• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • رسول اللہﷺ اورامام علی (ع)کا امام حسین (ع) کے غم میں غمگین ہونا۔۔۔۔ سید حسنی الحلبی

رسول اللہﷺ اورامام علی (ع)کا امام حسین (ع) کے غم میں غمگین ہونا۔۔۔۔ سید حسنی الحلبی

امام احمد بن حنبل نے مسند میں روایت نقل کی ہے کہ
عبد اللہ بن نجی اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ حضرت علی (ع) کے ساتھ جا رہے تھے ،ہم نینوی (کربلا) سے گزرے،جبکہ ہم جنگ صفین کی لڑائی کے لئے جا رہے تھے،تب حضرت علی (ع) نے ندا بلند کی اے ابا عبد اللہ صبر کرنا ، اے ابا عبد اللہ فرات کے کنارے پر صبر کرنا،میں (راوی) نے کہا (یاعلی) ! ابا عبداللہ سے آپ کی کون مراد ہے ? حضرت علی (ع) نے کہا کہ میں ایک دن رسول اللہ (ص) کے پاس کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ،میں نے کہا یا رسول اللہ (ص) کیا کسی نے آپ (ص) کو غضبناک کیا ہے،جس کی وجہ سے آپ (ص) کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے ہیں ، تب رسول (ص) نے کہا نہیں ، ابھی جبریل میرے پاس سے گئے ہیں اور جبرئل نے مجھے بتایا ہے کہ حسین (ع) دریائے فرا ت کے کنارے شہید ہونگے .تب جبرئل نے کہا کہ یارسول اللہ (ص) کیا آپ اس زمین کی مٹی کو سونگھنا پسند کریں گے جہاں پر حسین (ع) شہید ہونگے?میں (رسول) نے کہا کہ ہاں ! چنانچہ جبرئل نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مٹی سے اپنے ہاتھ کو بھر لیا اور مجھے دے دی اور پھر میں اپنی آنکھوں پر قابو نہ پاسکا اور مسلسل گریہ کرنے لگا۔( مسند احمد،  احمد بن حنبل، تحقیق: احمد شاکر، ج : 2: ص 60،حدیث:648،طبع دار المعارف مصر)

Advertisements
julia rana solicitors

اسناد حدیث پر بحث :
>
> اس حدیث کی سند کے بارے میں محقق کتاب لکھتا ہے:قال أحمد شاكر : إسناده صحيح
>
> مسند ابو یعلی ٰالموصلی// احمد بن علی التمیمی//تحقیق:حسین سلیم اسد // ج : 1// طبع الاولیٰ ،1412 ھ ،جز 14 دار المامون التراث بیروت // ص 298 // حدیث:363
>
> محقق کتاب ،حاشیہ میں اس روایت کی سند کے بارے میں کہتا ہے : اسناد حسن ، اور صاحب مجمع الزوائد نے کہا ہے کہ اس کو احمد ،ابو یعلیٰٰ اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں
>
> محقق کتاب کہتا ہے نینوی ، نبی یونس (ع) کا گائوں تھا ،موصل عراق میں اور یہ نینوی وہی کربلا کی زمین ہے جہاں پر امام حسین (ع) شہید ہوئے تھے
>
> مندرجہ بالا روایت کو نقل کرنے کے بعد علامہ البانی کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد ضعیف ہے.نجی جو کہ عبد اللہ کا باپ ہے.اس کو کوئی نہیں جانتا کہ یہ کون ہے جیسا کہ ذہبی نے کہا ہے .ابن حبان کے سوا کسی نے اس کو ثقہ نہیں کہا ہے .اس کا بیٹا اس سے زیادہ مشہور ہے
>
> مگر البانی کہتے ہیں کہ ہیثمی نے لکھا ہے کہ اس کو احمد نے روایت کیا ہے ، اس طرح ابو یعلیٰ، بزار اور طبرانی نے اور اس کے تمام رجال ثقات میں سے ہیں .اوراس روایت کو صرف نجی نے نقل نہیں کیا بلکہ اور بھی رواۃ سے یہ مروی ہے
> البانی مزید کہتے ہیں کہ اس حدیث کے شواہد نے اس کو قوی بنادیا ہے اور یہ حدیث حقیقت میں صحیح کے درجے کو پہنچ جاتی ہے.
>
> اھل حدیث کے عالم حافظ زبیر علی زئی نے مسند احمد والی حدیث جو کہ نجی سے مروی ہے اس کی سند کو حسن کہا ہے اور کہا ہے کہ عبد اللہ بن نجی اور اس کا باپ جمہور کے نزدیک ثقہ ہیں اور ان کی حدیث حسن کے درجے سے کم نہیں ہوتی ملاحظہ کریں : نیل المقصود فی تحقیق سنن ابن داود:227
>
> فوائد الحدیث :
>
> اس صحیح حدیث سے مندرجہ ذیل مسائل ماخوذ ہوتے ہیں :
>
> 1۔ اس میں امام حسین ع کی عظیم فضیلت ہے ، اور وہ ہے رسول اللہ ع کا امام حسین ع کی جائے شہادت کو ملاحظہ فرما کر گریہ کرنا ، اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہیں ظلماً شھید کیا جائے گا ۔
>
> 2۔ اس میں تصریح ہے کہ امام حسین ع کربلا میں عراق کی سرزمین پر شھید کئے جائیں گے ۔
>
> 3۔ اس میں نبوت کے دلائل میں سے ایک دلیل ہے ، وہ یہ کہ رسول اللہ ع نے جیسے امام حسین ع کی شہادت کی خبر دی وہ ویسے ہی وقوع پذیر ہوئی ۔
>
> 4۔ اس میں نبوت کی ایک اور دلیل بھی ہے ، اور وہ عراق کے فتح ہونے کا اشارہ ہے ۔
>
> 5۔ ابن رسول اللہ ع کی شہادت کا سانحہ تاریخ اسلام کا انتہائی اندوہناک واقعہ ہے ۔
>
> 6۔ اس میں امیرالمومنین سیدنا مولا علی ع کے عظیم صبر کا بیان ہے ، کیونکہ انہوں نے اپنی شہادت تک اپنے بیٹے حسین ع کے قتل کی خبر کو صبر و شکر کے ساتھ اپنے سینے میں اٹھائے رکھا ۔
>
> آخر میں شہادت امام حسین ع کے حوالے سے علامہ ابن تیمیہ کے الفاظ نقل کر کے تحریر کو ختم کرتا ہوں
>
> علامہ ابن تیمیہ شہادت امام حسین ع کے حوالے سے لکھتے ہیں
>
> اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ امام حسین ع ظلماً شھید کئے گئے ، جیسا کہ ان کی مثل دوسرے مظلوم بھی قتل کئے گئے ۔ امام حسین ع کو جس نے قتل کیا ، جس نے قتل میں مدد کی یا جو ان کے قتل پر راضی ہوا اس نے اللہ اور اس کے رسول ع کی نافرمانی کی ۔ یہ ایسا قتل تھا جس کی وجہ سے اھل بیت ع اور دوسرے مسلمانوں کو تکلیف پہنچی اور امام حسین ع کو شہادت کا رتبہ نصیب ہوا ، ان کا درجہ بلند اور منزلت اعلی ہوئی ۔ دراصل بارگاہ الہی سے ان کے لئے اور ان کے بھائی کے لئے جس عظیم سعادت کا فیصلہ ہوچکا تھا اس کو پانا ایسی ہی آزمائش سے ممکن تھا ۔ ان دونوں کے نامہ اعمال میں وہ کچھ نہیں تھا جو ان کے اسلاف کو حاصل تھا ، کیونکہ انہوں نے آغوش اسلام میں عزت و سکون سے تربیت پائی ۔ لہذا ان میں سے ایک مسموم زھر سے شھید کیا گیا اور دوسرے کو قتل سے ، تاکہ یہ دونوں سعداء کے مراتب اور شھداء کے عیش کو پالیں ۔
>
> منھاج السنہ ۔ ج ۔ 4۔ ص 550

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply