خلافت سے کربلا تک : حضرت عمر کا طرز حکومت (پانچویں قسط )

حضرت عمر رضی الله عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں جس بہترین انداز سے حکومت چلائی مسلم و غیر مسلم مورخین اس پر شاہد ہیں۔ ہم یہاں ان کے دور کی تاریخ مرتب کرنے کے بجاۓ اپنے موضوع یعنی خلافت علیٰ منہاج النبوه کے خدوخال کا جائزہ لیں گے۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کی اپنے گورنروں پر گرفت کیسی تھی- اس سلسلے میں یہ خطبہ ملاحظہ ہو :

حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، عَنْ أَبِي فِرَاسٍ، قَالَ: خَطَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ: «أَلَا إِنِّي وَاللَّهِ مَا أَبْعَثُ إِلَيْكُمْ عُمَّالًا لِيَضْرِبُوا أَبْشَارَكُمْ وَلَا لِيَأْخُذُوا أَمْوَالَكُمْ، وَلَكِنْ أَبْعَثُهُمْ إِلَيْكُمْ لِيُعَلِّمُوكُمْ دِينَكُمْ وَسُنَّتَكُمْ، فَمَنْ فُعِلَ بِهِ سِوَى ذَلِكَ فَلْيَرْفَعْهُ إِلَيَّ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ»، فَوَثَبَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، أَرَأَيْتُكَ إِنْ كَانَ رَجُلٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى رَعِيَّةٍ فَأَدَّبَ بَعْضَ رَعِيَّتِهِ إِنَّكَ لَمُقِصُّهُ مِنْهُ؟ قَالَ: أَيْ وَالَّذِي نَفْسُ عُمَرَ بِيَدِهِ لَأُقِصَّنَّهُ مِنْهُ، أَنَا لَا أُقِصُّهُ مِنْهُ وَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقِصُّ مِنْ نَفْسِهِ؟ «أَلَا لَا تَضْرِبُوا الْمُسْلِمِينَ فَتُذِلُّوهُمْ، وَلَا تَمْنَعُوهُمْ مِنْ حُقُوقِهِمْ فَتُكَفِّرُوهُمْ

حضرت ابی فراس کہتے ہیں کہ حضرت عمر رضی الله عنہ نے خطبہ دیتے ہوۓ کہا جان لو ! الله کی قسم میں تم پر اپنے عمال اس لیے مقرر نہیں کرتا کہ وہ تمھیں ماریں یا تمہارا مال ناحق طریقے سے لیں بلکہ میں تو تمہیں دین اور سنت سکھانے کے لیے مقرر کرتا ہوں۔ لہٰذا جو کوئی اس کے علاوہ کچھ کرے تو میرے پاس آؤ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں لازما ً اس اہل کار سے قصاص لوں گا۔

اس پر عمرو بن عاص رضی الله عنہ نے کہا اے امیر المومنین اگرکوئی اپنی رعیت کو آداب سکھانے کے لیے مارے تو بھی آپ اس سے قصاص لیں گے؟ یہ سن کر حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا ہاں! قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں عمر کی جان ہے میں اس سے لازماً قصاص لوں گا۔ میں اس سے قصاص کیوں نہ لوں جب کہ میں نے خود رسول اللهﷺ کو اپنا آپ قصاص کے لیے پیش کرتے دیکھا ہے۔ خبردار ! مسلمانوں کو مت مارو کہ ان کو ذلیل کرو گے، ان کے حقوق غصب مت کرو اس طرح انہیں کفر پر مجبور کرو گے۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ، حدیث نمبر ٣٢٩٢١ و سندہ حسن لذاتہ- مستدرک الحاکم حدیث نمبر ٨٣٥٦ و قال حاکم و ذهبی صحیح علی شرط المسلم )

یہ تو تھی حضرت عمر رضی الله عنہ کی اپنے گورنروں کو ہدایات۔ اسی طرح ایک شخص نے جب حضرت عمر رضی الله عنہ سے ایک گورنر کی شکایت کی تو انھوں نے اس پر کس ردِ عمل کا اظہار کیا، مندرجہ ذیل واقعہ اس کا شاہد ہے –
مصنف ابن ابی شیبہ میں صحیح حدیث نمبر ٣٣٨٢٦ میں آتا ہے کہ ایک شخص حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی الله عنہ کے ساتھ جہاد میں شامل ہوا- وہ بہت بہادر تھا مگر جب مال غنیمت کی تقسیم ہوئی تو حضرت ابو موسیٰ اشعری نے اسے حصہ سے کم دیا جو اس نے لینے سے انکار کر دیا – اس پر حضرت ابو موسیٰ نے اس کو 20 کوڑے لگواۓ اور اس کا سر منڈوا دیا۔ وہ شکایت لیے حضرت عمر کے پاس آیا اور انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا :
سَلَامٌ عَلَيْكُمْ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ أَخْبَرَنِي بِكَذَا وَكَذَا , وَإِنِّي أُقْسِمُ عَلَيْكَ إِنْ كُنْتَ فَعَلْتَ بِهِ مَا فَعَلْتَ فِي مَلَأٍ مِنَ النَّاسِ لَمَّا جَلَسْتَ فِي مَلَأٍ مِنْهُمْ فَأَقْتَصُّ مِنْكَ , وَإِنْ كُنْتَ فَعَلْتَ بِهِ مَا فَعَلْتَ فِي خَلَاءٍ فَاقْعُدْ لَهُ فِي خَلَاءٍ فَيُقْتَصُّ مِنْكَ۔
مجھے فلاں نے تمہاری شکایت کی ہے کہ تم نے اس سے ایسا ایسا سلوک کیا ہے۔ میں تمھیں حکم دیتا ہوں کہ اگر تم نے یہ کام لوگوں کے سامنے کیا ہے تو اسے لوگوں کے سامنے قصاص دو۔ اور اگر تم نے ایسا اکیلے میں کیا ہے تو اکیلے میں اسے قصاص دو۔ ساتھ ہی حضرت عمر رضی الله عنہ نے اس آدمی کی ہمت پر تبصرہ فرماتے ہوۓ کہا لَأَنْ يَكُونَ النَّاسُ كُلُّهُمْ عَلَى مِثْلِ صَرَامَةِ هَذَا أَحَبُّ مِنْ جَمِيعِ مَا أَتَى عَلَيَّ۔ اگر سب لوگ اس کی طرح بہادر ہو جائیں تو مجھے یہ بات آنے والے تمام مالِ فے سے زیادہ عزیز ہے۔
یہ تھی حضرت عمر رضی الله عنہ کی اپنے گورنروں پر گرفت۔ یہ سیرت اس فرمان نبوی صلی الله علیہ وسلم کی شرح ہے جس میں انھوں نے حضرت عمر کے بارے میں ارشاد فرمایا : إِيهًا يَا ابْنَ الخَطَّابِ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا لَقِيَكَ الشَّيْطَانُ سَالِكًا فَجًّا قَطُّ، إِلَّا سَلَكَ فَجًّا غَيْرَ فَجِّكَ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے عمر ابن خطاب جس راہ پر تو چل رہا ہو شیطان وہ راستہ چھوڑ کے دوسرے راستے بھاگ جاتا ہے- (بخاری، حدیث نمبر ٣٦٨٣)

عمر رضی الله عنہ نے اسلام کو جو طاقت بخشی اسی کے بارے میں حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں: مَازِلْنَا أَعِزَّةً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ۔ جب سے عمر نے اسلام قبول کیا ہے ہماری عزت میں کمی نہیں ہونے پائی۔ (البخاری، حدیث نمبر ٣٦٨٤)

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے جہاں اپنے بعد مدت خلافت علی منہاج النبوۃ جیسی چیزوں کی خبردی تھی وہاں حضرت عمر رضی الله عنہ کی شہادت کی پیشگی خبر دے دی تھی۔ اس بارے میں آنے والی ایک حدیث کچھ یوں ہے: يُحَدِّثُ عَنْ حُذَيْفَةَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: أَيُّكُمْ يَحْفَظُ قَوْلَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الفِتْنَةِ؟ فَقَالَ حُذَيْفَةُ: أَنَا أَحْفَظُ كَمَا قَالَ، قَالَ: هَاتِ، إِنَّكَ لَجَرِيءٌ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ، تُكَفِّرُهَا الصَّلاَةُ، وَالصَّدَقَةُ، وَالأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ، وَالنَّهْيُ عَنِ المُنْكَرِ» ، قَالَ: لَيْسَتْ هَذِهِ، وَلَكِنِ الَّتِي تَمُوجُ كَمَوْجِ البَحْرِ، قَالَ: يَا أَمِيرَ المُؤْمِنِينَ، لاَ بَأْسَ عَلَيْكَ مِنْهَا، إِنَّ بَيْنَكَ وَبَيْنَهَا بَابًا مُغْلَقًا، قَالَ: يُفْتَحُ البَابُ أَوْ يُكْسَرُ؟ قَالَ: لاَ، بَلْ يُكْسَرُ، قَالَ: ذَاكَ أَحْرَى أَنْ لاَ يُغْلَقَ، قُلْنَا: عَلِمَ عُمَرُ البَابَ؟ قَالَ: نَعَمْ، كَمَا أَنَّ دُونَ غَدٍ اللَّيْلَةَ، إِنِّي حَدَّثْتُهُ حَدِيثًا لَيْسَ بِالأَغَالِيطِ، فَهِبْنَا أَنْ نَسْأَلَهُ، وَأَمَرْنَا مَسْرُوقًا فَسَأَلَهُ فَقَالَ: مَنِ البَابُ؟۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا تم میں سے کون ہے جس کو حضورﷺ کی فتنوں سے متعلق احادیث یاد ہیں۔ تو حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا مجھے اس بارے میں سب سے زیادہ احادیث یاد ہیں – حضرت عمر رضی الله عنہ نے ارشاد فرمایا: حذیفہ بیان کرو تم واقعی ہمت کر کے پوچھ لیتے تھے۔ حضرت حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا آدمی کو جو آزمائشیں اس کے گھر والوں، مال اور پڑوس کی طرف سے آتی ہیں وہ نماز، صدقہ، اچھائی کا حکم دینے یا برائی سے روکنے سے مٹتی رہتی ہیں۔ تو حضرت عمر رضی الله عنہ نے کہا میں اس فتنے کا نہیں پوچھا، بلکہ ان کی سناؤ جو سمندر کی لہروں کی طرح ہوں گے۔ حضرت حذیفہ نے کہا اے امیر المومنین آپ کو ان سے سابقہ نہیں پڑے گا کیوں کہ آپ کے اور ان کے درمیان ایک مضبوط اور بند دروازہ ہے۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا وہ دروازہ کھولا جائے گا یا توڑ دیا جائے گا۔ حذیفہ رضی الله عنہ نے کہا کہ توڑا جائے گا۔ حضرت عمر نے کہا پھر تو وہ فتنوں کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوگا۔ حضرت عمر کے بعد حضرت حذیفہ رضی الله عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا حضرت عمر رض کو اس دروازہ کے بارے میں پتہ تھا۔ تو انھوں نے جواب دیا ہاں، بغیر کسی شک کے، میں جو کہتا تھا اسے وہ بھی سمجھتے تھے اور میں بھی تو پھر ہم ڈر گئے کہ اس دروازے کے بارے میں اور حضرت حذیفہ سے پوچھیں، پھر ہم نے حضرت مسروق سے پوچھا وہ دروازہ کیا تھا؟ تو انھوں نے کہا عمر ہی وہ دروازہ تھے- (بخاری، حدیث نمبر ٣٥٨٦)

اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں: ایک یہ کہ حضرت عمر کی شہادت کی خبر خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دےدی تھی۔ اور دوسری یہ کہ حضرت عمر رضی الله عنہ کے دور کے بعد فتنے امڈ کے آئیں گے۔

حضورﷺ کی پیشگی خبر کے مطابق 23 ذی الحجہ کو حضرت عمر رضی الله عنہ کو نماز فجر پڑھاتے ہوۓ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کے غلام نے خنجر کے وار کر کے زخمی کر دیا اور انہی زخموں کی وجہ سے تین دن بعد یعنی 26 ذی الحجہ کو آپ کی وفات ہو گئی۔ یہ جو عوام الناس میں آپ کی تاریخ شہادت یکم محرم مشہور ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ اسی بارے میں اسد الغابہ میں آتا ہے:
روى أَبُو بَكْر بْن إِسْمَاعِيل بْن مُحَمَّد بْن سعد [عَنْ أَبِيهِ] أَنَّهُ قَالَ: طعن عُمَر يَوْم الأربعاء لأربع ليال بقين من ذي الحجة، سنة ثلاث وعشرين، ودفن يَوْم الأحد [صباح]هلال المحرم سنة أربع وعشرين، وكانت خلافته عشر سنين، وخمسة أشهر، وأحدًا وعشرين يومًا وقَالَ عثمان بْن مُحَمَّد الأخنسي : هَذَا وهم، توفي عُمَر لأربع ليال بقين من ذي الحجة، وبويع عثمان يَوْم الأثنين لليلة بقيت من ذي الحجة۔ روایت کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر 23 ہجری میں ذی الحجہ میں چار دن باقی تھے اور بدھ کا دن تھا تو زخمی کیے گئے اور اتوار کے دن جب کہ محرم کا چاند نکل چکا تھا ان کی تدفین ہوئی۔ ان کی خلافت دس سال، پانچ مہینے اور اکیس دن ہوئی۔ اور امام عثمان بن محمد کہتے ہیں یہ سب باتیں وہم ہیں۔ حضرت عمر کی وفات 26 کو ہوئی اور حضرت عثمان کی بیعت محرم سے ایک دن پہلے ہوگئی تھی- (اسد الغابہ، جلد ٣ ، صفحہ ٦٧٦ )

حضرت عمر رضی الله عنہ کی شہادت پر حضرت علی رضی الله عنہ نے تبصرہ فرماتے ہوۓ فرمایا: ومن كلام له عليه السلام لله بلاد فلان، فلقد قوم الأود وداوى العمد، وأقام السنة، وخلف الفتنة! ذهب نقى الثوب، قليل العيب، أصاب خيرها، وسبق شرها.أدى إلى الله طاعته، واتقاه بحقه. رحل وتركهم في طرق متشعبة، لا يهتدى بها الضال، ولا يستيقن المهتدی۔ انھوں نے ٹیڑھے پن کو سیدھا کیا، اور بیماریوں کی دوا کی۔ ہر فتنے کا تعاقب کیا، اور سنت کو قائم رکھا، پاک اور صاف کردار کے ساتھ اور بہت کم غلطیوں کے ساتھ دنیا سے گئے۔ بھلائیوں کو پا لیا، اور برائیوں سے بچ گئے- الله کی مکمل اطاعت کی اور اسے ایسا ڈرتے رہے جیسا اس کا حق تھا، خود چلے گئے اور لوگوں کو ایسی حالت میں چھوڑ دیا کہ گمراہ ہدایت نہ پا سکے گا، اور ہدایت والا یقین سے محرم رہے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors

اس قول کی شرح فرماتے ہوۓ ابن ابی الحدید فرماتے ہیں: وفلان المكنى عنه عمر بن الخطاب، وقد وجدت النسخة التي بخط الرضى أبى الحسن جامع (نهج البلاغة) وتحت (فلان) (عمر)۔ اور فلاں سے مراد حضرت عمر ابن خطاب رضی الله عنہ ہیں، اور میں نے خود سید رضی کے ہاتھ کا لکھا نسخہ دیکھا ہے جس میں فلاں کے تحت عمر لکھا ہے۔ (نہج البلاغہ، خطبہ ٢٢٥، شرح از ابن أبي الحديد)

Facebook Comments

حسنات محمود
سائنس و تاریخ شوق، مذہب و فلسفہ ضرورت-

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply