پیغامِ کربلا۔۔۔۔نذر حافی

چودہ سو سال سے وقت کھڑا ہے، ایک سا سماں ہے، ایک ہی ساعت ہے، کوئی تھرتھراہٹ نہیں، کوئی آہٹ نہیں، کوفے میں چہ مہ گوئیاں ہو رہی ہیں، لوگ ایک دوسرے سے خوفزدہ ہیں، دروازوں پر تبدیلی دستک دے رہی ہے، مگر ضمیروں کے کواڑ بند ہیں۔ جب بانی اسلامﷺ کی جان کو خطرہ تھا تو حضرت ابو طالب سائبان بن کر بھتیجے کے سر پر کھڑے ہوگئے، یہ چچا اور بھتیجے کی محبت نہیں تھی بلکہ عقیدے کی جنگ تھی، ورنہ چچا تو ابو لہب بھی تھا۔ جب دشمنوں کی سازشیں عروج پر پہنچیں تو آمنہؓ کے لخت جگرﷺ نے شعب ابی طالب میں جا کر پناہ لی، جب حضرت ابو طالب ؑ اور ام المومنین حضرت خدیجہؑ  کا وصال ہوگیا تو اس سال کو عام الحزن قرار دیا گیا، اس میں کوئی خاص بات تھی ورنہ رسولﷺ کے چچے اور بھی تھے اور امہات المومنین بھی دیگر تھیں،  کسی کی وفات کے سال کو عام الحزن قرار نہیں دیا گیا۔

مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کفار کا ایک وفد مسلمانوں کے تعاقب میں بادشاہِ حبشہ کے دربار میں پہنچا۔ بادشاہَ حبشہ، یعنی  نجاشی کے دربار میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنے کے لئے پھر کوئی اور نہیں حضرت ابو طالب کا بیٹا جعفر ابن ابیطالبؑ اٹھا۔ اسلام کے ساتھ حضرت ابو طالبؑ کا عجیب رشتہ ہے، ہر غزوے میں اسلام کا علمدار حضرت ابو طالب ؑ کا بیٹا “علیؑ” رہا۔ یہان تک کہ غزوہ خیبر میں ختم نبوت کا تاجدار پکار اٹھا: قالَ: لاءُعطِيَنَّ الرّايَةَ غَدا رَجُلا يُحِبُّ اللّهَ وَ رَسُولَهُ و يُحِبُّهُ اللّهُ وَ رَسُولُهُ كَرّارٌ غَيْْرُ فَرّارٍ، لا يَرْجِعُ حَتّى يَفْتَحُ اللّهُ عَلَى يَدَيْهِ۔ “کل میں علم اس کو دوںگا کہ جو خدا اور رسول کو دوست رکھتا ہوگا اور خدا و رسول اس کو دوست رکھتے ہونگے، مردہ وگا کرار ہوگا، فرار نہ ہوگا، یعنی جم کر لڑنے والا ہوگا بھاگنے والا نہ ہوگا اور اس کے ہاتھوں کامیابی و فتح حاصل ہوگی۔”

پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ یہ علم حضرت ابو طالب کے بیٹے کو عطا کیا گیا، جب علی ابن ابیطالب ؑ کو شہید کر دیا گیا تو پھر ابو طالب کے پوتے میدان میں اتر آئے اور اکسٹھ ہجری میں ابوطالب کا پوتا حسینؑ ابن علی ؑ یہ کہہ کر میدان میں اترا: إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الاِْصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَأَسيرَ بِسيرَةِجَدّى وَأَبى عَلِىِّ بْنِ أَبيطالِب۔ “میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور میں صرف اور صرف اپنے جد کی امت کی اصلاح کے لئے نکلا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ امر بالمعروف کروں اور نہی عن المنکر کروں اور میری یہ سیرت میرے جد رسول اللہ ﷺ کی اور میرے بابا علی ؑکی بھی سیرت ہے۔”

یعنی جو راستہ حضرت ابو طالبؑ کا تھا، وہی حضرت ابو طالب کے بیٹے اور پوتے کا بھی تھا، اکسٹھ ہجری میں ابوسفیان کے پوتے نے سوچا کہ میں آل ابیطالب ؑ کو لق و دق صحرا میں دفنا کر مٹا دوں گا اور یوں پیغامِ مصطفٰیﷺ مٹ جائیگا، لیکن عین اسی لمحے ابو طالب کی پوتی زینب کبریٰ، عقیلہ بنی ہاشم سامنے آگئی اور یوں اسلام ابو طالب ؑ کی اولاد کی قربانیوں کے صدقے میں پروان چڑھتا رہا، حتی کہ چودہ سو سال گزر گئے اور لوگ ظالم اور اوباش بادشاہوں کو ظل الٰہی کہنے لگے۔ لوگ بادشاہوں کو اسلام کا مالک سمجھنے لگے، ایسے میں اسلام کے دفاع کے لئے، بادشاہت کے خلاف اگر کسی نے قیام کیا تو اور کسی نے بھی نہیں کیا بلکہ اس نے قیام کیا، جس کی رگوں میں حضرت ابو طالب کا خون تھا اور دنیا جسے امام خمینیؒ کے نام سے جانتی ہے۔

چودہ سو سال کے بعد ابو طالب کے بیٹے خمینیؒ نے بادشاہت کا تختہ الٹ کر اقوام عالم کو یہ پیغام دیا کہ حقیقی اسلام وہ نہیں ہے، جو بادشاہوں کے قدموں میں سانس لیتا ہے بلکہ حقیقی اسلام وہ ہے، جو آج بھی بادشاہوں کے تختے الٹ دیتا ہے۔ جب بادشاہوں کے تخت تھرانے لگے تو اسرائیل کو  مرحب کے طور پر سامنے لایا گیا، عرب بادشاہوں نے اس کی طاقت کا کلمہ پڑھ لیا، دنیا بھر میں اسرائیل کی طاقت کے چرچے ہونے لگے، ایسے میں ابو طالب کے ایک بیٹے سید حسن نصرااللہ نے  اسرائیل سے 33 تینتیس روزہ جنگ مول لے کر اسرائیل کے غرور کو خاک میں ملا دیا۔ آج بھی مغرب اور مشرق کی شیطانی حکومتیں اور بادشاہتیں اگر کسی کے نام سے تھرتھراتی ہیں تو وہ کسی اور کا نام نہیں بلکہ ابوطالب کے ایک بیٹے سید علی خامنہ ای کا نام ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شام سے لے کر عراق تک اور اسرائیل سے لے کر افغانستان تک، پے درپے شکستیں کھانے کے بعد اب عالم کفر کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ اسلام لاوارث نہیں ہے، دنیا میں جب تک اسلام پر حملے ہوتے رہیں گے، ابو طالبؑ کی اولاد اسلام کے دفاع کے لئے قیام کرتی رہے گی، یہ تاریخِ اسلام کا بھی سنہری درس ہے اور کربلا کا بھی زرّیں پیغام ہے کہ جب تک آل ابو طالب دنیا میں موجود ہے، اسلام سربلند و سرفراز رہے گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply