ٹرمپ مودی ملاقات میں پاکستان کے خلاف الزامات کی تکرار

ٹرمپ مودی ملاقات میں پاکستان کے خلاف الزامات کی تکرار
طاہر یاسین طاہر
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی باہمی ملاقات کے دوران میں اس بات کی پھر سے تکرار کی گئی کہ پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہی ہے، جس کے باعث افغانستان میں بھی امن نہیں ہو پا رہا اور بھارت بھی اس سے متاثر ہے۔ یاد رہے کہ یہ پاکستان کے خلاف ایسا مسلسل پروپیگنڈا ہے جو عشروں سے کیا جا رہا ہے اور ظاہر ہے اس مسلسل جھوٹ کے اثرات بھی مرتب ہوتے رہتے ہیں اور بین الاقوامی برادری بھارت کے اس پروپیگنڈے سے گاہے متاثر ہوتی بھی نظر آتی ہے۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ اپنی سرزمین دیگر ممالک پر حملوں کے لیے دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے۔امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں ملاقات کے دوران امریکی صدر اور بھارت کےوزیر اعظم نے دونوں ممالک کے دفاعی تعاون، دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ اور افغانستان میں جاری جنگ کے خلاف مل کر کام کرنے کا عزم کیا۔امریکی وائٹ ہاوس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی نے ملاقات کے دوران پاکستان پر زور دیا گیا کہ وہ اپنی سرزمین دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال نہ ہونے دے اور اس کی روک تھام کے لیے ضروری اقدامات کرے۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کے مطابق دونوں رہنماوں نے اقوام عالم پر زور دیا کہ وہ اپنے تمام علاقائی اور سمندری تنازعات کو عالمی قوانین کے تحت پر امن طریقے سے حل کریں۔دوطرفہ ملاقات کے بعد وائٹ ہاوس کے باہر مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران امریکی صدر کا کہنا تھا کہ بھارت اور امریکا دہشت گردی کی برائی اور اسے چلانے والے انتہا پسند نظریات سے متاثر ہوئے ہیں۔ اگرچہ اب تک دونوں ممالک کی جانب سے اہم اعلانات سامنے نہیں آئے ہیں تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے بھارت کے ساتھ 36 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے 20 ڈرون طیاروں اور ایک مسافر طیارے کی فروخت کے معاہدے کی تصدیق کر دی۔یاد رہے کہ امریکا بھارت کو 2008 سے اب تک فوجی سامان فروخت کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ 9 برسوں میں 15 ارب ڈالر کے دفاعی معاہدے ہو چکے ہیں۔
بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کے اس موقع پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ امریکا اور بھارت کے تعلقات کبھی بھی بہتر اور مضوبط تر نہیں رہے۔امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ امریکا بھارت کے ساتھ کام کرنا چاہتا ہے اور دو طرفہ شفاف تجارتی تعلقات کی تعمیر کرنا چاہتا ہے جس سے دونوں ممالک کے لوگوں کو ملازمتوں کے مواقع میسر آسکیں اور ساتھ ہی دونوں ممالک کی معیشتیں بھی مضبوط ہوں گی۔ڈونلڈ ٹرمپ کا مزیدکہنا تھا کہ اب امریکی اشیاء کی بھارتی منڈیوں تک رسائی کی رکاوٹیں ختم ہو گئیں جس کی مدد سے امریکا کا مالی خسارہ کم ہوجائے گا۔
یہ امر واقعی ہے کہ ابھی اس دورے اور اس دورے کے نتیجے میں ہونے والے باہمی معاہدات کی کلی تفصیلات تو سامنے نہیں آئی ہیں ،البتہ دونوں رہنماوں کی باہمی دلچسپیوں اور دونوں کی ذہنی ہم آہنگی سے انداہ لگایا جا سکتا ہے کہ نریندر مودی اور ٹرمپ ملاقات کے بعد دنیا اور بالخصوص خطے کے لیے کوئی نیک خواہشات نہیں ہوں گی۔ ٹرمپ اسلحہ سازی کی صنعت کے ذریعے امریکی معیشت کو سہارا دینا چاہتے ہیں اور اس مقصد کی خاطر وہ پہلے ہی سعودی عرب اور قطر سے بلین ڈالرز کے معاہدے کر چکے ہیں جبکہ اب انھوں نے بھارت کو بھی ڈرون طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کر لیا ہے۔بھارت امریکہ کو یہ باور کرا رہا ہے کہ پاکستان کی سرزمین اس کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہوتی ہے، جبکہ افغانستان کو امریکی،بھارتی و یورپی تکون یہ سمجھا رہی ہے کہ کابل کے مسلسل سلگتے رہنے کی وجہ صرف اور صرف پاکستان ہے،اور یوں پاکستان کے دو ہمسایہ ممالک پاکستان پر مسلسل الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں، جبکہ افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں دہشت گرد تنظیموں کا عالمی اڈا ہے۔
داعش وہاں موجود ہے،پاکستان کے انتہائی مطلوب دہشت گرد، افغانستان میں موجود ہیں، جبکہ بھارت مسلسل لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گولہ باری کرتا رہتا ہے۔ابھی عید الفطر سے چند دن قبل کوئٹہ،کراچی اور پارا چنار میں ہونے والی دہشت گردی کے ڈانڈے بھی افغانستان اور را سے ہی ملتے ہیں، کیونکہ دہشت گردوں کو مالی و اسلحہ سپورٹ مذکورہ ممالک سے ہی ملتی ہے۔ عالمی برادری بھارتی پروپیگنڈے کا شکار ہونے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی ان قربانیوں کا بھی اعتراف کرے جو پاکستان ابھی تک دیتا آرہا ہے۔پاکستان تو خود دہشت گردی کاشکار ملک ہے اور “را “اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کا باہمی اشتراک پاکستان میں دہشت گردی کروانے کا ذمہ دار ہے۔لہٰذا مودی و ٹرمپ ملاقات میں پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply