مکالمے کی تمہید میں ۔ذوالفقار زلفی

بلوچستان ہمارے خطے کا ایک ایسا سلگتا ہوا مسئلہ ہے جس پر عموماً کم توجہ دی جاتی ہے. اس مسئلے کی یاد بھی اس وقت آتی ہے جب بلوچستان میں کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس کا تعلق باقی ماندہ پاکستان اور بالخصوص پنجاب سے ہو. جیسے 2010 کو بلوچستان یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ناظمہ طالب کو بلوچ مسلح تنظیم نے کوئٹہ کی سڑک پر یہ کہہ کر قتل کردیا کہ وہ پاکستان کے عسکری اداروں سے مل کر بلوچ قومی مفادات کو نقصان پہنچارہی تھی.

ناظمہ طالب کے قتل پر جہاں پاکستان بھر سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا وہاں جمیل اکبر بگٹی اور لشکری رئیسانی جیسے بلوچ سرداروں نے اسے بلوچ روایات پر حملہ قرار دے کر قاتلوں کو بے غیرت کے نام سے یاد کیا. دوسری جانب بلوچ خواتین پینل سمیت بلوچ عوام کی اکثریت نے قاتلوں کی بھرپور حمایت کی جس پر بلوچ دانشور اور روزنامہ انتخاب کے ایڈیٹر انور ساجدی نے شدید رنج کا اظہار کیا.

ناظمہ طالب کے قتل کے چند مہینوں بعد 2011 کو بلوچستان یونیورسٹی کے پروفیسر اور ممتاز بلوچ دانشور صبا دشتیاری کوئٹہ کی سڑک پر “نامعلوم” گولیوں کا نشانہ بنے. صبا دشتیاری کے قتل کے خلاف کراچی سمیت بلوچستان بھر میں شدید احتجاج ہوا مگر باقی ماندہ پاکستان لاتعلق رہا. “محتاط” بلوچ انٹیلیجنشیا جس نے ناظمہ طالب کے قتل کی شدید مذمت کی تھی اس سانحے پر عوامی سطح پر خاموش اور نجی محفلوں میں یہ کہتے پائے گئے کہ “صبا صاحب نے خودکشی کا راستہ اپنایا”.

ایک جیسے دو افراد ایک ہی مقام پر، مختلف قوتوں کے ہاتھوں قتل ہوئے. ردعمل مختلف آیا. بلوچ اور باقی ماندہ پاکستان کے درمیان موجود تضاد کی شدت کو اس واقعے سے بھی سمجھا جاسکتا ہے. یہی سب کچھ آج پنجابی مزدوروں کے بہیمانہ قتل سے بھی نظر آرہا ہے. ایک طرف بلوچ اکثریت اس قتال کے دفاع میں کمربستہ ہے دوسری طرف پاکستانی طیش میں غرارہے ہیں.

ایسا کیوں ہے؟. میں سمجھتا ہوں اس کیوں کا جواب بلوچ قومی تحریک اور پنجابی (پنجابی سے مراد پاکستانی عسکری اسٹبلشمنٹ لیا جائے جس کی معاشی، سیاسی و فوجی قوت کا مرکز پنجاب ہے) کے درمیان موجود مخاصمانہ تضاد میں پنہاں ہے. جب ہم کہتے ہیں اس واقعے یا شاید سانحے کو کُل کی صورت دیکھا جائے تو کامریڈ شاداب مرتضی دور کی کوڑی لاکر عصمت دری کی مثال دیتے نظر آتے ہیں. اگر ڈاکٹر کو کسی بیماری کا علاج دریافت کرنا ہو تو وہ سب سے پہلے اس وائرس کو تلاش کرنے کی کوشش کرے گا جو بیماری پیدا کرنے کا باعث ہے. محض مذمت ہی اگر اس مسئلے کا حل ہوتا تو آج سات سال بعد ہم پھر اسی جگہ نہ پہنچتے جہاں تھے.

آئیے سلمان رشدی کے ڈھاکہ چلتے ہیں. سلمان رشدی کے مطابق پاکستانی فوجی جوان ڈھاکہ کی خواتین ہاسٹل میں گھستے، خواتین کو بالوں سے پکڑ کر سڑک پر لاتے پھر ان خواتین میں گھستے. مکتی باہنی کے وہ نوجوان جو بہن کی اس بے توقیری پر انتقامی جذبے سے سرخ تھے انہوں نے یہی واردات بہاری خواتین کے ساتھ دہرا کر “بدلہ” لیا.

ایک نظر اردو زبان کے معروف شاعر ن.م راشد پر بھی ڈال دیں تو کیا حرج ہے.

اس کا چہرہ، اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک شبستاں یاد ہے
اک برہنہ جسم آتشداں کے پاس
فرش پر قالین، قالینوں پہ سیج
دھات اور پتھر کے بت
گوشۂ دیوار میں ہنستے ہوئے!
اور آتشداں میں انگاروں کا شور
ان بتوں کی بے حسی پر خشمگیں
اجلی اجلی اونچی دیواروں پہ عکس
ان فرنگی حاکموں کی یادگار
جن کی تلواروں نے رکھا تھا یہاں
سنگ بنیاد فرنگ!
اس کا چہرہ اس کے خد و خال یاد آتے نہیں
اک برہنہ جسم اب تک یاد ہے
اجنبی عورت کا جسم،
میرے” ہونٹوں” نے لیا تھا رات بھر
جس سے ارباب وطن کی بے حسی کا انتقام
وہ برہنہ جسم اب تک یاد ہے!

یقیناً، ایک انسان ہونے کی حیثیت سے نہ مکتی باہنی کے نوجوان کو درست تسلیم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بلوچ سرمچار و ن.م راشد کو لیکن تشدد اور بے توقیری کے عمل سے گزرتے انسان کی نفسیات کو ہم اپنی خواہشات کے مطابق ڈھالنے سے معذور ہیں.

ایک فلم کا تذکرہ بھی کردوں تو شاید مناسب ہو. برسوں پہلے ایک ملیالم فلم دیکھی (نام یاد نہیں آرہا). فلم میں پڑھے لکھے ڈاکو ایک مسافر بس کو یرغمال بنالیتے ہیں. مسافروں میں ایک شخص ہمارے قابل دوست کامریڈ شاداب مرتضی کی مانند نظریاتی سوشلٹ ہوتا ہے. سوشلسٹ اور ڈاکوؤں کے سربراہ کے درمیان مکالمہ ہوتا ہے. ڈاکو کے مطابق ریاست کی جانب سے ہم پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور یہ مسافر اس ریاست اور اس کے سسٹم کے حامی ہیں لہذا ہمارے نزدیک یہ اور فوجی ایک جیسے ہیں. سوشلسٹ پوچھتا ہے اگر تمہیں کالا تھپڑ مارے تو کیا تم اس کا بدلہ پیلا سے لوگے؟. ڈاکو جواب دیتا ہے اگر کالے کے تھپڑ کو پیلا درست سمجھ کر مجھے دوسرا تھپڑ مارنے کی بھی خواہش کرے گا تو میں ایسا کیوں نہ سمجھوں؟. سوشلسٹ بات آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے، کیا یہ بہتر نہ ہوگا تم پیلے کو مارنے کی بجائے اسے شعور دو تانکہ وہ تمہارا ساتھ دے. ڈاکو قہقہہ لگا کر کہتا ہے اگر سب کچھ مجھے ہی کرنا ہے تو تم کیا کروگے؟. مختصراً، ڈاکو پولیس کی گولی سے اور سوشلسٹ ڈاکو کی گولی سے ہلاک ہوجاتے ہیں. کالا اور پیلا جہاں تھے سو ہیں.

سندھی مزدوروں کے قتل کے بعد ہم نے عرض کیا تھا بلوچ نوجوانوں میں فرسٹریشن بڑھتا جارہا ہے، وہ سمجھتے ہیں وہ اس جنگ میں تنہا ہیں اور پورا پاکستان ان کے خلاف متحد ہے. تنہائی کے اس احساس نے انہیں ہر چیز سے بیگانہ کردیا ہے. آن لائن جریدے “ہم سب” پر لبرل کالم نگار وصی بابا کا حالیہ کالم جس میں انہوں نے ڈاکٹر اللہ نذر کی مقبولیت اور بلوچ تحریک کے خاتمے کی خواہش کو خبر کے طور پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے بلوچ نوجوانوں کے اس تاثر کو مزید پختہ کرتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

مکالمے کو جاری رہنا چاہیے. بلوچ نسل پرست نہیں ہے اسے اس جانب دھکیلا جارہا ہے. یہ دھکا دوست اور دشمن دونوں دے رہے ہیں. کم از کم دوست اس میں حصہ نہ لیں تو شاید ہم بلوچ تحریک کو اس خطے میں طبقاتی انقلاب لانے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرسکیں. وگرنہ کالا اور پیلا تو وہاں رہیں گے جہاں تھے مگر ہم نہ ہوں گے۔

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply