خلوص کی تلاش۔۔۔۔روبینہ فیصل

خلوص ۔۔یہ لفظ ہم اپنی زندگیوں میں بہت دفعہ سنتے بھی ہیں اور استعمال بھی کرتے ہیں مگرہے کہاں ؟آپ کو نظر آرہا ہے ؟ مجھے تو نہیں ۔۔ اور خلوص کی تلاش کی یہ کہانی بہت لمبی ہے۔ مگر کچھ کچھ تو سنانی ہے۔ نہ سنائی تو دنیا کوکیسے پتہ چلے گا کہ ہماری زندگیوں میں یہ بیزاری ، اکتاہٹ اور مایوسی کیوں بڑھ رہی ہے ؟خلوص کی یہ کمی اس وقت  زیادہ محسوس ہو تی ہے جب آپ کو رب نے اُس مٹی سے گوندھ کر بنا یا ہو ۔۔۔میں ،اپنی زندگی کو مڑ کر دیکھتی ہوں تو وہ بھائیوں کے ساتھ پتنگ بازی کرتے ، سائیکل چلاتے ،کرکٹ ،کینچے ، گلی ڈنڈا کھیلتے اوردرختوں سے کچے پھل توڑنے میں گزری ،ساتھ ساتھ کاغذ کے گڈے گڈیاں بنا کر ان کی زندگیوں کی کہانی بناتی ،نہ جانے ننھے ذہن میں وہ کہانیاں کیسے آجاتی تھیں ۔۔۔ خیر یہ تھی میری دنیا ۔۔ کتابوں ، کھیلوں، اور کہانیوں کی دنیا ۔۔
مجھے نہیں یاد کہ مڈل کے بعد میں نے کبھی خالی سٹوڈنٹ والی زندگی گزاری ہو ، چھوٹی سی عمر میں ہی میں ٹیچر بھی بن چکی تھی ۔۔انہی بچوں کو پڑھانا اور فری ٹائم میں انہی بچوں کے ساتھ کھیلنے بھی لگ جانا ۔۔۔تب سے ہی دو مختلف روبینہ کو ایک جسم میں رہنے کی عادت پڑ چکی ہے ۔
بات ہو رہی ہے خلوص کی تلاش کی ۔۔۔۔۔۔۔
ورکنگ وومنزکے بچے میرے جیسے ہی ہو تے ہو نگے ، رشتے داروں اور محلہ داروں کی سیاستوں اور کثافتوں سے دور ، بس ایک اپنی دنیا میں مگن۔ اورماں باپ کا شعبہ تدریس ہو تو بس کتابوں کے آگے جہاں اور بھی ہیں ۔۔ اس کی سمجھ بہت بعد میں کہیں جا کر آتی ہے اور میرا وہ “بعد”کینیڈا آنے کے بعد شروع ہوا ۔
شادی ہو ئی تو شوہر بھی دنیا داری میں سیدھے سادے نکلے ،ان کی ذہانت بھی کتابوں تک ہی تھی ۔۔ کینیڈا آنے کے بعد جب بھانت بھانت کے لوگوں سے پالا پڑنا شروع ہوا تومیرے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے ۔ میں جو اپنے آپ کو بہت ذہین و فطین سمجھتی تھی لوگوں کو ہینڈل کرنے اور بار بار منہ کی کھانے کے بعد فیصل کی طرف مشورے کے لئے دیکھتی تو یا تو ایک سناٹے سے ملاقات ہو تی اور یا پھر مشتاق احمد یوسفی یا اشفاق احمد کی کسی روایت کسی حکایت سے ۔۔۔سوچیں میں نے خون کے ساتھ اور کون کون سے گھونٹ نہ پئے ہو نگے؟ ہجرت کے دکھ ایک طرف ، کینیڈا میں موجود اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں روز ایک نئے صدمے سے گذرنا کہیں بڑا دکھ تھا ۔ ۔۔ فیصل، فنانس کے جنئیس اور میں باتوں کی کھلاڑی ۔مگر اس میدان میں دونوں اناڑی۔ ۔۔تو کینیڈا کے اس سفر کی یہ تیاری نامکمل تھی ۔۔ دل بار بار کہتا تھا اٹھ کے زمانے میں جینے کے ڈھنگ سیکھ ۔۔ اورجینے کا ڈھنگ یہی تھا کہ میں اپنے خلوص کو مار دوں ، اس کی کوشش بھی کی مگر جب کوئی ضرورت میں پکارتا تو پھر سے سب بھول بھال جاتی ۔۔ پھر بھی انسانی رویوں کی تکلیف ، میری راتوں کی نیندیں کھا گئی تو کھا گئی مگر میری ہنسی اور اپنوں سے پیار اور خلوص کو نہ کھا سکی تھی۔ مگر ہر مخلص، حساس اور بے وقوف انسان کی زندگی میں ایک بریکنگ پو ائنٹ آتا ہے ، سو میری میں بھی آگیا ۔
( یاد رکھئے!! یہ کسی ایک واقعہ یا ایک انسان کی وجہ سے نہیں آتا ، یہ زندگی میں ایسے آتا ہے جب آپ نقصان اٹھاتے جاؤ اور نہ رویہ تبدیل کرو نہ لائحہ عمل ۔۔ اس لئے بے وقوف کہا ) ۔۔۔ تب میرے دفاعی نظام نے کہا رک جاو!!اب لڑنے کا نہیں ( بہت لڑ لیا ) اب پیچھے ہٹ کر زندگی کے آگے ہتھیار ڈال کر بیٹھنے کا وقت ہے ۔ ۔۔ اپنی روٹین وہیں روک دی ، ٹاک شو ، کالم ، افسانہ ، سوشل میڈیا ،لوگوں سے ملنا جلنا ۔۔ سب بند کر دیا ۔۔ فون نمبر تک بدلوا لیا۔ ۔۔۔۔خود سے پو چھا ۔۔مجھے کیا چاہیئے ؟۔۔ کیا میں نے ٹاک شو کر نا ہے ؟ کیا میں نے کالم لکھنا ہے ، کیا میں نے افسانہ لکھنا ہے ؟ کیا میں نے فلم بنانی ہے ؟ کیا میں نے نظمیں کہنی ہیں ؟ کیا میں نے شہر کے ہو نے والے ہر فنکشن میں دوستوں کے کہنے پر بغیر سوچے سمجھے جانا ہے ؟ یہ جھمیلے میرے بچے پر اثر انداز تو نہیں ہو رہے ؟ مجھے کن لوگوں سے ملنا ہے ؟سب سے ملنا ہے تو کیسے ملنا ہے ؟ ۔ جب میں نے اپنے گرد ایک باؤنڈری لائن لگائی جس میں صرف وہ لوگ آسکتے تھے جنہیں میں چاہوں یا سب لوگ آسکتے مگر کہاں تک آسکتے ، یہ اختیار میں نے اپنے ہاتھ میں لیا تو زندگی میں جیسے سکون سا آگیاہو ۔۔ پہلے مرحلے میں مخلص لوگوں کو شارٹ لسٹ کیا ۔۔ یہ نہیں کہ باقی لوگ مخلص نہیں ، بس جو میرے خلوص کے ساتھ میچ کر گئے ۔۔ یہ ایسے ہی ہو تا ہے جیسے بلڈ گروپ میچ کرتا ہے ۔۔
اسی میچنگ سے یہ لکھنے لکھانے والا” رائٹ ناو” کا گروپ بن گیا ۔ رضوان میرے ساتھ خاموشی سے آکر کھڑا ہو گیا ۔اس نے کیا سوچا ہو گا میں نہیں جانتی مگر میری سوچ یہ تھی کہ کینیڈا ،پاکستانی، مسلمان ، دوستوں اور رشتے داروں سے بھرا پڑا ہے کیا اتنے بڑے ہجوم میں میرے مزاج کے پانچ لوگ بھی ہیں ؟جوادب ،نفسیات ، آرٹ ، کلچر ، سیاست ، مذہب پر بغیر کسی تعصب ، خوف یا تنگ نظری کے کھل کھلا کر ڈسکس کر سکیں؟ جو آپس میں اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ، تجربات ، اور مسئلے شئیر کر سکیں ؟ ۔ ان کے دلوں میں آپس میں کو ئی بغض یا کینہ نہ ہو ؟اور آپس میں نظریاتی اختلاف بھی ہوں تو خلوص میں دراڑ نہ آئے اورجب کبھی کسی فرد کو جذباتی ، معاشی یا نفسیاتی سہارے کی ضرورت پڑے تو وہ تنہا ہی اپنی لڑائی نہ لڑتا رہے اور جب ہم اکھٹے مل کے کھائیں ، تومیٹھے میں خلوص ہی خلوص ہو ۔۔۔۔
ایسے خواب دیکھنے کی نوبت نہ آتی اگر یہ ہماری زندگیوں کی حقیقت ہو تی تو ۔۔۔۔مگر اب خلوص ،وفا اور پیار یہ ڈھونڈنے کے لئے فیس بک ، ٹوئٹر ، انسٹا گرام پر لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں ۔۔خالی پن کا علاج کھوکھلے پن سے کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔ مگر میں چونکہ پرانے سکول آف تھاٹ کی ہوں ۔۔مجھے اپنے ہی گرد پھیلے لوگوں میں سے اپنے جیسے لوگ ڈھونڈنا تھے ۔۔ سو یہ گروپ بن گیا ۔۔ مجھے میرے جیسے پانچ نہیں دس نہیں بلکہ پندرہ لوگ مل گئے اور ہم سب آپس میں اتنے خوش ہیں کہ میں نظر بھر کر اس خوشی کو ،ا س محبت کو دیکھتی بھی نہیں کہ کہیں میری ہی نظر نہ لگ جائے ۔۔
ہم سب کچھ نہ کچھ لکھتے ہیں ، ایک دوسرے کی چیزیں پڑھتے اور احسان جتا جتا کر تبصرہ کرتے ہیں ۔۔۔جو جس کی اصلاح کر سکتا وہ بغیر کسی غرض کے لمحوں میں کر دیتا ہے ۔اسی گروپ میں چند قیمتی سننے والے ممبرز بھی ہیں جو مسکراہٹوں کے پھول لئے ہم جیسے بڑ بولوں کو پیار ہی پیار دیتے ہیں ۔
آج کی دنیا میں” ورکنگ ریلشن شپ” پر زور ہے ، صرف” ریلشن شپس” پر نہیں۔۔ ہم سب نے مل کر اس جدید یت کو توڑ ڈالا ہے ۔ ہمارا ریلشنشپ کوئی ورکنگ نہیں۔کیونکہ کسی کو کسی سے کوئی دنیاوی غرض نہیں سب بس خلوص ، سادگی اور عزت کے دھاگے سے ایک دوسرے سے بندھے ہیں ۔مجھے اس تصور سے ہی وحشت ہو تی ہے جب لوگ دلوں میں نفرتیں لے کر صرف سوشل نیٹ ورکنگ کے نام پر ایک دوسرے کوملنے کو زما نے میں جینے کا ڈھنگ بتاتے ہیں ۔۔ مگر اب میرا”خلوص “پر کو ئی کمپرومائز نہیں ۔۔ ملنا ہے تو خلوص سے ملو ورنہ چھٹی۔۔ دوستی کا یہ معیار نایاب اور مشکل ضرور ہے مگر یہی ہونا چاہیئے ورنہ اسکا متبادل تنہائی تو ہو سکتی مگرمنافقت بھرا کچرا نہیں۔۔
اس گروپ کی کچھ رونق کشمیر اور کراچی کی آوٹ سورسنگ کی مرہون منت بھی ہے ۔۔۔مریم مجید،سلمہ،صدف ۔۔۔
مجھے اس گروپ میں موجود سب لوگوں سے پیار ہے کیونکہ ان سب نے مل کر میری خلوص کی ناممکن تلاش کو اس وقت ممکن بنا یا جب میں دھوکے کا آخری چہرہ بھی دیکھ چکی تھی ۔۔۔اور مایوسی کی انتہا پر تھی ۔
تنگ نظری ،بناوٹ ، منافقت اور ورکنگ ریلشنشپ کے اس دور میں ایسا گروپ ایک نعمت ہے ۔ میں خدا سے” رائٹ ناؤ” گروپ میں ممبرز کے بڑھنے کی نہیں ، بلکہ موجودہ ممبرز میں خلوص ، پیار اور آپسی عزت بڑھنے کی دعا کرتی ہوں ۔ اس کا احساس ، لوگوں کو بہت بعد میں جا کر ہو گا کہ خلوص زندگی کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”خلوص کی تلاش۔۔۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply