ بھی انکے علم کی طرح سطحی ہوتے ہیں ۔جس کو نہ پڑھانے والے نے عملی طور پر اپنایا ہوتا ہے اور نہ کبھی ہم پڑھنے والوں کو اپنانے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ مثلا ًہمارے بڑے اور اساتذہ کتاب میں سنہرے الفاظ میں چھپے ہوے اسباق پڑھاتے ہیں کہ ، پہلا ، درگزر کرنا ، معاف کرنا بہت ہی رتبے اور نیکی کا کام ہے جبکہ ہمارے بڑوں اور اساتذہ نے کبھی خود زندگی میں کسی کو معاف یا درگزر نہیں کیا ہوتا۔ ہمارے اساتذہ کرام میں اکثریت کو بلڈ پریشر کی شکایت ہوتی ہے جسکی وجہ سے وہ طلباء پر مار پیٹ سے اپنا غصہ نکالتے ہیں اور اس وقت اسکا اسلام ، درگزر کرنا ، معاف کرنا ، وغیرہ کہیں دور بہت دور رہ گیا ہوتا ہے ۔ دوسرا ،بڑوں کا ادب و احترام اور چھوٹوں پہ شفقت کرنی چاہیے جبکہ ہمارے بڑے اور خاص کر اساتذہ میں سے آج تک کوئی بھی رحم ، ادب و احترام کے رویے کے پاس تک سے بھی نہیں گزرے ہوتےاور رہی تعلیمی قابلیت تو تعلیمی قابلیت کی بناء پر آج تک کوئی ٹیچر معاشرے میں مشہور تو نہیں ہوا مگر فرعونیت اور ظلم کی خصلتوں کی بناء پر مختلف ناموں اور شکلوں سے بہت سارے مشہور و معروف ہیں اور وہ اس کو اپنا اعزاز اور فخر سمجھتے ہیں ۔
یہ ایک اسلام ہے جو اس سارے عرصے میں تربیت گاہ کے پہلے دن سے شروع ہو کر یونیورسٹی کے آخری دن تک جو اسے مختلف طریقوں سے پڑھایا جاتا ہے جسکا تعلق صرف چند عام عبادات کے علاوہ پڑھنے اورپڑھانے کی حد تک ہوتاہے۔ جب بڑے ہوکر والدین اور اساتذہ کے بناۓ ہوۓ اس حرم کی قید سے آزاد ہوکر نکل آتے ہیں اور رب کریم کی ذات اپنےفضل سے نواز کر دین کا ازسر نو خود سے مطالعہ ، تحقیق اور غور و خوض شروع کر لیتے ہیں۔ تو وہ اسلام کو بالکل اس حرم کی قید میں سکھائے ہوئے اسلام سے مختلف پاتے ہیں۔ اوراسکو ہم “; دو اسلام ” کا نام دیتے ہیں ۔
جوانی میں دوسرے ممالک اور معاشروں کے نوجوان زندگی کے مختلف تعلیمی اور فنی میدانوں میں اپنے اپنے ملک و وطن کا نام روشن کر رہے ہوتے ہیں ، جبکہ میرے وطن کے جوان اس عمر میں دو اسلام کی چکی میں پیس رہے ہوتے ہیں ۔
وہ چکی کے اس گرداب سے نکلنے کے لیے ہاتھ پاوں مارنا شروع کردیتے ہیں ، لیکن اکثریت تھک ہار کر ہمت و حوصلہ ہار جاتے ہیں اور جو اس گرداب سے نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ وقت سے بہت پیچھے رہ چکے ہوتے ہیں۔ اور انہی ساری چیزؤں کو سامنے رکھ کر اگردیکھا جائے تو مسلمانوں کے علمی اور فنی غرض ہرمیدان میں زوال کی وجہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ہم نے حقیقی اسلام کو پس پشت ڈال کر منہ زبانی اسلام کو اپنایا ہواہے۔ ہم نے اسلام کو چند عبادات اور رسومات اداکرنے کے لیے چھوڑا ہے حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابط حیات ہے جو صرف عبادات اور رسومات کی تعلیم نہیں دیتا ، بلکہ وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات کی حیثیت سے اپنانے کا درس دیتا ہے۔ اسلام ” اُدخلو فی السلم کافہ “کی تعلیم دیتا ہے ۔ اور جب تک ہم اسلام کو اس کی اصلی اور حقیقی صورت میں اپنی زندگی میں نہیں لائیں گے تب تک عروج کے آفتاب کی کرن تک دیکھنے کو نہیں ملے گی ۔ کیونکہ کامیابی کا اصل راز ہی اسی فلاسفی میں پنہاں ہے کہ “لا الہ الا اللہ محمدُرسول اللہ”اللہ پاک ہمیں اسلام کو پورا پورا عملی زندگی میں لانے کی اور اسکو دوسروں تک پھیلانے کی توفیق عطا فرماۓ ۔۔۔ آمین

Facebook Comments

سلمان اسلم
طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply