بے چینی۔۔کبریٰ پوپل

ہم اکثر ایک خاص قسم کی کیفیت سے گزرتے ہیں جب ہمارے آس پاس سب ٹھیک ہونے کے باوجود دل اندر سے بہت بھاری اور بے چین ہوتا ہے ہم کھل کر رونا چاہتے ہیں ، لیکن وجہ معلوم نہیں ہوتی یہ کیفیت انسان کو اندر ہی اندر کھاۓ جاتی ہے اور عجیب کشمکش میں مبتلا رہتا ہے ،ایسے حال میں کیا کرنا چاہیے ؟
یعنی اس کی دوا کیا ہے ؟

اس بات کا ذکر لوگوں سے کیا جائے یا کسی دنیوی وسیلے سے خود کو بہلایا جاۓ ۔ ۔لیکن ان دونوں راستوں کی کوئی منزل نہیں ۔
آپکا دوست آپ سے ملنا چاہے تو ملنے کے لئے آپکو کالز کرے گا تاکہ آپکو خبر ہو کہ وہ آپکا منتظر ہے لیکن اگر آپ نے Mobile کو silent mood پر رکھا ہو تو کیا ممکن ہے کہ آپ اسکی کالز سن سکیں ؟

بس یہی بات ہے ۔الله کے نور کا نزول انسان کے دل پر ہوتا ہے ۔یہ بے چینیاں الله کی طرف سے کالز ہیں ،جسکی آواز دنیا کے شور میں گم ہوجاتی ہے  ۔
بےچینی الله کی نعمت اور قرب کی نشانی ہے انسان خوشی میں الله کو ویسے نہیں پاتا جس طرح درد اور تکلیف میں ڈھونڈتا ہے اس کے پیچھے وجہ یہ ہے کہ خوشی انسان کو دنیا سے ملتی ہے اور واپس اسی کی طرف لوٹاتی ہے اسکا مزہ عارضی ہوتا ہے جبکہ درد انسان کو توڑ کر رکھ دیتا ہے اور ملتا یہ بھی دنیا سے ہی ہے لیکن اب یہاں دو راستے نکلتے ہیں  ایک یہ کہ دنیا کے ہاتھوں ٹوٹ کر واپس دنیا کی طرف لوٹ جانا دوسرا خالق حقیقی کی طرف رجوع کرنا  ۔

ایسی کیفیت میں قرآن پاک کو اٹھائيں اور اسے کھول کر جو کوئی بھی سوره ,آیات آپ کے سامنے آۓ اسکو پڑھنا شروع کرديں ترجمے کے ساتھ ،اب آہستہ آہستہ آنکھوں سے آنسو  گريں گے اور بے چینی سے نکل کر ایک عجیب سی حالت میں داخل ہوجائیں گے، جہاں پڑھی جانے والی ہر آیت میں آپکو لگےگا کہ جیسے قرآن آپ سے مخاطب ہے وہ آیت جو چند لفظوں پر مشتمل ہے اسکی گہرائی  سمندر کی مانند لگے گی ,ہر سوال کا جواب سامنے آتا چلا جاۓ گا۔ کہیں الله حوصلہ دے رہا ہوگا تو کہیں احسان کا ياد دلانا ، قيامت کا منظر پیش کرے گا۔ پھر ساتھ ہی جنّت کا وعدہ بھی کرےگا ,دنيا کی  چالوں سے خبردار کریگا اور ساتھ ہی دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راستہ بھی بتاۓگا۔

Advertisements
julia rana solicitors

الله سے کلام میں وہ اس قدر کھوجاۓگا کہ اسے  يوں محسوس ہوگا جیسے آس پاس کسی چیز کا وجود باقی نہ رہا، بس وہ اور اسکا رب ہے، اور آخری کیفیت جو اس پر آۓ گی جب اسکا دل ہلکا اور مطمئن ہوجاۓگا ۔
اس پورے  مرحلے سے گزر کر جو لطف محسوس کرے گا اسے زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے حالات اور  کیفیات  کا انسان پر آنا اسکا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ گنہگار ہے بلکہ ہر انسان اس وقت سے گزرتا ہے غور کرنے والوں کے لئے اس میں بہت بڑی نشانی ہے کہ یہ الله اور انسان کی ملاقات سے پہلے کا وقت ہے یعنی الله اپنے پسندیدہ بندوں کو خاص طور سے بلاتا ہے اور اسے اشارہ دیتا ہے کہ مجھ سے قرآن پاک کے ذريعے سے بات کر اور اس میں پوشیدہ راز اور پیغامات کو سمجھ ۔
بقول علامہ اقبالؒ:
کاش گویم آنچہ در دل مضمر است
این کتابے نیست چیزے دیگر است
مثل حق پنہاں و ہم پیدا است این !
زندہ و پائندہ گويا ست اين !
ترجمہ:( جو بات میرے دل میں چھپی ہوئی ہے وہ میں صاف صاف کہہ  دیتا ہوں کہ یہ (قرآن حکیم ) کتاب نہیں ہے کوئی  اور ہی شئے ہے چنانچہ یہ حق تعالی کی ذات کی مانند پوشیدہ بھی ہے اور ظاہر بھی ہے نیز یہ ہمیشہ زندہ اور باقی رہنے والا بھی ہے اور یہ کلام بھی کرتا ہے۔)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply