حکومت وقت اور انتظامیہ کی ذمہ داری۔۔۔۔عبدالرؤف خٹک

ماہِ محرم کے دس دن گزر چکے لیکن ایک مسئلہ جو اپنی جگہ ابھی  بہت دن تک قائم رہے گا کہ مختلف مواقع پر شہر کے راستے بند کرکے لوگوں کو مشکلات سے دو چار کرنا۔۔۔۔موبائل فونز بند  کرکے پورے ملک کا رابطہ دنیا سے منقطع کردینا،اعتراض کسی قوم ،گروہ ،جماعت یا فرقے ، مسلک پر نہیں ہے کہ وہ کیوں یہ سب کچھ   کرتے ہیں ؟ یہ ان کا مسلک ہے ،اور ہمیں اس پر اعتراض کا کوئی حق نہیں ۔۔۔۔
ہاں! حکومت سے شکایت ضرور بنتی ہے ،کیا حکومت کے پاس کوئی روڈ میپ نہیں ؟ کیا ان لوگوں کے لئیے کوئی روٹ یا وضع کردہ طریقہ کار نہیں ؟حکومت اور سکیورٹی اداروں کو مل بیٹھ کر ایسے مؤثر طریقے وضع نہیں  کرنا چاہیئں کہ   پوری قوم بھی پریشانی سے بچی رہے اور اس مکتب فکر کو بھی کوئی ناراضگی نہ ہو ، اگر فریقین خوش اسلوبی سے ان معاملات کو حکومتی سرپرستی میں من وعن قبول کرلیتے ہیں ،تو یہ” سونے پر سہاگہ ” ہوگا ۔
اب شہروں کے وہ پہلے والے حالات نہیں رہے ،پہلے آبادی اور ٹریفک معمول سے کم ہوتی  تھی  ،اگر راستے بند ہوتے بھی تو رش نہ ہونے کی وجہ سے لوگ باآسانی دوسرے راستے سے نکل جاتے ،لیکن اب ٹریفک کا شہر میں جم غفیر اور اوپر سے بازاروں کے دونوں جانب ٹھیلوں اور گاڑیوں کا کھڑا ہونا ،شہروں میں پارکنگ نہ ہونے کی وجہ سے بھی رش کا بہاؤ بڑھ جاتا ہے ،اور آپ جو سفر آدھے گھنٹے میں طے کرتے ہو وہ ان دنوں گھنٹوں پر محیط ہو جاتا ہے ،
ان دنوں کے حوالے سے میرا اک دوست بتاتا ہے ،جب یہ لوگ ہماری گلی سے  اپنا جلوس یا قافلہ لیکر جاتے ہیں تو اس قافلے کو نکلنے میں پورے دو گھنٹے لگ جاتے ہیں ،میرا یہ دوست شہر کے بیچوں بیچ رہتا ہے ،جب میں نے ان سے پوچھا کہ اس دوران آپ لوگ کیا کرتے ہو ؟ کہتا ہے کہ گھر میں قید ہوکر رہ جاتے ہیں ،یعنی ان دس دنوں میں شہر والوں کی زندگی درہم برہم ہوکر رہ جاتی ہے ،
اگر دیکھا جائے تو شہر میں اس مکتب فکر کے لوگ اتنی تعداد میں نہیں ہوتے اس میں زیادہ تر بناوٹی ہوتے ہیں ،جو شوقیہ کالے کپڑے پہن کر ان کے غم میں برابر کے شریک ہوجاتے ہیں ، اگر تعداد کی نسبت سے یہ لوگ شہر میں اقلیت میں ہیں تو پھر انتظامیہ اکثریت کو تکلیف میں کیوں رکھتی ہے ؟
یہ حکومت وقت اور انتظامیہ کی  ذمہ داری بنتی ہے ،وہ ان لوگوں کو مؤثر سکیورٹی دے نا کہ شہروں کو بند کرکے یا عوام کو گھروں میں محصور کر کے انتظامیہ اپنی جان چھڑائے ،
میں عام دنوں میں ڈیوٹی سے اپنے گھر کا دورانیہ 20 منٹ میں طے کرتا ہوں ،لیکنان دنوں میں  انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے مجھے یہ راستہ اک گھنٹے میں طے کرنا پڑتا ہے ،اور راستے میں جن تکالیف اور پریشانیوں سے گزرنا پڑتا ہے وہ اک الگ کوفت، راستوں کی تنگی کا رونا اپنی جگہ راستوں کا بند ہونا وہ اپنی جگہ، سونے پر سہاگہ، یہ جا بجا بچے اور بڑے روڈ کے بیچ میں پانی کی سبیلیں لگائے بیٹھے ہوتے ہیں،پانی کی سبیلیں لگانا کوئی بری بات نہیں ،لیکن ان تمام معاملات کو اک خوبصورت سیٹ اپ کے ساتھ ہونا چاہئیے ،تاکہ کسی دوسرے مسلک والے کو تکلیف بھی نہ ہو ۔۔
میں نے اسی مکالمہ پر اک تحریر شائع کی تھی ،دوران سفر میری ساس کی طبیعت ریل میں بگڑ گئی تھی جسے طبی امداد دینے کے لئیے ہم اپنے مقام سے پہلے ہی اتر گئے تھے ،شہر کے اک سول ہسپتال میں مریض کو ایڈمٹ کیا گیا تھا جسے بروقت طبی امداد دی گئی ،لیکن کچھ ہی دیر بعد مریض کی حالت بگڑ گئی اور مریض گیسپن میں چلا گیا ،دوران ڈیوٹی ڈاکٹر نے بلاکر تمام صورت حال سے آگاہ کیا کہ مریض کی حالت بہتر نہیں ہے ،اور کچھ بھی ہوسکتا ہے ،یہ سن کر میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ،نیا شہر نئے لوگ کوئی پرسان حال نہیں ،اب جب موبائل نکال کر گھر والوں سے رابطے کی کوشش کی تو کوئی رابطہ نہیں ،پورا خاندان ٹٹول لیا لیکن رابطہ ممکن نہیں ،وجہ؟ محرم کی 9 اور 10 تاریخ کا ہونا تھا ،
یعنی میں دو دن کے لئیے اپنوں سے کٹ کر رہ گیا تھا ،یعنی آپ اس دور جدید میں بھی بے یارو مددگار ،سب کچھ کے ہوتے ہوئے بھی، مرتا کیا نہ کرتا ،میں نے بھی اپنے دکھوں اور افسوس کا ماتم کرنا شروع کردیا ،خیر بعد میں اللہ کے کرم سے مریض تو بہتر ہوگیا تھا لیکن وہ دو دن ہم نے جس کرب میں گزارے تھے وہ مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔
ان تمام باتوں کا مقصد کسی مسلک ،گروہ یا فرقے کی دل آزاری کرنا   نہیں ،بلکہ حکومت وقت سے شکایت  ہے  کہ جہاں ایک  طرف  اہلِ تشیع بھائیوں کا خیال رکھا  جاتا ہے وہیں باقی شہریوں کی آسانیوں کا بھی خیال رکھا جائے۔

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply