بیماری کی جڑ

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ “جب تم دیکھو دنیا کے لوگ دنیا کے ہی پیچھے بھاگ رہے ہیں تو اس وقت اس بات کا خیال رکھو کہ تمہارا نفس تم سے کیا فرمائش کر رہا ہے، اگر وہ اسی دوڑ کے لیے تمہیں اکسانے کی کوشش کر رہا ہے تو خوب جان لو کہ تمہیں خود پر ہی وار کر کے خود سے ہی جنگ کرنی پڑے گی اور اگر اس وقت اس جنگ سے فرار اختیار کر لیا تو تمہارا بھی وہی حال ہونا ہے جو باقی لوگوں کا ہونا ہے۔ اور اگر اس وقت خود کے خلاف خود ہی تلوار اٹھالی تو تمہارا سرخرو ہونا طے ہے”۔

اس ایک کلام شیریں سے اس بات کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ ایک مسلمان کو اپنا محاسبہ آپ کرنا ہو گا، کیوں کہ ہر شخص اپنے آپ سے بخوبی واقف ہے، اسے معلوم ہے کہ میرا ضمیر مجھے کس جانب اشارہ کر رہا ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک مشہور قول ہے کہ” اپنا حساب لو قبل اس کے کہ تمہارا حساب لیا جائے”۔گویا خود ہی اپنا محاسب بننا خود کو فائدہ پہنچانے کے برابر ہے، اور اپنا محاسبہ آپ نہ کرنا خود ہی اپنا دشمن بننے کی مانند ہے۔ اس لحاظ سے بحیثیت مسلمان ہمیں ہر حال میں اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔یہ احتساب نہ صرف انفرادی طور پر ضروری ہے بلکہ اسے اجتماعی زندگی میں بھی بڑی اہمیت ہے، قوموں کے عروج زوال میں احتساب کا بھی عمل دخل ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی احتساب قوموں کی روح بن جاتا ہے اور اسی کے نہ ہونے کی وجہ سے قوم ترقی سے تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔آج مسلم ممالک کے درمیان جو مسائل ومشکلات کے پہاڑ ہیں ان کی ایک وجہ حکومتی سطح پر احتساب نہ ہونا بھی ہے۔مسلم ممالک ہر جگہ غیروں کے باجگزار بن چکے ہیں حالانکہ سب کا یکجا ہوجا نا ایک ایسی طاقت ہے جس کے آگے کوئی نہیں ٹک سکتا تھا، لیکن افسوس ہم ایک ملت ہونے کے باوجود بھی اس قدر سخت ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر پا رہے ہیں ۔ یہ سب ہماری اجتماعی زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم میں خود احتسابی پیدا ہو جائے تاکہ ہماری انفرادی زندگی بھی کامیابی سے ہمکنار ہو اور اجتماعی زندگی بھی کامیابی سے گزرے۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply