ڈاکٹر روتھ فائو کا سانحہ ارتحال

ڈاکٹر روتھ فائو کا سانحہ ارتحال
طاہر یاسین طاہر
قدرت کچھ بندوں کو بڑے کاموں کے لیے ازل سے ہی منتخب کر لیتی ہے،ڈاکٹر روتھ فائو ان ہی بڑے لوگوں میں سے ایک تھیں جنھیں اللہ رب العزت نے دکھی انسانیت کی خدمت کے لیے منتخب کر لیا تھا۔ ڈاکٹر روتھ فائو نے کراچی کو اپنا مسکن بنا کر یوں اپنے کام، پیشے اور انسانیت سے محبت کا ثبوت دیا کہ عقیدوں کی الجھنوں اور جنت و دوزخ کے راستوں کے ٹکٹ فروش بھی ڈاکٹر فائو کے کام کے معترف نظر آتے ہیں۔وہ معاشرے جہاں توہم پرستی عقیدے کی حد تک دخیل ہو وہاں عام روایات اور سماجی رویوں سے ہٹ کر کام کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے۔ پھر ایک ایسے سماج اور ملک میں جہاں عورت کا اکیلے گھر سے باہر نکلنا بھی قابل گردن زدنی جرم ٹھہرتا ہے، وہاں ڈاکٹر فائو نے جرمنی سے آکر اپنی شخصیت اور اپنے پیشے سے دیانت کا ایسا سحر قائم کیا کہ دوست دشمن سب اس کی لپیٹ میں آگئے۔
ڈاکٹر فائو آج ہم میں نہیں ہیں، مگر ہمیں یقین ہے کہ عالم بالا میں ان کی روح بہت شاداں و فرحاں ہو گی۔انھوں نے اپنے پیشے اور انسانیت سے محبت و دیانت کو جو درس دیا وہ ہم سب کے لیے یاد کرنا بھی بہت ضروری ہے۔یاد رہے کہ جذام یعنی کوڑھ کے مریضوں کا علاج کرنے والی ،پاکستان کی مدر ٹریسا ڈاکٹر روتھ فاؤ کراچی میں انتقال کرگئیں۔کراچی کے علاقے صدر میں جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے قائم میری ایڈیلیڈ سینٹر کے سی ای او کے مطابق 88 سالہ ڈاکٹر روتھ فاؤ 2 ہفتے سے نجی ہسپتال میں زیر علاج تھیں اور گذشتہ رات ساڑھے 12 بجے ان کا انتقال ہوا۔میری ایڈیلیڈ سینٹر نے گذشتہ روز سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر روتھ فاؤ کی صحت یابی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی تھی۔
ڈاکٹر روتھ فائو کے انتقال کی خبر کے ساتھ ہی میڈیا پہ ان کی سماجی و ذاتی زندگی کے حوالے سے جو معلومات شیئر کی جا رہی ہیں،ان کے مطابق “ڈاکٹر روتھ فاؤ 1960 میں جرمنی سے پاکستان آئی تھیں، انہیں 1979 میں ہلال امتیاز اور 1989 میں ہلال پاکستان کے اعزازات سے نوازا گیا۔ڈاکٹر روتھ فاؤ کو 1988 میں پاکستانی شہریت دی گئی، ان کی کوششوں کی بدولت پاکستان کو 1996 میں جذام فری ملک قرار دیا گیا”۔ڈاکٹر روتھ فاؤ کی آخری رسومات 19 اگست کو صدر میں واقع سینٹ پیٹرکس چرچ میں ادا کی جائیں گی۔ میری ایڈیلیڈ سینٹر کے مطابق پاکستان میں گذشتہ 55 سالہ سے جذام کے مریضوں کا علاج کرنے والی ڈاکٹر روتھ فاؤ کے نام پر 2017 میں تیسری مرتبہ آئی ایم کراچی (آئی اے کے) ایوارڈ بھی دیا گیا۔
یاد رہے کہ ڈاکٹر فائو کو راہباؤں کی ایک جماعت” ڈاٹرز آف دی ہارٹ آف میری” جس کی وہ رکن تھیں، نے طالب علموں کی طبی خدمت کے لئے 1960 میں پاکستان بھیجا تھا- اس وقت ان کا ارادہ تھا کہ وہ ہندوستان بھی جائیں گی تاہم قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا-جب انھوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی حالت زار اور اس پہ سماجی رویہ دیکھا تو انھوں نے مستقلاً یہاں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ان ہی کا ہنر اور لگن تھی کہ 1996 میں، عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو، ایشیا کے ان اولین ملکوں میں سے ایک قرار دیا جہاں جذام پر قابو پا لیا گیا۔وہ صرف اپنے مریضوں کا علاج ہی نہیں کرتی تھیں بلکہ انھیں سماج کا کار آمد فرد بنانےمیں بھی ان کی معاونت کرتی تھیں۔
ڈاکٹر فائو نے صرف کراچی میں ہی کوڑھ کے مریضوں کا علاج نہیں کیا بلکہ انھوں نے جذام کے مریضوں کے لیے پاکستان بھر کا سفر بھی کیا اور اس سفر میں انھیں مختلف تجربات سے بھی گذرنا پڑا،حتیٰ کہ انھیں نام نہاد غیرت مند اور اسلام پسند مردوں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا بھی جاتا رہا، جبکہ وہ جذام کی خواتین مریضوں کے معائنے کے لیے پاکستان کے دور دراز علاقوں کا سفر کرتیں۔ڈاکٹر فائو نے جذام کے مریضوں کے علاج کے لیے اپنے میڈلز اور انعامات تک فروخت کر دیے۔بحثیت پاکستانی اور بحثیت انسان و مسلمان،ہم ڈاکٹر فائو کے جذبے، لگن اور ان کی اپنے کام سے دیانت کی قدر کرتے ہیں، اور ان کی روح کے لیے دعا گو ہیں۔ صحیح معنوں میں وہ پاکستان کی مدر ٹریسا تھیں، ایسے ہی لوگ ہیں جو زمین کا ناز ہوتے ہیں اورحقیقی معنوں میں صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں۔ہمیں اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ ڈاکٹر فائو کے پاکستان اور انسانیت پہ جو احسانات ہیں یہ ادارتی نوٹ اس کا بدل نہیں ہو سکتا مگر ہم مطمئن ہیں کہ ہم احسان فراموش نہیں بلکہ اپنے محسنوں کو یاد رکھنے والے اور قدر دان معاشرے کے بیدار مغز افرادمیں سے ہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ڈاکٹر روتھ فائو کا سانحہ ارتحال

  1. زبردست انسان کو زبردست خراج عقیدت، جتنا انہوں نے ہمارے لیے کچھ کیا ہمیں انکو منظم اور سرکاری سطح پر خراج تحسین پیش کرنا چاہئے ۔گو کہ ہماری تاریخ محسنوں کے ساتھ سلوک کے حوالہ سے زیادہ صحت مند نہیں ہے

Leave a Reply