ہسپتالوں کا نوحہ ۔۔۔۔ ثاقب ملک

یہ گزرے کل میں سے ایک دن کی بات ہے کہ میں والد صاحب کی علالت کی وجہ سے ایک فوجی ہسپتال میں موجود تھا. میرے ساتھ میرا چھوٹا بھائی بھی کھڑا تھا. ہم مین ریسیپشن کے ساتھ لابی میں کھڑے تھے. اچانک ساتھ بنے قطار در قطار کمروں میں سے ایک کارندہ نکل کر کہتا ہے کہ آپ یہاں سے ہٹ جائیں کیونکہ اندر کمانڈر صاحب موجود ہیں. میں نے کہا تو؟ فرمایا گیا کہ انکے کمرے کے سامنے کھڑے ہونے کی ممانعت ہے. میں نے جواباً صاف انکار کیا کیونکہ یہ پبلک ایریا تھا، کوئی مجھے وہاں سے نہیں ہٹا سکتا. اپنی ڈیوٹی سے مجبور فرض شناس اہلکار کچھ دیر اصرار کرتا رہا آخرکار میرا سرخ منہ دیکھ کر واپس چلا گیا.

اسی ہسپتال میں اوپری منزل پر ہم ماں بیٹا ویٹنگ ایریا میں بیٹھے آپریشن تھیٹر میں موجود ابو کے لئے دعائیں کر رہے تھے کہ فوجی وردیوں والے چیختے چنگھاڑتے نازل ہوئے کہ تمام افراد یہاں سے فوراً نکل جائیں. پہلے سمجھا شاید دشمن نے حملہ کر دیا ہے لیکن استفسار پر گارڈ بولا کمانڈر صاحب راؤنڈ لگا رہے ہیں. میں نے سوچا کیا کمانڈر شیطان ہے یا فرعون؟ یہ ہسپتال میں عام افراد کو دیکھنے سے کیا ہچکیاں لیکر مر جاتا ہے جو تمام بزرگوں، بچوں اور خواتین کو پبلک ایریا سے باہر نکال پھینک رہے ہیں؟.

مجھے ابھی تک جواب نہیں ملا.

ہمارے غیور اور جری عوام بھیڑ بکریوں کی طرح اپنے تکیے تھیلے اٹھائے حکم کی تعمیل کرکے اگلے فلور کی جانب چل نکلے.

ڈاکٹر صاحب جب بھی راؤنڈ لگاتے تھے تب بھی پورے فلور سے لوگوں کو ہٹا دیا جاتا. اربوں روپے کا بجٹ ہے مگر جنرلز، ہسپتالوں کو سعودی عرب اور امارات کے پیسوں سے اپ گریڈ کراتے ہیں. ایک بلڈنگ میں مریض ہے تو دوسری بلڈنگ میں ایکس رے مشین ہے. خون لینے کے لئے خون تھوکنا پڑتا ہے. ایک عمارت سے پرچیاں لیکر دوسری عمارت میں دھکے کھائیں. مریض کا سیمپل بھی گرمی میں خود جمع کروائیں.

سویلین تو ٹھہرے سویلین، اپنے ریٹائرڈ نچلے درجے کے فوجیوں کو پندرہ دن بعد ایکس رے کی رپورٹس ملتی ہیں. انکو کوئی گھاس نہیں ڈالتا کہ کونسے انہوں نے پیسے دینے ہیں. تین بجے تک زیادہ تر ریسیپشن سٹاف گھر پہنچ چکا ہوتا ہے. چھ بجے لوگوں کو دھکے دیکر باہر نکال دیا جاتا ہے کوئی مریضوں سے نہیں مل سکتا اور جب سب افسران کلبوں اور گھروں کا رخ کرتے ہیں تب گارڈز ہر کسی کو بغیر پوچھے اندر جانے دیتے ہیں. کوئی خاتون مریض کے پاس رات نہیں گزار سکتی. ان جاہلوں سے بندہ پوچھے کہ بیٹے اور شوہر کے ساتھ اسکی ماں اور اہلیہ نہیں تو کون تیمارداری کریگا؟. ایک سے ایک بڑھ کر احمقانہ رول نافذ ہے.

والد صاحب سی سی یو میں تھے تو میل نرس چادر ٹھیک کرنے کے دوران بولا . آپ سیدھے ہو کر لیٹ جائیں کیونکہ ڈاکٹر صاحب راؤنڈ لگانے آ رہے ہیں.. ابو نے کہا.. میں شو پیس ہوں کیا؟. پتہ نہیں جنرل ڈاکٹر صاحب پر اس بے ترتیبی کو دیکھنے کے بعد کیا گزری ہوگی. عجیب قسم کے حشرات الارض، نرسوں کے علاوہ سی سی یو میں پائے جاتے. نرسیں اکثر اوقات مین اسٹیشن پر گپیں لگانے میں مصروف رہتیں. ایک مریض والدہ صاحبہ سے التجا کرنے پر مجبور ہوگیا کہ میرے اوپر چادر دے دیں، سردی لگ رہی ہے. ایمرجنسی بٹن کہیں اوپر لگا ہوتا ہے جہاں مریض کا ہاتھ پہنچنا ہی ممکن نہیں ہوتا.

فوجی ہسپتال میں ڈاکٹر، ڈاکٹر نہیں ایک فوجی جنرل، بریگیڈیئر، کرنل وغیرہ ہوتا ہے. اسکے ساتھ چلنا مریض کے لئے ممکن نہیں. اس سے سوال پوچھنے پر وہ علاج سے صاف انکار کر سکتا ہے. ہاں عام قصائی ڈاکٹرز کے مقابلے میں آرمی کے ڈاکٹر نسبتاً زیادہ قابل اور زیادہ قوت فیصلہ کے حامل ہیں. میل نرسز بھی اچھے اور محنتی زیادہ ہیں. کپٹین تک شاید فوجی عام انسان ہی رہتا ہے. جانے اسکے بعد کیا نزول ہوتا ہے.

ایک ڈاکٹر کرنل صاحب کو ابو نے اس حالت زار کا نوحہ سنایا تو اپنے دکھڑے کھول بیٹھے، کہ میں کب سے مریضوں کو دیکھ رہا ہوں گھر بھی تین گھنٹے سویا.. اوپر سے آپ کی شکایات سن کر دس منٹ مزید ضائع کر دیئے. آپ لوگ شکر کریں جو مل رہا ہے. یہ قوم کام نہیں کرتی تو میں کیا کروں؟ سبحان اللہ.. مریضوں سے حسن سلوک کی جناب نے درخشندہ مثال قائم کر دی. ڈاکٹرز کی محنت اور مصروفیات سے انکار نہیں مگر انکے رویے، اپروچ اور سسٹم کی نا اہلیت کو مصروفیت کے پردے میں نہیں چھپایا جا سکتا.

اب سویلین ہسپتال کا سن لیں. ایک بڑے اسلام آباد کے ہسپتال میں جس کے نام میں شفا نامی کوئی چیز نہیں وہاں صرف ٹیسٹ کروا کر پیسے نکلوانا ہی اولین مقصد ہے. چھ دنوں میں والد صاحب کے 25، 30 ٹیسٹ کروا دئیے. حتیٰ کہ رات کو تین بجے سوتے ہوئے ابو کا بلڈ سیمپل لے لیا گیا. ایک نرس آتی اور انجکشن لگا جاتی، آدھ گھنٹے بعد ایک اور نرس وہی انجکشن لگانے آن پہنچتی ہے . کینولا لگاتے تو اسے بند چھوڑ جاتے یا اس بری طرح لگاتے کہ خون رواں ہوجاتا.

مریض کے لئے کھانے پینے کی کوئی چیز ہسپتال میں لانا ممنوع ہے. کنسلٹنٹ ڈاکٹر خود اپنے بے شرم منہ کے ساتھ کہتے ہیں آپ کھانا اسمگل کرکے لے آئیں. کیفے ٹیریا کا گندہ کھانا لازمی ہے. کیونکہ ٹھیکے دار سے شرائط طے ہیں. ساتھ رہنے والے تیمار دار کو خود بیسمنٹ میں کھانا لینے جانا پڑتا کیونکہ اسکا کھانا کمرے میں نہیں آسکتا. مریض کو لیز چپس بطور نیوٹریشنل خوراک دی جاتی ہے. حد ہے اور بس جاہلانہ حرکتوں کی حد ہے. چھ دنوں میں لاکھوں کا بل ہاتھوں میں تھما دیا اور مرض کی تشخیص تک نہ ہوسکی.

وزیر صحت ادھر توجہ دینگے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

 یہ تحریر ثاقب ملک کی فیس بُک وال سے لی گئی ہے!

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply