• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • نانا کا گھر، نواسوں کا حق اور میری شرارتیں۔۔۔۔عمار کاظمی/حصہ اول

نانا کا گھر، نواسوں کا حق اور میری شرارتیں۔۔۔۔عمار کاظمی/حصہ اول

نانا جی کوئی بہت بڑے عالم نہیں تھے بمشکل چند مذہبی کتب پڑھ رکھی ہونگی، لیکن بڑے عزادار ضرور  تھے۔ وہ صاحبِ حیثیت ہونے کیساتھ ساتھ بہت مذہبی اور با کردار انسان تھے۔ نماز تہجد اور پنجگانہ نماز پڑھتے تھے۔ پچیس مربعے زمین کے اکلوتے وارث تھے۔ جدی پشتی سید شیعہ خاندان تھا۔ ہندوستان فیروز پور میں آپکے والد کا اپنا امام بارگاہ تھا سو جب پاکستان آئے تو یہاں دو مربے زمین عزداری کے نام پر وقف کرنے کیساتھ گاؤں میں ایک بڑا امام بارگاہ تعمیر کروایا۔ شاید ضلع قصور کے کسی اور گاؤں میں اتنا بڑا امام بارگاہ نہیں ہوگا۔ مسجد کے لیے جگہ دی اور گاؤں میں ہسپتال کے لیے زمین فراہم کی جو آج کروڑوں روپے مالیت کی ہے۔ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی مگر تھے تھوڑے کنجوس۔ چھ فٹ دو انچ کے خوبرو انسان تھے۔ جب بھی اپنے کم و بیش ایک فٹ کے خوبصورت ہاتھ سے بوندیوں کا تبرک بانٹنا تو بہت ساری بوندی ایک ہی بار ہاتھ میں لے لینی مگر پھر مٹھی باری باری کھولتے کنٹرولڈ طریقے سے تین چار بندوں پر وہی بوندی پوری کر دینی۔ ہمیں ہمیشہ من ہی من شکوہ رہتا کہ بوندی تھوڑی کیوں دیتے ہیں۔ سو جب بھی میٹھے کی بھوک لگنی نانی اماں کی الماری سے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے بوندی چراتے رہتے۔ بڑی انٹیک اور خوبصور قسم کی بڑی پیٹی کے جیسی لکڑی کی الماری تھی وہ۔ مختلف خانے تھے اسمیں اور چھوٹا سا ایک دروازہ تھا۔ نانا جی کہا کرتے تھے کہ محرم میں گوشت نہیں کھانا چاہیے۔ شاید اسی لیے ہمیشہ چنے والے پلاؤ کی دیگیں اترتی تھیں۔ ویسے نانا جی کو   خود بھی گوشت کوئی زیادہ پسند نہیں تھا۔

پھر ہم لوگ جوان ہوئے اور کچھ رشتے اردو اسپیکنگ ہندوستانیوں میں ہوئے اور اسکے ساتھ ہی تبرک میں قیمہ، بریانی، حلیم وغیرہ نظر آنے لگا۔ نانا جی کے وقت کی عزاداری بہت سادہ سی ہوتی تھی۔ بچے گلہ کرتے مگر وہ غصہ کر لیتے اور بری طرح جھڑک دیتے کہ امام کے سوگ میں یہ سب نہیں ہو سکتا۔ اور شخصیت ایسی جلالی تھی کہ پھر کسی کی ہمت ہی نہ ہوتی کہ بات دوسری بار کرے۔ یہ وہ بنیادی فرق تھا جہاں سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ انکا خوراک میں سادہ مزاج ہونا شاید مذہبی تاویل کیساتھ پنجابی ہونا بھی تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے امی سے لیکر نانا جی تک سب سبزی ہی شوق سے کھاتے تھے اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ کم از کم سطح پر یہ لوگ ویجیٹیرین ہی تھے۔ یہ شاید انھیں صدیاں پنجاب میں گزارنے اور ہندو مسلم سکھ سماج کی باہمی معاشرت سے ملا تھا۔ مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بیہار اور یو پی میں بھی تو ہندو مسلم اکٹھے رہتے تھے، وہاں ایسا کیوں نہ ہوا؟ اس سے ایک بات تو یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ ہندو مسلم سکھ پنجابی بھائی چارہ یو پی بہار کے ہندو مسلم کے بقائے باہمی کے فارمولے یا فلسفہ سے بہتر تھا۔ نیز تقسیم ہند سے پہلے کے پنجاب میں ایسی فرقہ واریت بھی نہ تھی جو اب دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ تقریباً تمام فرقوں کے جید علمائے اکرام اکثریت میں غیر پنجابی ہی تھے۔

اُردو اسپیکنگز میں شادیوں کے بعد ہمارے دیہی خاندان کی معاشرت سے سادگی عنقہ ہو گئی۔ شہریوں کی نقل میں الٹے سیدھے فیشن بھی کیے جانے لگے اور جہاں شادی بیاہ کی رسومات میں اضافہ ہوا وہیں مذہبی رسومات بھی برھتی گئیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے بڑے بھائی صاحب کی شادی پر جب انھوں نے بھابھی کے پلو پر دو نفل نماز پڑھی تو سب نے بہت مذاق بنایا ۔ مگر یہ مذاق ہمیشہ کیطرح اتنی ہی دیر قائم رہا کہ جب تک دوسری شادیاں بھی ہندوستانیوں میں نہیں ہوگئیں۔ رفتہ رفتہ جب ہندوستانی بھابیوں اور بہنوئیوں کی تعداد بڑھی تو بتایا جانے لگا کہ تمھیں تو شرح اور مذہب کا کچھ پتہ نہیں۔ اب جب مکمل طور پر فرقہ واریت اور مذہب سے آزاد ہو کر ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں تو ہر آنے والے سال میں کچھ نئی  رسومات شامل ہوتی نظر آتی ہیں۔ اکثر سوچتا ہوں کہ ہم جب غیر مذہبی ہیں تو ہمیں مذہبی لوگوں سے پنگہ لینے کی بھی کیا ضرورت ہے۔ مگر پھر یہ سوچ کر لکھنے بیٹھ جاتا ہوں کہ کم از کم وہ پہلو جن سےمعاشرت یا یو ں کہیے کہ عمرانیات اور نفسیات کو سمجھا جا سکتا ہے ان پر غور و فکر کرنے یا مکالمہ کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں۔

میرا خیال ہے ہمارے دیہاتی خاندان میں پہلی تبدیلی کی مؤجب ہماری بڑی ممانیاں بنیں کیونکہ وہ شہر(گجرات) سے تھیں۔ مگران سے اتنا زیادہ فرق شاید اس لیے نہ پڑا کہ تھیں تو وہ پنجاب سے ہی۔ لیکن جیسے ہی یہ پنجابی غیر پنجابی کی کیمسٹری کا مس میچ ہوا تو معاشرت میں کافی ساری تبدیلیاں ایک ساتھ ہو گئیں۔پنجاب سے جو ان ہندوستانی اردو اسپیکنگز فیملیز نے اٹھایا وہ دھمال، ڈھول، ڈھولک اور شادی بیاہ کے چند ٹپے ہی تھے۔ باقی سب پر یا تو یہ لوگ معترض دِکھے یا پھر منہ بناتے، مذاق بناتے نظر آئے۔

بچپن کی شرارتوں کے دو واقعات جو شاید ہمارے پورے خاندان میں میرے حوالے سے مشہور ہوئے یا یوں کہیے جن سے مجھے کافی شہرت یا بدنامی ملی ان میں سے ایک تو یہ ہوا کہ جب ہم لوگ عشرہ محرم کے لیے اٹھارہ چک پہنچے تو دیکھا کہ باؤ جی(نانا جی کو تمام گاؤں اور انکے بچے باؤ جی ہی کہتے تھے)۔ باؤ کی اصطلاح پنجاب میں اعلی سرکاری ملازمین کے لیے بھی استعمال ہوتی تھی اور شاید اسی لیے ایک ٹرین کا نام بھی باؤ ٹرین ہوا کرتا تھا۔ ۔سواس سے یہ تاثیر یا اندازہ بھی ہوتا ہے کہ پنجابی زمیندار گھرانے نوکر شاہی سے کس حد تک متاثر تھے ۔ اسکا ایک ثبوت یہ بھی تھا کہ میری دونوں بڑی ممانیوں کے والد بزرگوار جو گجرات سے تھے وہ ایس ڈی او اریگیشن تھے۔ نانا جی خود بڑے زمیندار تھے اور معمول کیمطابق تو یہی ہوتا کہ وہ اپنے ہم پلہ کسی زمیندار خاندان میں بیٹوں کی شادیاں کرتے مگر انھوں نے اسکے بر عکس ایک نوکری پیشہ خاندان کو ترجیح دی۔

اسکی ایک دوسری وجہ شاید کہیں یہ بھی رہی ہوگی کہ زمیندار خاندانوں میں انکے ہم پلہ اکثر خاندان رسہ گیر اور بدمعاش ٹائپ بھی ہوا کرتےتھے۔اسوقت یہ شعور اور ہمت نہ تھی کہ ان سے انکے فیصلوں کی وجہ جان سکتے۔ بہر حال پہلی ممکنہ وجہ کیمطابق آپ بہ آسانی سمجھ سکتے ہیں کہ انگریز کی پنجاب میں چھوڑی نوکر شاہی زمیندار پنجابی معاشرے پر کسقدر مضبوط اثر رکھتی تھی اور ایسے گھرانے کس حد تک اس سے مرعوب تھے۔ تیسرے نمبر والی ممانی بھی خاص شہری اور قزلباش فیملی سے تھیں۔یہاں شہروں کا اثر نمایاں نظر آتا ہے کہ لاہور میں قزلباش فیملی عزاداری کے حوالے سے سب سے آگے سمجھی جاتی تھی۔ تو رشتہ کرتے وقت شاید نانا کے لیے کہیں یہ بھی ایک متاثر کن پہلو رہا ہوگا۔

بہر حال ہماری تینوں ممانیوں کی بھی اپنی جگہ ہمت کہ انھوں نے اس خالص پینڈو دیہاتی خاندان میں، انکا ہو کر زندگیاں بتائیں۔ تیسری والی ممانی (اللہ انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے )جو کافی عرصہ پہلے فوت ہو چکی ہیں انکا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی رہا کہ وہ خود اُردو اور فارسی اچھی جانتی تھیں، مگر جب وہ اس خاندان میں آئیں اور پنجابی بولنے لگیں تونہ انکی اُردو اردو رہی ،نہ پنجابی ،پنجابی رہی۔ انکی پنجابی، پنجابی کی ایک نئی بولی تھی۔ شاید ایسے ہی صدیاں گزرنے کےبعد پنجاب کے مختلف علاقوں میں آریائی یا دیگر بیرونی مسلم حملہ آوروں کے مقامی آبادیوں سے مکس ہونے اورباہمی معاشرت ہونے پر مختلف بولیوں نے مستند شکل اختیار کی ہوگی۔ممانی کے اجداد کی زبان اردو نہیں فارسی تھی ،تو وہ بڑے شوق سے بڑے بھائی کو بتایا کرتی تھیں کہ انھیں پہلے فارسی بھی آتی تھی۔ بھائی انکے ساتھ اکثر سیکھنے کی غرض سے فارسی بولنے کی کوشش کرتے تھے، مگر انکے علاوہ انسے کوئی اردو میں بھی بات نہیں کرتا تھا۔ شاید اسوقت تک ہمارے خاندان کو زیادہ اُردو آتی بھی نہیں تھی۔

ایک مرتبہ اپنے بڑے اموں کے بچوں اور انکے ننہالی رشتہ داروں کیساتھ ماموں کے فارم ہاؤس پر جا رہا تھا تو راستے میں انکے ماموں زاد بھائیوں سے جو گجراتی شہری فیملی سے تھے اردو میں بات کر لی تو ماموں زاد بھائی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ’’ پھپھیوں کی اولاد بھی اب گلابی اردو بولنے لگی ہے‘‘۔ انکی یہ بات آج بھی دل پر کانٹے کی طرح لگتی ہے کہ ایک اچھے بھلے صاحبِ حیثیت پنجابی خاندان کی اولاد کا یہ احساس کمتری کیا تھا؟ خود اپنے اجداد اور ماں بولی کو وہ اتنا کمتر کیوں سمجھتے تھے؟ وہ اُردو کو کیا توپ سمجھتے تھے؟ گلابی بول دی تھی تو کونسا گناہ کبیرہ ہوگیا تھا، کونسا غالب قبر سے نکل کر پیٹنے لگا تھا اور نہ بھی بولتا تو کیا تھا؟ اردو بولنے پر مجبور اس لیے ہوا کہ میرے ماموں زاد بھائیوں کے ماموں زاد آپس میں اُردو میں بات کر رہے تھے اور دلچسپ حقیقت یہ کہ ایک گجراتی شہری پنجابیوں کی اولاد کہ جن کے والد اسوقت اسلام آباد میں رہتے تھے اور دوسرے خالص فیروزپوری دیہاتی پنجابی!

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے۔۔

Facebook Comments

عمار کاظمی
عمار کاظمی معروف صحافی اور بلاگر ہیں۔ آپ سماجی مسائل پر شعور و آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply