صداقتوں کی راہ

صداقتوں کی راہ میں ,
قدم قدم پہ ہم کو ,
کُلفتوں سے واسطہ رہا,
کبھی تو دل فگار تھے,
کبھی جگر پہ ہاتھ تھا,
اذیتوں کی تھی نوید,
زندگی
مصیبتوں میں لمحہ لمحہ اضطراب تھا,
کدورتیں دلوں کی ڈھل کے تیرگی میں روبرو ملیں,
مگر ڈٹا رہا
کبھی جو ڈگمگایا تو,
ماضی کی کتاب کھول لی…
تو ماضی کی کتاب دیکھ کر ,
سبھی کہانیوں حکایتوں کو جان کر,
سبق ملا مجھے
کہ ماضی میں اصول تھا,
یہ روگ آج کا نہیں,
یہ المیہ ہے ہر زمانے کا,
معاشروں میں یہ رواج تھا ,
روش یہی رہی تھی کو بہ کو ڈگر ڈگر نگر نگر
نظر جدھر بھی گئی مری,
قبیل آدمی میں سب
جو مسندوں پہ تھے لکیر کے فقیر تھے,
مذاق در مذاق بس دلوں سے کھیلتے تھے سب,
یہی رہی ہے ریت بھی
کہ سوچنا بھی جرم تھا,
سوال بھی حرام تھا,
مثال کیا میں بے حسی کی دوں
کہ مانگنا دلیل کا جرم اک عظیم تھا,
پکار اک یہی تھی وقت کی,
یہ راستے فقط سوا مسافتوں کچھ نہیں,
یہاں کہیں بھی منزلیں نہیں,
تو دل کو اک سکوں ملا یہ سوچ کر,
تو خود سے میں نے یہ کہا,
نئے نہیں ہو تم یہاں,
ازل سے ہے یہ ریت بھی,
زمانہ جب خلاف ہو
تو مان لو کہ حق پہ ہو,
تو جان لو کہ یہ بھی اک دلیل ہے,
صداقتوں کی راہ میں کدورتوں کے درمیاں
اذیتیں سمیٹ کر نفرتوں میں جی کے بھی
ہمیشہ اہل حق ملیں گے دار پر .

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”صداقتوں کی راہ

Leave a Reply