• صفحہ اول
  • /
  • اداریہ
  • /
  • پاکستانی تارکین وطن،انسانی سمگلنگ اور حکومت کی ذمہ داریاں

پاکستانی تارکین وطن،انسانی سمگلنگ اور حکومت کی ذمہ داریاں

طاہر یاسین طاہر
پاکستان میں جہاں دیگر کئی ایک مافیاز متحرک و مضبوط ہیں وہاں انسانی اسمگلرز بھی روزگار کے متلاشیوں سے ان کی جمع پونجی لوٹ رہے ہیں۔گذشتہ برس اقوام متحدہ کے ایک ادارے نے رپورٹ شائع کی تھی ،جسکے مطابق پاکستان میں انسانی سمگلنگ کے کاروبار سے لگ بھگ دس ہزار افراد منسلک ہیں جو لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک بھجواتے ہیں۔یہ امر واقعی ہے کہ بیرون ملک جانے والوں کی اکثریت کسی نہ کسی طرح پہنچ تو جاتی ہے مگر وہاں پردیس میں ان کے لیے نوکری،رہائش اور زبان و ہنر مندی سمیت کئی مسائل پیش آتے ہیں۔خلیجی ممالک میں ایجنٹس لوگوں کو جو تنخواہ اور دیگر سہولیات بتا کر بھجواتے ہیں ،وہ وہاں پر نہیں دی جاتی ہیں،جبکہ یورپ جانے والوں کو بھی سخت اور پریشان کن حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انسانی سمگلر جن افراد سے زمینی راستوں سے ترکی،یونان،اٹلی پہنچانے کا معاوضہ لیتے ہیں، ان بے چارے غریبوں میں سے کئی ایک سمندر کی لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں،کئی ایران،ترکی یا یونان و اٹلی کے بارڈرز پر پکڑے جاتے ہیں، کچھ پر بارڈر پر دہشت گرد سمجھ کر گولیاں چلائی جاتی ہیں، محدودے چند جو بچ جاتے ہیں وہ سفری و مالی صعوبتیں سہہ کر اپنی منزل تک پہنچ تو جاتے ہیں مگر وہاں پر ضروری ریاستی کاغذات کی عدم دستیابی پر پہلے جیل اور پھر گھر بھیج دیے جاتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

’’حکومت پاکستان کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 2012سے سنہ 2015 تک کے تین سال کے مختصر عرصے کے دوران تقربیاً ڈھائی لاکھ پاکستانی، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران سمیت دنیا کے مختلف ملکوں سے نکالے جانے کے بعد وطن واپس پہنچے تھے۔پاکستان کی سرکاری خبررساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لیبر مائگریشن فرام پاکستان سٹیسٹس رپورٹ سنہ 2015 کا حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایران کے علاوہ جن ملکوں سے پاکستانیوں کو نکالاگیا ہے ان میں عمان، یونان، برطانیہ اور ملائیشیا شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 242870 پاکستانی جن میں اکثریت مزدوروں کی تھی وہ پاکستان واپس آئے ہیں۔ خاص طور پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے نکالے جانے والوں میں اکثریت روز گار کے متلاشی مزدوروں، نیم ہنر مندوں ، چھوٹے تاجروں اور بزنس مینوں کی ہے۔ جبکہ ایران سے واپس بھیجے گئے افراد میں وہ لوگ شامل تھے جو غیر قانونی طور پر یونان اور اس سے آگے یورپ جانے کے لیے پاکستان سے نکلے تھے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سب سے زیادہ پاکستانی سنہ 2014 میں پاکستان واپس بھیجے گئے تھے جب 77000 پاکستانی واپس آئے تھے۔خلیج تعاون کونسل میں شامل ملکوں سے زیادہ تر سکیورٹی خدشات کی بنا پر پاکستانیوں کو نکالا گیا تھا اور وہ واپس وطن آئے تھے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے برسوں میں اس رجحان میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے اور اس کی وجہ سے انسانوں کی سمگلنگ اور غیر قانونی طور پر مشرق وسطیٰ اور مغربی ممالک میں جانے والوں کی تعداد بھی بڑھ سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کے جرائم اور منشیات کی روک تھام کے ادارے کے مطابق غیر قانونی طور پر ملک چھوڑنے والوں میں اکثریت کا تعلق پاکستان کے صوبے پنجاب کے شہروں گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ ، منڈی بہاؤ الدین، ڈیرہ غازی خان اور ملتان سے ہوتا ہے۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سنہ 2007 سے جون سنہ 2015 تک پانچ لاکھ افراد پاکستانیوں کو پاکستان واپس بھیجا گیا۔غیر قانونی یا سفری دستاویزات میں مسائل کے باعث سنہ 2005 سے سنہ 2015 کے دس برس میں نو لاکھ سے زیادہ پاکستانیوں کو پکڑ کر مختلف ملکوں سے واپس بھیجا گیا۔‘‘
ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتوں کا کام ایسے دلسوز واقعات کی رپورٹس شائع کرنے سے بڑھ کر یہ ہے کہ ایسے واقعات کا محرک بننے اور ملک کی بدنامی کا باعث بننے والے انسانی سمگلروں پر ہاتھ ڈالا جائے۔یہ تو سب کو پتا ہے کہ جو لوگ پکڑے جاتے ہیں انھیں پہلے جیل بھیجا جاتا ہے اور پھر ڈی پورٹ کر دیا جاتا ہے۔ یہ امر واقعی ہے کہ گذشتہ و موجودہ حکومتوں کا کردار اس حوالے سے قابل گرفت ہے۔
ہمیں یہ کہنے میں بھی کوئی باک نہیں کہ بیشتر انسانی سمگلروں کو طاقت ور سیاسی و عسکری شخصیات کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے جبکہ بیورو کریسی کے اندر بھی ایسے طاقت ور اور صاحب اختیار افراد موجود ہیں جو انسانی سمگلروں سے اپنے فرنٹ میں کا کام لیتے ہیں۔دکھ کی بات یہی ہے کہ غریب افراد کو لوٹنے والی بڑی مچھلیوں پر آج تک کسی نے ہاتھ نہیں ڈالا۔جب تک برائی کو جڑ سے ختم نہیں کیا جائے گا اس ناسور سے نجات ممکن نہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply